رحمت،مغفرت اورآگ سے نجات کا مہینہ رمضان

ابونصر فاروق

    اس بات کو تقریباً سارے مسلمان جانتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے۔پہلا دس دن جسے عشرہ کہتے ہیں رحمت کا ہے،دوسرا مغفرت کا ہے اور تیسرا جہنم سے نجات کا ہے۔لیکن رمضان کو تین عشروں میں خاص صفت کے ساتھ بانٹنے کی جو حکمت ہے اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔سمجھا اور سمجھایاجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے دس دنوں (عشرہ)میں اپنے بندوں پر رحم فرماتا ہے۔دوسرے عشرے میں اُن کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور تیسرے عشرے میں جہنم میں جانے والے کام کرنے والوں کو توفیق دیتا ہے کہ وہ سدھر جائیں اورگویا اُن کو جہنم سے نجات دے دیتا ہے۔
(۱)    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اللہ کا بندہ ہے تو کیا وہ سارے انسانوں پر رحم فرماتا ہے ؟  نہیں تمام اہل ایمان یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایمان والے، نیک، صالح اور متقی بندوں پر رحم فرماتا ہے۔ جن لوگوں کے اندر یہ صفت نہیں ہوتی ہے چاہے وہ مسلم کہلاتے ہوں یا غیر مسلم، اُن پر رحم نہیں کرتا ہے۔اس مضمون کو سمجھنے کے لئے اس حدیث پر غور کیجئے:جو رحم نہیں کرتااُس پر رحم نہیں کیاجاتا۔(بخاری)
    یعنی اللہ کا جو بندہ اللہ کے دوسرے بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اُس پر رحم نہیں کرتاہے۔رحم کرنے کے تعلق سے کچھ اور حدیثیں یہ ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا، پھراس میں سے نناوے حصے اپنے پاس رکھے اورصرف ایک حصہ زمین پر اتارا۔یہ اُسی حصے کی برکت ہے جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں …………(بخاری)
    اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو بندے دوسرے بندوں کے لئے رحم دل ہوتے ہیں وہ اللہ کی صفت والے بن جاتے ہیں۔رحم دل ہونے کا کیا مطلب ہے، اس کوسمجھنے کے لئے اس حدیث کا مطالعہ کیجئے:
    رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ایک آدمی راستہ میں جا رہا تھا۔ اس کو بہت زیادہ پیاس لگی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک کنواں نظرآیا، اس نے اس سے پانی نکالا اور پیا۔ پھر اس نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی وجہ سے زبان نکالے ہوئے تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ کتے کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہے جیسی اس کو لگی ہوئی تھی۔ اس نے پھر کنویں سے پانی نکالا اور کتے کو پلایا۔اُس کے اِس عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اُس کے سارے گناہ معاف کر دیے۔ لوگوں نے پوچھا کیا جانوروں پر رحم کرنے پر بھی ثوا ب ملتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر جاندار پر رحم کرنے پر ثواب ملتا ہے۔ (بخاری، مسلم)
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کا جو بندہ کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہے اُس بندے کو اُس مصیبت یا پریشانی سے نکال دینا رحم دل ہونے کی دلیل ہے۔موجودہ دور میں بہت سے لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ بہتوں کی نوکریاں ختم ہو گئی ہیں۔تاجر اور دکانداروں کو کاروبار میں نقصان ہو رہا ہے۔کاریگروں کو کام نہیں مل رہا ہے۔اور اس کی سب سے بری مار اُن کے گھر کے چولہے پر پڑ رہی ہے۔یعنی وہ کھانے کھانے کو محتاج ہو رہے ہیں۔ان میں ایسے شریف خاندان والے بھی ہیں جو بھوکوں مر رہے ہیں مگر اُن کی شرافت کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتی۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اتنی زیادہ دولت دی ہے کہ وہ زندگی بھر اُس کو استعمال نہیں کر پائیں گے،  اگر ایسے لوگ خاندان میں، محلے پڑوس میں تلاش کر کر کے ایسے لوگوں کی اپنے مال سے مدد کریں تو یہ اُن کے رحم دل ہونے کو ثابت کرے گا۔اور ان کے اس عمل کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اُن پر رحم کرے گا جس کی بدولت وہ دنیا میں ہر آفت، پریشانی اور بیماری سے محفوظ رہیں گے۔رمضان کے مہینے میں ہر نیکی کا ثواب بڑھاچڑھا کر دیا جاتا ہے۔ رمضان میں جو لوگ ضرورت مندوں کی اپنے مال سے مدد کرنے کا جہاد کریں گے سوچئے اُن کو کتنا زیادہ ثواب ملے گا ؟
(۲)    ایک دوسرے پر رحم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے تعلقات ایک دوسرے سے اچھے اور بہتر ہوں۔کسی نہ کسی دنیاوی وجہ سے رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں میں شکایت، رنجش اور بے تعلقی پیدا ہو جاتی ہے۔اس کی وجہ سے مدد کرنے والے ایسے لوگوں کی مدد نہیں کرتے ہیں۔اللہ کا جو گنہگار بندہ توبہ کر کے اللہ سے معافی مانگ لیتا ہے،اللہ تعالیٰ اس عشرے میں اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔اسی طرح مالدار لوگوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کی صفت اپنائیں اور مغفرت کے عشرے میں ایسے تمام لوگوں کی غلطیاں معاف کردیں جن سے اُن کو رنجش یاشکایت ہے۔ جن رشتہ داروں، دوستوں، پڑوسیوں سے اُن کے تعلقات اچھے نہیں ہیں،اس بات کو بھول کر وہ آگے بڑھ کر خو د اُن سے ملیں اور اپنے مال سے اُن کی مدد کریں تو اُن کی بجا یا بیجا شکایت بھی دور ہو جائے گی اور اُن سے تعلقات بھی اچھے ہو جائیں گے۔ایسا کرنے سے کیا اجر و ثواب ملتا ہے اس کو ان حدیثوں میں پڑھئے:
    ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے وقت اُس کے کام آئے گا، اللہ تعالیٰ اُس کی ضرورت کے وقت اُس کے کام آئے گا۔(بخاری/مسلم)اس حدیث میں بشارت دی جا رہی ہے کہ جو مالدار بندہ اللہ کے مجبور اور محتاج بندے کی ضرورت کے وقت کام آئے گا وہ اپنے لئے یہ انشورینس کرا لے گا کہ جب اُس پر کوئی آفت آئے گی یا وہ کسی مرض کا شکار بنے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کی آفت کو دور کر دے گا اورمصیبتوں سے بھی اُس کو نجات دلا دے گا۔
     حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو کیوں کہ یہ دلوں کی کدورتوں کو دور کرتے ہیں۔(ترمذی)آج کل جو تحفہ دیاجاتا ہے وہ تحفہ نہیں ایک واہیات رسم ہے۔ تحفہ کا مطلب ہے ضرورت کا سامان کسی ضرورت مند کو دینا۔یہی اصل تحفہ ہے۔لیکن موجودہ دور میں لوگ صرف شادی، اور دیگر تقریبات میں غیر ضروری چیز کا تحفہ دیتے ہیں۔
    ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو میرے محتاج بندوں پر اور دین کے کاموں پر خرچ کر تو میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ (بخاری /مسلم) جو مالدار بندہ کسی محتاج بندے پر خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اُس بندے پروقت اُس پر خرچ کرے گا جب وہ محتاجی کا شکار ہوگا۔لوگ مستقبل کے لئے مال جمع کرتے ہیں، جائیدادیں بناتے ہیں، انشورینس کراتے ہیں،فکس ڈپوزٹ کراتے ہیں لیکن ضرورت مندوں پر خرچ کر کے اللہ سے برے وقت میں مدد کی بات کو یاد نہیں رکھتے ہیں اور اللہ سے مدد کا معاملہ نہیں کرتے ہیں۔انسانوں پر بھروسہ کرنا اور اللہ پر اعتماد و یقین نہیں کرنا، کیا ایمان کی دلیل ہو سکتا ہے۔جو شخص اللہ پر ایمان و یقین سے محروم ہو کیا وہ اللہ کی رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا حقدار بن سکتا ہے ؟
(۳)    قرض ایک بہت بڑی آفت اور راتوں کی نیند حرام کرنے والی چیز ہے۔جو آدمی قرض دار ہوتا ہے اور اُس کے پاس قرض ادا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہ گویا جہنم کی آگ میں جل رہاہوتا ہے۔ تیسرا عشرہ جو جہنم سے نجات کا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو جو جہنم میں جانے والے کام کر رہے ہیں، ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔وہ اپنے آپ کو بدلتے ہیں اور جہنم سے نجات پا جاتے ہیں۔اپنی برائیوں کو دور کرنے اور جہنم سے نجات پانے کا دنیا میں سب سے بہتر عمل وہ ہے جو ا س حدیث میں بتایا جارہا ہے۔
    رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے غم اور گھٹن سے بچائے تو اُسے چاہئے کہ تنگ دست قرض دار کو مہلت دے یا قرض کا بوجھ اُس پر سے اتار دے۔ (مسلم) حضرت ابو الیسر ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اُس کا قرض معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کو اپنے سایے میں جگہ دے گا۔(مسلم)
    ان دونوں حدیثوں میں جہنم سے نجات پانے کا طریقہ بتایا جارہا ہے۔ جو محتاج اور معذور لوگ قرض لے کر اذیت میں مبتلا ہیں اور قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں،قرض دینے والے مالدار لوگ اُن کے قرض کو رمضان کے مہینے میں معاف کر دیں تو بدلے میں اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف کر کے اُن کو جہنم سے نجات پانے کا پروانہ جاری کر دے گا۔ کیا اس تحریر کو پڑھ کر خود کو مومن اور مسلم کہنے والے لوگ رمضان میں ایسی عبادتیں کر کے تینوں عشرے کا فائدہ اٹھائیں گے ؟   یا بیجان روزے اور بے روح نمازوں کی بدولت رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کے حقداربن جائیں گے۔
(۴)        ضرورت اس اس بات کی ہے کہ معاشرے اور سماج کے کچھ قابل اعتما اور لائق اعتبار لوگ جو ریٹائرہو چکے ہیں اٹھیں، اپنے محلے کے ضرورت مندوں کی ایک فہرست تیار کریں، اُن کی ضرورتوں کا اندازہ کر لیں اور محلے، پڑوس اور رشتہ دارو احباب میں مالدار لوگوں سے التجا کریں کہ وہ اپنی زکوٰۃ اُنہیں دیں۔ زکوٰۃ اور صدقے کی اس رقم کو اُن ضرورت مندوں تک اس طرح پہنچائیں کہ اُن کے لئے آنے والے سال بھر کا گھر کاخرچ پورا ہو جائے۔ ساری رقم دو آدمیوں کے دستخط سے بینک میں جمع رکھی جائے اور ہر مہینے نکال کر ضرورت مندوں تک پہنچائی جائے۔اس کام میں جو خرچ ہو وہ کام کرنے والے خود اپنی جیب سے پورا کریں۔ زکوٰۃ و صدقات کی رقم اس مد پر خرچ نہ کریں۔ایسا کام کرنے والوں کاکیا مرتبہ ہے اس حدیث میں پڑھئے:حضرت ابو ہریرہؓ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:  محتاج و نادار لوگوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا، اُس آدمی کی طرح ہے جو اللہ کی راہ(جہاد) میں سرگرمی دکھا رہا ہے۔(راوی کا بیان ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا:ایسا آدمی اس تہجد گزار کی طرح ہے جو نوافل کی ادائیگی سے تھکتا نہیں ہے، یا اُس روزہ دار کی طرح ہے جو روزے رکھنا نہیں چھوڑتا۔(بخاری و مسلم)اس عمل سے نماز اور روزے کی عبادت کا جو اجر ملے گا کیا کوئی آدمی روزہ رکھ کر اور تہجد کا پابند بن کر ایسا اجر و انعام پا سکتا ہے ؟
    یہ کام اگر چل پڑا تو اُن تمام لوگوں کو جو اس کے خواہش مند ہیں کہ اُن کی زکوٰۃ اور صدقہ صحیح حقدار وں تک پہنچے، سہارا ملے گا اور وہ خوش ہو کر اس کار خیر میں شریک ہوں گے۔ رفتہ رفتہ یہ کام بڑھتا جا ئے گا اور پھیلتے پھیلتے اُس مقام تک پہنچے گا کہ مسلم معاشرے سے غریبی اور محتاجی کا خاتمہ ہو جائے گا۔بیوہ، یتیم، معذور اور عمر دراز لوگوں کا عزت کے ساتھ گزارے کا انتظام ویسے ہی ہو جائے گا جیسے خلافت کے دور میں بیت المال سے اُن کو ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا۔اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ مدینے میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں تھا۔ اُسی مدینے میں جہاں فاقے ہوتے تھے اور پیٹ پر پتھر باندھے جاتے تھے۔ پہننے کو کپڑا نہیں تھا۔گھر میں ایک ہی کمبل تھاجسے شوہر باندھ کر نماز کے لئے مسجد آتا تھا اور گھر جا کر میاں بیوی دونوں اوڑھتے تھے وہاں وہ وقت بھی آیا کہ سب زکوٰۃ دینے والے تھے۔اہل ایمان اتنے مالدار ہو چکے تھے کہ اُن کی مالداری کو دیکھ کرجلنے والا ایک یہودی نقلی مسلمان بن کر مسلمانوں میں شامل ہو گیا اور اُن میں ایسا تفرقہ پیدا کیا کہ نہ صرف خلافت کا خاتمہ ہو گیا بلکہ مسلمانوں میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور دشمنی کی بنیاد پڑ گئی اور ایک دوسرے پر کفر کی فتویٰ بازی کی لعنت رواج پا گئی۔
    لیکن اس کا دھیان رہے کہ اس کام کے لئے کوئی انجمن یا تنظیم نہیں بنانی ہے، کیونکہ ملک میں جتنی اعلیٰ درجہ کی تحریکیں اٹھیں یا ادارے قائم کئے گئے اُن کے لئے ایک تنظیم بھی بنائی گئی۔آگے چل کر تحریک تو ختم ہو گئی اور تحریک کا مقصد تو پیچھے چلا گیا،لیکن تنظیم باقی رہ گئی اور پھر اس کی سرداری کے لئے آپس میں رسہ کشی ہونے لگی۔ یہاں تک کہ بھائی بھائی اور چچا بھتیجے میں نااتفاقی اور مقدمہ بازی تک ہو گئی۔
    یہ سچائی بھی سامنے رہے کہ جن بے ایمان اور عیار لوگوں نے زکوٰۃ وصول کرنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے اور نہیں چاہتے ہیں کہ زکوٰۃ و صدقات صحیح حقداروں تک پہنچیں وہ اس کام میں شریعت کے نام پرطرح طرح کی بلاضرورت اڑچنیں پیدا کر کے اسے ناکام بنانا چاہیں گے۔ایسی صورت میں کسی اچھے عالم باعمل کی جو قدیم و جدید علم کی جانکاری رکھتا ہو مدد لینے سے سارا مسئلہ حل ہو جائے گا اور ایسے عیاروں اور مکاروں کی ساری چالبازی دھری رہ جائے گی۔یاد رہے کہ اسلام میں زکوٰۃ و صدقات معاشی خوش حالی کے لئے فرض کی گئی ہے، اہل اسلام کو بھکاری بنانے کے لئے نہیں۔لیکن دنیا دار مولوی او ر عالم نے اس کو بھیک مانگنے اور اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنے کا عمل بنا دیاہے۔
خاص بات:    یہ صدقات تو در اصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہیں اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں،ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے(التوبہ:۰۶)
        یاد رکھئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حقدار آٹھ طرح کے ضرورت مند لوگوں کو بنایا ہے۔کسی ادارے، امارت، جماعت، مدرسے کو نہیں۔ جب خلافت تھی تو اُس کا بیت المال تھا جس میں ہر مسلمان پرزکوٰۃ جمع کرنا فرض تھا۔ا س کا انکار کرنے والامسلمان،قتل کئے جانے کا حقدار بن جاتا تھا۔ اب نہ خلافت ہے نہ بیت المال۔جب مسلمانوں میں خلافت تو کیا اجتماعیت تک نہیں رہی تو ہر شخص کا فرض ہے کہ و ہ اپنی زکوٰۃ، اپنے قریبی رشتہ داروں،احباب اور حاجت مندوں تک پہنچائے۔سب جانتے ہیں کہ اس وقت جماعتیں، امارتیں، ادارے اور مدرسے میں زکوٰۃ کی رقم کو جس طرح غیر ضروری کاموں پر بیدردی سے خرچ کیا جارہا ہے وہ شریعت کی خلاف ورزی اور اللہ کا غصہ بھڑکانے کا ایک ذریعہ ہے۔
یہ شوق اور لطف اور لذت کی دنیا،یہ شیطانیوں کی شرارت کی دنیا
یہ خود غرضیوں اور نفرت کی دنیا،یہ ظلم و ستم کی حکومت کی دنیا
الگ اس سے ہے اک عبادت کی دنیا،خدا سے نبی سے محبت کی دنیا
محبت، مروت کی الفت کی دنیا،یتیم اور بیوہ کی خدمت کی دنیا

«
»

تجیندر بگّا، جگنیش میوانی اور اعظم خان…

ماہِ رمضان ،مردِ مومن کے لئے حیاتِ نو ہے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے