شراب پی کر زندگیاں تباہ کرنے والا ایک واقعہ حال ہی میں عروس البلاد ممبئی میں پیش آیا جس میں جھانوی نام کی ایک خاتون وکیل نے نشے کی حالت میں دو افراد کو ایسا کچلا کہ وہ وہیں پر موت کی بانہوں میں جاسوئے اور باقی چار افراد شدید طور پر زخمی ہوگئے۔چونکہ یہ معاملہ سلمان خان جیسے سپر اسٹار سے جڑا ہوا نہیں تھا لہٰذا میڈیا نے بھی اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔واقعے کی تفصیلات اس سماج کی بے حسی کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہیں۔
کہیں کامیابی کا جشن توکہیں موت کا سوگ
نشے کی حالت میں اپنی آڈی کار سے دو لوگوں کو کچلنے والی ممبئی کی کارپوریٹ وکیل جھانوی گڈکر نے مانا ہے کہ واقعہ کے وقت وہ نشے میں تھی۔ اپنے بیان میں اس نے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح ۸ جون کو اپنی گاڑی آڈی سے آفس گئی تھی، بعد میں وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک نئے پروجیکٹ ملنے کی خوشی میں سیلبریشن کے لئے شام کو ہوٹل میرین پلازہ گئی جہاں پر اس نے دو پیگ شراب بھی پی تھی۔اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جھانوی گڈکر نے دو دن پہلے بھی ایک حادثہ کیا تھا۔ پولیس سے ملی معلومات کے مطابق، دو دن پہلے ہی اس نے موٹر سائیکل پر سوار دو سیکورٹی گارڈز کو ٹکر ماری تھی۔ اس کے بعد اس کو اسی ہسپتال لے جایا گیا تھا جہاں گارڈز اپنا میڈیکل کروانے آئے تھے۔ یہاں پر گارڈ زنے اس کو پہچان لیا۔یہ حادثہ بھی ممبئی میں ہی ہوا جہاں اس کار نے ایک ٹیکسی کو ٹکر ماری، جس میں دو کی موت ہو گئی تھی۔
جھانوی کا پولیس کو بیان
جھانوی نے اپنے پولیس کو دیے بیان میں کہا ہے کہ، میں نے اپنی گاڑی چلاتے ہوئے میرین ڈرائیو تک لے گئی اور وہاں گاڑی کے اندر ہی دو گھنٹے گزارے۔ اس کے بعد ساڑھے 12 بجے میں گھر کے لئے نکلی۔میں خود کار چلا رہی تھی۔ میرین ڈرائیو پر یو ٹرن لینے کےبعد میں چرچ گیٹ کی طرف آ رہی تھی تاکہ پی میلو روڈ سے دوسراراستہ پکڑ سکوں۔ میں نے اس کے لئے اپوزٹ سائیڈ (رانگ سائیڈ) کار چلائی۔ اس دوران میں نے پی رکھی تھی اور نشے کی حالت میں تھی۔ چونکہ میں نے، پی رکھی تھی اس لئے میں اچھی طرح روڈ شناخت نہیں پا رہی تھی۔پھر تقریبا ایک بجے میری کار کی ایک ٹیکسی کے ساتھ ٹکر ہو گئی۔ وہ ٹیکسی شیواجی نگر مسجد کے پاس اپوزٹ ڈائریکشن سے آ رہی تھی۔ میرے کار کے اےئربیگس کھل گئے اس لئے مجھے کم چوٹ آئی اور اس کے بعد میں بیہوش ہو گئی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے اس ٹیکسی کو دیکھا جسے میری کار نے ٹکر ماری تھی۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ لگ گئی تھی۔ پولیس اور لوگوں نے مجھے گاڑی سے نکالا اور میڈیکل چیک اپ کے لئے اسپتال لے گئے۔
شراب نے کئی خاندان تباہ کئے
ممبئی کے ہائی پروفائل ڈرنک اینڈ ڈرائیونگ کے معاملے میں روزانہ نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ معاملے کی ملزمہ جھانوی گڈکر کے خون میں حادثے کی رات منظور حد سے تقریبا 7 گنا زیادہ الکحل کی مقدار تھی۔جانچ رپورٹ کے مطابق اس کے 100 ملی گرام خون میں 200 ملی گرام شراب کی مقدار پائی گئی، جبکہ 100 ملی گرام میں 30 ملی گرام تک کی مقدار ہی مناسب مانی جاتی ہے۔اس سے زیادہ ہونے سے دماغ پر اثر پڑتا ہے اور سوچ سمجھ کی قوت ماؤف ہونے لگتی ہے۔ممبئی پولیس کے اعلی افسر نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ سے جانوی کے خلاف کیس مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے مطابق آڈی Q3 میں سوار جھانوی نشے میں اتنی دھت تھی کہ اسے یہ تک نہیں معلوم چلا کہ وہ غلط سمت میں گاڑی چلا رہی ہے۔ وہ غلط سائڈ میں جا پیوست ہوئی اور ایک ٹیکسی کو ٹکر مار دی۔ٹکر اتنی شدید تھی کہ ٹیکسی ڈرائیور محمد سید (57) کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ آگے کی سیٹ پر بیٹھے سلیم سابووالا (50) نے اسپتال میں دم توڑ دیا۔ سلیم کی بیوی حفصہ اور بیٹیاں سعدیہ، سلمیٰ کو بھی شدید چوٹیں آئیں اور ان کا علاج چل رہا ہے۔جب کہ بیٹے نعمان کو معمولی چوٹیں آئیں۔اس واقعے کا دردناک پہلو یہ ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور محمد سید اور مسافر سلیم اپنے گھر میں کمانے والے تنہا تھے۔ اب ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
اخلاقی ذمہ داری پر سوال
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ اب تک کی چھان بین کے بعد یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ چار دن پہلے اپنی اڈی کار ڈرائیو کرنے سے پہلے جب جھانوی الگ الگ جگہوں پر شراب پی رہی تھی، تو ان کے ساتھ ریلائنس انڈسٹریزکے کچھ بڑے افسر بھی ساتھ میں تھے۔ وہ پڑھے لکھے ہیں، اونچی پوسٹ پر ہیں اور سب کی اچھی خاصی تنخواہ ہے۔وہ اپنے ساتھ ڈرائیور بھی رکھتے ہیں۔ ایسے میں جب انہیں پتہ تھا کہ جھانوی نے ضرورت سے زیادہ شراب پی ہوئی ہے اور ایسے میں اس کے لئے گاڑی چلانا خطرے سے خالی نہیں ہے، تو وہ اسے گاڑی ڈرائیو کرنے سے روک سکتے تھے اور ایک فون کر کسی ڈرائیور کو بلا کر جھانوی کو اس کے گھر تک چھڑوا سکتے تھے۔اس افسر کے مطابق، جھانوی کے ساتھی سینئر افسر اگر اس دن اپنی سماجی ذمہ داری کو سمجھتے، تو ایسے میں نہ تو ان دو لوگوں کی جان جاتی، جو جھانوی کی گاڑی کی زد میں آئے اور نہ ہی جھانوی کو پولیس لاک اپ سے جیل کے دروازے تک کے وہ برے دن دیکھنے پڑتے، جو دیکھنے پڑ رہے ہیں۔
ممبئی پولیس نے جھانوی کے خلاف اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے ساتھ موجود ریلائنس انڈسٹریز کے کچھ حکام کے بیان لئے ہیں۔خبروں کے مطابق جب وہ پب گئی تھی تو اس کے ساتھ ریلائنس انڈسٹریزکا CFO آلوک کمار اگروال کا بھی تھا۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی ضرورت سے زیادہ شراب پی لیتا ہے، تو خود پب والے اسے گاڑی چلانے نہیں دیتے اور اپنا ڈرائیور دے دیتے ہیں مگرپب کے مالک کا کہنا ہے کہ خواتین کے معاملے میں ہم ڈرائیور تب تک نہیں دیتے، جب تک کہ ہم سے درخواست نہیں کیا جاتا۔ہمیں ڈر رہتا ہے کہ اگر ہم نے اپنا ڈرائیور دے دیا اور اس عورت نے شراب کے نشے میں ہماری طرف سے دستیاب ڈرائیور پرجنسی ہراسانی یا ریپ کا الزام لگا دیاتو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔
یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟
بھارت میں لاپرواہی سے یا شراب پی کر گاڑی چلانے کے واقعات تیزی سے بڑھے ہیں اور ان میں کمی لانے کی ہرکوشش ناکام ہوئی ہے۔ اس قسم کے معاملات میں عموماً نوجوان لڑکے ہوتے ہیں۔اب تو اقوام متحدہ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس رویہ کے چلتے سال 2020 تک 15۔44 سال عمر کے لوگوں کی موت کا سب سے بڑا سبب روڈ اکسیڈنٹ ہو گا۔ غور طلب ہے کہ دو پہیا گاڑیوں کی وجہ سے 26 فیصد اور پیدل چلنے والے مسافروں کی لاپرواہی سے 20 فیصد اکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں ہر روز بے شمار اموات سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ٹریفک پولیس قاعدے قوانین پر عمل کروانے میں ناکام رہی ہے۔ڈرائیونگ لائسنس دیئے جانے سے لے کر ہیلمیٹ پہننے تک میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔ ممبئی سمیت صرف مہاراشٹر میں ہر دن 200 سے زیادہ روڈ اکسیڈنٹ ہوتے ہیں جن میں لگ بھگ 47 لوگوں کی موت روزانہ ہوجاتی ہے۔بھارت میں شراب پی کر گاڑی چلانے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کے سبب مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔یہاں یہ یاد دلادینا مناسب رہے گا کہ گزشتہ دیوالی پر ہفتے بھر پہلے ہی سے دلی پولس نے خصوصی چیکنگ مہم شروع کر دی تھی۔ روز رات کو ہوئی چیکنگ کا نتیجہ یہ رہا کہ محض سات دن کے اندر ہی ٹریفک پولیس نے شراب پی کر گاڑی چلا رہے 1300 سے زیادہ لوگوں کا نشہ اتار دیا۔. پب، بار اور شراب پروسنے والے ریستوران کے ارد گرد بھی ٹریفک پولیس نے خاص طور سے چیکنگ کی تھی۔حالانکہ شراب پی کر گاڑی چلانے والے صرف راجدھانی میں ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ پورے ملک میں ہوتے ہیں جن کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے مگر پولس کے پاس ایک ہی کام تو نہیں۔
بھارت ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ہم نے ترقی کا مطلب صرف سائنس اور ٹیکنالوجی نہیں لیا ہے اور علمی ومعاشی ترقی کی راہ پر ہی نہیں چلے ہیں بلکہ ہماری اخلاقی قدریں بھی مغربی اقدار کی نذر ہوگئی ہیں۔ بھارت میں شراب نوشی ہمیشہ معیوب مانی جاتی رہی ہے حالانکہ پرانے زمانے سے اس کی صنعت یہاں چلتی رہی ہے مگر خواتین کو کسی قسم کے نشے سے عموماً دور دیکھا گیا ہے۔اب چونکہ ہم یہ مان چکے ہیں کہ ہماری ترقی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم ان تمام برائیوں کو بھی نہ اپنالیں جو مغربی سماج کا حصہ ہیں لہٰذا اب ہماری ماڈرن خواتین بھی شراب پینے لگتی ہیں۔ مشرق اور مغرب میں یہ فرق ہے کہ مغربی خواتین ہلکی شراب پیتی ہیں جس میں نشہ نہیں ہوتا بلکہ تھوڑا سا سرور ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں جب کوئی خاتون ماڈرن بننے کی کوشش کرتی ہے تو وہ مردوں سےآگے نکلنے کی کوشش میں برائی کے راستے پر بھی ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ممبئی کا دردناک واقعہ اسی کا نتیجہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دوگھروں کو تباہ کرنے والی کارپوریٹ وکیل چند دن بعد ضمانت پر چھوٹ جائیگی اورشراب پی کر گاڑی چلانے کا سلسلہ بھی یونہی چلتا رہے گا۔آگے بھی کئی زندگیاں تباہ ہوتی رہیں گی۔(یواین این)
جواب دیں