مگر تناؤ باقی ہے کسی ہندو کے خلاف مقدمہ قائم نہیں ہوا ہے کسی مسلمان کی طرف سے نہ رپورٹ لکھی گئی ہے نہ مقدمہ قائم ہوا ہے افسروں نے دفعہ 144 لگادی ہے اور جن کا لاکھوں روپئے کا نقصان ہوا ہے انہیں معاوضہ دلانے کی تسلی دے دی ہے وہیں معاوضہ کے نقصان چار لاکھ کا اور معاوضہ چار سو روپئے۔
ان واقعات سے ایک دن پہلے گجرات سے خبر آئی تھی کہ وہاں کے ضلع پالن پور میں انتظامیہ نے جلوس کی بمشکل اجازت دی لیکن 16 شرطیں لگادیں جن میں سب سے اہم یہ تھی کہ جلوس کے دوران اسلامک سبز رنگ کا جھنڈا یا بینر لے کر نہیں چلیں گے کسی کے پاس کانگریس کا انتخابی نشان ہاتھ میں نہیں ہونا چاہئے۔ جلوس میں کوئی گاڑی نہیں ہوگی اور پورے شہر کے بجائے جلوس ایک چھوٹے روٹ پر جاکر آدھے گھنٹے میں واپس ہوجائے گا جلوس میں ساؤنڈ سسٹم کی دھیمی آواز رہے گی۔ یہ تو اس سال ہوا ہے جب صرف موہن بھاگوت اور اشوک سنگھل کی ٹولیاں ہندو حکومت اور آٹھ سو سالہ غلامی کے خاتمہ کی باتیں کررہے ہیں یہی حال رہا اور ظاہر ہے کہ اب تو یہی حال رہے گا کیونکہ ہندو آٹھ سو سال کے بعد تخت حکومت پر قابض ہوا ہے تو پھر مسلمانوں کو صرف جلوس اور جلسوں کے لئے نہیں عیدقرباں عیدگاہ میں لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع لاؤڈ اسپیکر پر اذان مسجدیں بھرجائیں تو سڑکوں پر نماز پر پابندی اور سب سے زیادہ بھاگل پور کی ہری پگڑی ہرا دوپٹہ اور ایام عزا میں شیعہ حضرات کے لباس میں ہرے دوپٹے اور ہری قمیضیں ایک مسئلہ بن جائیں گی۔
پالن پور میں جس ڈی ایم نے ہرے رنگ کو اسلامک کہا ہے وہ عقل کا دشمن ان درختوں کا کیا کرے گا جن کا ہر پتہ ہرا ہے اس کھیت کا کیا کرے گا جو پکنے سے پہلے سر سے پاؤں تک ہرے ہیں اور احمد آباد اور سورت کے کپڑے کے ملوں کو کیا پابند کیا جائے گا کہ وہ ہری ساڑی نہ بنائیں ہری چادر نہ بنائیں اور ہرے پردے نہ بنائیں؟ ہمیں نہیں معلوم کہ پالن پور کے ان مسلمانوں نے جو جلوس محمدیؐ نکالنا چاہ رہے تھے انہوں نے بے غیرت بن کر ان 16 شرطوں کی پابندی کے ساتھ نکالا یا خوددار مسلمان کی طرح وہ آرڈر ان کے سامنے ہی پھاڑکر پھینک کر گھر چلے آئے؟
جس دن سے مودی سرکار آئی ہے ہم برابر لکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر قدم پھونک کر اُٹھانا چاہئے۔ بات یہ نہیں ہے کہ سونیا یا راہل کی یا کانگریس کی کوئی بھی حکومت مسلمانوں کی حکومت تھی جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے لوگ تھے اور دستور کو پڑھ کر سمجھتے تھے کہ ہمارے بڑوں نے کیسی حکومت کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل 50 فیصدی ہی ہوسکا لیکن جن کی حکومت ہے وہ دستور کو پڑھتے نہیں صرف دیکھتے ہیں اور اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ہندو سماج خطرے میں تو ملک خطرے میں‘‘ انہیں صرف ہندو سماج کی فکر ہے وہ کبھی دھرم پریورتن کی بات کرتے ہیں کبھی گھر واپسی کی وہ رام لیلا کے جلوس سے تو سمجھتے ہیں کہ ملک کی حفاظت ہوگی اور جلوس محمدیؐ میں چونکہ زیادہ تر جھنڈے ہرے ہوتے ہیں اس لئے اسے دیکھ کر وہ سمجھتے ہیں کہ ملک خطرے میں ہے۔
ملک کے صدر محترم پرنب مکھرجی صاحب اس ٹیم کے کھلاڑی ہیں جو آزادی کے بعد ملک کو چلا رہی تھی ان کی قابلیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب وزیر اعظم کا دل کا آپریشن ہوا اور انہوں نے اپنی آدھے سے زیادہ ذمہ داریاں مکھرجی دادا کو دے دیں تو اس وقت کے بی جے پی کے سب سے بڑے لال کرشن اڈوانی نے ان کی کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ میں آپ کے کاموں کو دیکھ کر سوچا کرتا ہوں کہ اگر آپ نہ ہوتے تو اس حکومت کا کیا ہوتا؟ یہ جس وقت کی بات ہے وہ اس وقت وزیر مالیات تھے اور آج وہ ملک کے صدر محترم ہیں انہوں نے پورے ملک کا صدر ہونے کا ثبوت دینے کے لئے ملک کے لوگوں کو حضرت محمدؐ کی سالگرہ کے موقع پر ہفتہ کے دن مبارکباد اور نیک خواہشات دیں محترم صدر نے اس دن ضرورتمند لوگوں کی مدد اور بھلائی کے کام کرنے کا عزم کرنے کا مشورہ دیا۔ صدر مکھرجی نے اپنے پیغام میں کہا کہ عیدمیلادالنبیؐ کے مبارک موقع پر میں ملک میں اور ملک سے باہر رہنے و الے اپنے تمام ہم وطنوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ صدر مکھرجی نے کہا کہ حضرت محمدؐ کی سالگرہ مناتے ہوئے ان کی زندگی اور اقدار کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔
ہوسکتا ہے کہ یہ ملک کے آخری ایسے صدر ہوں جو حضور اکرمؐ کی سالگرہ پر مبارکباد دے رہے ہوں۔ ان کے بعد ہمیں ایسے صدر کی امید رکھنا چاہئے جو کہے گا کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر انسان ہندو کہلایا جانا چاہئے۔ اور ہندو سماج کو خطرہ ہے تو ملک کو بھی خطرہ ہے۔
اسی گجرات کے رہنے والے اور بارہ برس میں گجرات ماڈل بنانے والے شری نریندر مودی نے جو آج ملک کے وزیر اعظم ہیں انہوں نے بھی آج پیغمبر اسلامؐ کے یوم پیدائش کے موقع پر ملک کو عیدمیلاد النبیؐ کی مبارکباد دی ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ نہیں کہ ان کے آنے کے بعد ان کے جانشین نے ہرے رنگ پر پابندی لگادی ہے اور وہ سائنس دانوں سے شاید فرمائش کررہے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ایجاد کی جائے کہ جسے کھاد کی طرح ڈالا جائے اور اس کے اثر سے ہر پتہ ہندوانہ رنگ بھگوا رنگ کا ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان نہیں تو کسی دوسرے ملک کی مدد سے ایسی کھاد بنوانے کی کوشش کی جائے۔
اس سال جو کچھ ہوا یہ ابتدا ہے اب ملک کے مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سات مہینے کی حکومت کا نشہ تھا جو پانچ جگہ نظر آگیا اگلے سال یہ نشہ 19 مہینے کا ہوجائے گا تو شاید 25 جگہ جلوس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمراں ہندو بس رام لیلا کا جلوس نکلتے دیکھنا چاہتا ہے اور سکھوں کے گرو کے جلوس مسلمان 800 سال نکال چکے اب ہندو چاہتا ہے کہ وہ آرام کریں۔ اور یہ ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ اگر کسی فرض میں رکاوٹ ڈالی جائے تو مقابلہ کیا جائے لیکن جو فرض نہ ہو اس کے لئے نہ لڑنا ہی اچھا ہے۔
جواب دیں