کروں تو کیسے کروں تیرا شکر ادا

 

ذوالقرنین احمد
 

اللہ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔ اللہ کی جتنی نعمتیں انسان ہر وقت ہر لمحہ بغیر لمیٹ کے بغیر کسی  روک ٹوک کے استعمال کر رہا ہے،  اسکا شکر ادا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بے شمار نعمتیں ہے، اسی میں ایک قیمتی نعمت انسان کے سانس لینے اور چھوڑنے کا عمل ہے۔ جسے عمل تنفس کہتے ہیں۔ اسکے بغیر انسان جی نہیں سکتا ہے، بغیر کھائے پیئے انسان دو تین روز زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن بغیر سانس لیے چند منٹ بھی جی نہیں سکتا اگر سانس لینے کا عمل رک جائے یا انسان کو پوری طرح سے آکسیجن نا مل سکے تو اسکا دم گھٹنے لگتا ہے۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ انسان کے برداشت کے باہر ہوتا ہے۔ ایسے کہی افراد ہسپتالوں میں دیکھنے ملتے ہیں جو ایک ایک سانس کی قیمت لاکھوں روپے ادا کر رہے ہیں۔ جو آکسیجن کے بغیر جی نہیں سکتے جو قدرتی ماحول میں موجود ہوتی ہے لیکن جب وہ اس آکسیجن کے حاصل کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو انہیں مصنوعی تنفس پر رکھا جاتا ہے۔ اور اسکا کچھ بھروسہ نہیں کہ کب وہ عمل کرنا چھوڑ دے۔

لیکن انسان پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا استعمال کرتا ہے اور وہ بغیر بل ادا کیے نا کوئی سانس لینے پر پابندی ہے نا چھوڑنے پر پابندی ہے۔ اسکی اہمیت تو بس وہی جانتا ہے جو آئی سی یو میں آکسیجن کے سہارے مصنوعی تنفس کے زریعے ایک ایک سانس لے رہا ہوتا ہے۔ سانس لینے اور چھوڑنے کا عمل قدرتی طور پر اگر ٹھیک ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت ہی بیش بہا قیمتی نعمت ہے۔ لیکن انسان غور و فکر نہیں کرتا جب تک وہ اس حالات اس پر نہیں آتے ہیں۔ اور پھر موت کے قریب نزاع کے وقت ہی اسے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کتنی قیمتی ہے۔ لیکن اس وقت اللہ کا شکر ادا کرنے کی مہلت نہیں ملتی ہے۔ عزرائل علیہا السلام جب روح قبض کرتے ہیں تو انسان کے رگ رگ سے روح نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے بدن کے گوشے گوشے میں تکلیف ہوتی ہے۔ روح کا قبض ہونا انسان کے  اسکے اعمال پر منحصر ہوتا ہے اچھے اعمال کرنے والوں کی روح آسانی سے قبض کی جاتی ہے اور برے اعمال کرنے والوں کے روح شدید تکلیف کے ساتھ قبض کی جاتی ہے۔

انسان بڑا نا شکرا ہے کہ جب اللہ کی نعمتیں استعمال کرتا ہے تو اسے بھول جاتا ہے اور زرا سی پریشانی آتی ہے تو گلے شکوے شروع کردیتا ہے۔ ہم پیدائش سے لے کر موت تک بھی اگر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں سجدے میں پڑے رہے تو اسکی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں ہر وقت ہر حال میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری والی زندگی گزارتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیا پتہ کہ یہ نعمتیں ہم سے چھین لی جائے یا موت کا فرشتہ روح قبض کرلے، اللہ تعالیٰ ناشکری کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے اور اللہ تعالی ناشکری کرنے والوں سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور جو شکر گزار بندے ہوتے ہے انہیں اور عطا کرتا ہے۔ اسکے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے جسے چاہتا ہے غنی کردیتا ہے۔ شرط ہے کے ہر حال میں شکر ادا کیا جائے، زرا زرا مشکل حالات میں لوگوں سے شکوہ شکایت نا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی مشکل و پریشانیوں سے نجات کی دعائیں کرے۔ لوگوں کے سامنے بولنے سے مشکلیں حل نہیں ہوتی ہے۔ جس کی ہاتھ میں زندگی ہے وہی ہمارے حالات بدلنے پر قادر ہے۔ ایک حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنماز میں اتنی اتنی دیر قیام فر ماتے کہ آپ ﷺکے قدم مبارک میں ورم پڑجاتا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا کہ :یارسول اللہ !ﷺ،آپ تو معصوم ہیں پھر اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟تو آپ ﷺنے ارشاد فر مایا:افلا اکون عبدا شکورا،کیامیں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(صحیح بخاری ،کتاب التہجد ،باب قیام النبی ﷺحتی ترم قدماہ،صحیح مسلم،کتاب صفات المنافقین و احکامھم ،باب اکثار الاعمال والاجتھاد فی العبادۃ)  قربان جائیے اس رحمت اللعالمین پر کے جسکے صدقے میں دنیا کو وجود بخشا گیا وہ کتنے اللہ تعالیٰ کی شکر ادا کرنے والے تھے۔ اور ہم ہے کہ زرا نیک عمل کرنے پر اللہ سے اسکی اجرت مانگنے لگ جاتے ہیں۔ اللہ ہمیں صحیح معنوں میں اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے کی  توفیق عطا فرمائے اور اپنے شکر گزار بنوں میں ہمارا شمار فرمائے آمین۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

30 نومبر2019(فکروخبر)

«
»

بے باک صحافی حفیظ نعمانی

کیا دِنوں کا سردار ’’جمعہ‘‘ بلیک ڈے ہو سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے