پچھلے دنوں بتاریخ 6اکتوبر2013ء کو میں سیرو تفریح کے لئے قطب مینار گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مسجد قوۃ الاسلام کے احاطہ کی جنوبی دیوار پر ہندو دیوی دیوتاؤں کے مجسمے نصب ہیں۔ یہ مجسمے علیحدہ علیحدہ پتھروں پر کندہ کر کے اتنی فنی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ دیوار کے اندر چسپاں کر دیے گئے ہیں کہ بادی النظر میں وہ دیوار کا ہی حصہ معلوم ہوتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ قطب مینار کے احاطہ میں گزشتہ بارہ سال سے یہ کارروائی بڑی خاموشی سے جاری ہے۔ لیکن مسلمان ہیں کہ قطب مینار کی سیروتفریح کرتے ہوئے بھی انہیں کبھی یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ کس طرح خاموشی سے اس کی ہیئت بدلی جا رہی ہے۔ بے حسی و بے ضمیری کی انتہاء تب ہوتی ہے جب ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں یہ قطب مینار محض ایک مینارہ نہیں ہے، بلکہ دراصل شمالی ہندوستانی سرزمین پر قائم ہونے والی سب سے پہلی مسجد کا مینارہ ہے جو اسلام کی شان و شوکت کا عظیم مظہر اور سرزمینِ ہند پر اللہ و رسول کا کلمہ بلند کرنے کی ایک اہم نشانی ہے۔ اس کا ثبوت اس مسجد کے درودیوار اور خود قطب مینار کے چاروں طرف خط زخارف میں کندہ کی ہوئی وہ عربی و فارسی تحریریں ہیں جو امتدادِزمانہ اور حوادث دہر کے باوجود محو نہیں ہو سکی ہیں۔ قطب مینار کے پہلے دروازہ پر پہونچتے ہی آپ کو اس کے دروازہ پر جو تحریر منقش دکھائی دے گی وہ اللہ کے رسولؐ کی مشہور حدیث ہے ’’من بنی للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ‘‘۔ اس مسجدومینارہ کی بنیاد سلطنتِ دہلی کے اولین مسلم بانی سلطان شمس الدین التمش نے رکھی تھی اور اس کی تکمیل اس کے نائب سلطان قطب الدین ایبک کے ہاتھوں ہوئی۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ کے قبضے کے بعد سے دن رات ہماری اس مسجد کی بے حرمتی مسلسل جاری ہے۔
ستم بالائے ستم کہ سرکاری محکمۂ آثارِ قدیمہ کی پراسرار خاموشی نے ہماری مقبوضہ مساجد کی حرمت و تقدس کی پامالی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حکومتی محکمہ کے اہم اور مؤثر عہدوں پر براجمان لوگوں نے اس ورثہ کی حفاظت کرنا تو کجا اس کی ہیئت بدلنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اسے عمومی زیارتگاہ بنا دیا ہے۔
مسلمانوں کی بے حسی و بے غیرتی اور سرکار کی پراسرار خاموشی کے درمیان ملک کے بھگوا پرست اور آرایس ایس زدہ ہندوؤں کی دھاندلی اور غنڈہ گردی دیکھیے کہ ملک میں جہاں کہیں بھی عام مسلمان اپنے خون پسینہ کی کمائی سے زمین کا کوئی حصہ خرید کر عوامی چندوں سے ایک مسجد بھی بنانا چاہتے ہیں تو آرایس ایس کے یہ غنڈے فوراً بھگواجھنڈے لہراتے ہوئے آ دھمکتے ہیں اور ہندوستانی قوانین کا منہ چڑاتے ہوئے خود ہی منوشاستری فرمان لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ہماری اجازت کے بغیر یہاں کوئی مسجد نہیں بنے گی۔ یہ ملک ہندوؤں کا ہے، مسلمان یہاں کوئی عبادتگاہ یا اپنی کوئی مذہبی یادگار تعمیر نہیں کر سکتے۔ آرایس ایس اور بھگوا بریگیڈ کی اس دھاندلی اور غنڈہ گردی کے سامنے سرکار نہ صرف خاموش اور بے بس ہے، بلکہ ان سب کارروائیوں میں خفیہ طور پر شریک و سہیم بھی ہے، ورنہ قطب مینار اور چارمینار کی مسجدوں کے سائے میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے مجسمے لگانا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ سرکار براہِ راست تو یہ سب کھلم کھلا کر نہیں سکتی تھی ورنہ اس کی جمہوریت پسندی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور حکومتی محکموں کے اندر بیٹھے ہوئے گوڈسے کی اولاد کے چہروں سے نقاب اتر جائے گا، اس لئے وہ خفیہ پروگرام کے تحت یہ سب اپنی نگرانی میں دوسروں سے کراتی ہے151 یعنی مسلم اوقاف کو پہلے آثارِقدیمہ کے نام پر اپنی تحویل میں لے لو، پھر خفیہ طور پر کسی دن رات کے اندھیرے میں اس کے درودیوار پر کسی دیوی دیوتا کا مجسمہ نصب کراؤ، پھر کچھ دن بعد پوجا پاٹ شروع کرادو، پھر جب ماحول سازگار ہو جائے تو کسی دن بھگوان کی جائداد قرار دے کر اپنا دعوی دائر کر دو۔
اگر مسلمانوں نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بروقت بیداری اور حمیت کا ثبوت نہ دیا تو عنقریب قطب مینار کا بھی بابری مسجد، چارمینار مسجد اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں اسلامی باقیات اور مسلم آثار کی طرح حال نہ ہو جائے۔
جواب دیں