اٹل جی بے شک بی جے پی کے لئے ایک مقدس نام ہے یہ ان ہی کا دم تھا کہ جس بی جے پی کی پارلیمنٹ میں صرف دو سیٹیں تھیں اسی بی جے پی کی انہوں نے 1998 ء میں حکومت بنائی اور چھ سال حکومت کی لیکن محبوبہ بی بی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بی جے پی کے ماں باپ موہن بھاگوت اور اشوک سنگھل ان چھ برسوں کو بھی غلامی کے دَور میں شامل کرتے ہیں وہ ہندو حکومت یا بی جے پی کی حکومت اسے مانتے ہیں جس نے 26 مئی کی شام کو حلف لیا تھا۔
محبوبہ مفتی ہوں یا مفتی سعید مغل حکومت کی تاریخ پر نظر ڈال لیں تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ حکومت کے لئے بھائی نے بھائی کے ساتھ باپ نے بیٹوں کے ساتھ اور بیٹوں نے باپ کے ساتھ کیا کیا کیا ہے؟ اور ان کو چھوڑیئے اپنے ملک کے آزاد 67 برسوں میں کیا اندرا گاندھی نے اپنے باپ نہرو کو نااہل ثابت نہیں کیا اور نہرو جن کے مشورہ کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے تھے انہیں کان پکڑکر کانگریس سے باہر نہیں نکال دیا؟ اور ان کی گود میں بارہ برس حکومت کے نشیب و فراز سیکھنے والی بیٹی نے جب حکومت کی تو کیا بالکل اس کے برعکس نہیں کی؟
شری نریندر مودی بے شک اٹل جی کی بہت عزت کرتے ہیں موقع ملتے ہی انہیں بھارت رتن بنوا دیا لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کہ اٹل جی ان سے اچھے وزیر اعظم تھے اور پاکستان یا کشمیر کے لئے جو کچھ انہوں نے سوچا وہ اس سے زیادہ اچھا ہوگا جو مودی سوچ رہے ہیں۔ شری مودی نے ہر مہینے کشمیر کا دورہ کرکے ثابت کردیا کہ انہیں کشمیر کی سب سے زیادہ فکر ہے۔ اب یہ تقدیر کا فیصلہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لئے تیار ہیں جن کے چنگل سے کشمیر کو نکال کر بی جے پی کو دینے کا انہوں نے شیرکشمیر اسٹیڈیم میں مجمع سے عہد لیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مجمع کشمیر کے باہر کا ہو! مفتی سعید صاحب یا ان کی دختر جو کچھ سوچ رہی ہیں وہ بہت قیمتی بات ہے۔ انہیں ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے کہ وہ رام مادھو سے مل کر ٹھنڈے دماغ سے حکومت بنانے کا فیصلہ کریں شری رام مادھو بی جے پی کے جنرل سکریٹری ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کے سفیر ہیں اور جتنا کچھ انہیں دور سے ہم جانتے ہیں ان کا جو فیصلہ ہوگا وہی مودی کا ہوگا اور وہی موہن بھاگوت کا ہوگا۔ ہم نے اسی لئے شروع میں کہا ہے کہ اب اٹل جی کو بھول جائیں اور کشمیر کے امن و امان، علاحدگی پسندوں اورپاکستان سے گفتگو کے متعلق جو بات کرنا ہے وہ شری رام مادھو سے کریں۔
مفتی صاحب کو مسلمان کی حیثیت سے جموں کے ہندو پڑوسیوں کا دل جیتنا چاہئے انہوں نے پڑھا بھی ہوگا اور سنا بھی ہوگا کہ حضور اکرمؐ نے اپنے پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق کیا کیا فرمایا ہے۔ اتنا تک کہہ دیا کہ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسیوں کو تکلیف ہو۔ حضورؐ نے جس زمانہ میں پڑوسی کی حد معیّن کی تھی وہ دس دس گھر چاروں طرف تھی لیکن جب بات ایسے پڑوسیوں کی ہو جو صوبوں کی طرح یا شہروں کی طرح ہوں تو ہمیں اسی ہدایت پر عمل کرنا چاہئے۔ جب تک کشمیر کو جموں کشمیر کہا اور سمجھا جاتا رہے اس وقت تک دونوں پڑوسی ہیں جموں نے راحت کے سامان میں پڑوسی کا حق ادا نہیں کیا اس میں ہمیں اپنا قصور سمجھنا چاہئے جس کا اشارہ شری مودی نے ایک تقریر میں کیا تھا۔ ہمیں جموں کو چھوٹے بھائی کی طرح پیار دینا چاہئے اور اس سے اتنی محبت کرنا چاہئے کہ اب اگر راحت کے سامان کا کوئی ٹرک کشمیر کے لئے آرہا ہو تو جموں والے ایک بوری گیہوں اور ایک بوری چاول اپنی طرف سے ٹرک میں رکھوادیں۔ یہ اسی وقت ہوگا کہ کشمیر یہ فیصلہ کرے کہ جموں کے بغیر حکومت نہیں بنے گی اور جموں کو اس کے حصہ سے کچھ زیادہ حصہ دیا جائے گا اور شری مودی سے بات کی جائے گی کہ کشمیر میں امن و امان وہاں کے رہنے والوں کو اپنا بھائی سمجھنا اور پاکستان سے گفتگو سب کام آپ اور ہم مل کر کریں گے۔ اٹل جی کا جو مشن تھا وہ ان کے ساتھ گیا اب مودی مشن پر بات ہونا چاہئے اور ضرورت اس کی ہے کہ وہ ایسا ہو کہ کشمیر کے لوگ اٹل مشن کو بھول جائیں اور مودی مشن کی بات کریں۔ اگر مفتی صاحب رام مادھو سے اس پر اتفاق کرلیں کہ چار برس وہ وزیر اعلیٰ رہیں گے اور دو سال بی جے پی کا نمائندہ۔ اور مفتی صاحب ایسی حکومت دیں گے کہ جموں والے خود یہ کہیں کہ باقی دو سال آپ ہی ذمہ داری نبھائیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے صرف اسلام کی روشنی میں عمل کرنا ہے۔
کیا اسلام کی تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ ایسے بھی ملک تھے جن کو مسلمانوں نے فتح کیا ان سے جزیہ لیا اور ان کی حفاظت کی پھر جب تک حکومت کی ایسا رویہ رکھا کہ وہ ان کے گن گانے لگے۔ پھر کسی وجہ سے جب یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ملک سے اپنا قبضہ اٹھا لیا جائے اور فوجوں کو واپس لے آیا جائے تو وہی عیسائی اور پارسی روئے تھے کہ ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے۔ آج یہ رویہ کا ہی اثر تو تھا اگر مفتی صاحب اپنے بزرگوں کے طرز پر نظام حکومت چلائیں اور جموں کے ممبر اپنے لیڈر مودی سے یہ کہیں کہ مفتی صاحب اس قدر ایمانداری سے حکومت چلا رہے ہیں جن کا جواب نہیں۔ وہ نہ خود کھاتے ہیں نہ کسی کو کھانے دیتے ہیں اور نہ کسی بالٹی میں چھید ہے تو کم از کم شری مودی کی زبان تو بند ہوجائے گی۔
محبوبہ مفتی صاحبہ نے کہا ہے کہ ہمیں حکومت بنانے کی جلدی نہیں ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ جلدبازی کے بجائے ٹھنڈا کرکے کھائیں اور کسی حد تک بھی ہو رام مادھو کے ذریعہ جموں کو شریک کریں اور بھائی بن کر حکومت کریں اس لئے کہ ان پر ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ ایسے صوبہ کے وزیر اعلیٰ ہیں جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں جو بیس کروڑ مسلمانوں کے اس اعتبار سے نمائندے ہیں کہ اکیلے مسلمان وزیر اعلیٰ ہیں۔ خدا کرے ہر مسئلہ خوبصورتی سے حل ہوجائے اور شری مودی مثال دیا کریں کہ ایسے حکومت کرو جیسے مفتی سعید کررہے ہیں۔
جواب دیں