قصور ڈھونڈ کے پیدا کئے جفا کے لئے

گجراتی زبان میں چھپے ہوئے ان پرچوں میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیٹی طوائف بنے؟ اس سے بھی زیادہ احمقانہ بات یہ ہے کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو پھنسا رہے ہیں اور ان سے شادی کرکے دوسری تیسری چوتھی بیوی بنا رہے ہیں۔
ہم نے ایک دو بار اس موضوع پر لکھ کر یہ سوچا تھا کہ ان جاہلوں کے منھ نہ لگا جائے لیکن آج یہ دیکھ کر دُکھ ہوا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اور دارالعلوم دیوبند نے نیز جمعیۃ علماء نے بھی صفائی دی ہے اور اسے مذہبی نقطۂ نظر سے غلط قرار دیا ہے ہمارے محترم اداروں نے اسے سنجیدگی سے لے کر ہم جیسوں کو قلم اٹھانے پر مجبور کردیا ورنہ ہندو لڑکی مسلمان سے شادی کرکے طوائف ہوجاتی ہے یا وہ دوسری تیسری اور چوتھی بن جاتی ہے ایسی باتیں نہیں ہیں جس کا جواب دیا جائے۔ اشوک سنگھل ہوں، پروین توگڑیا صاحب ہوں یا یوگی آدتیہ ناتھ ان سے کہا جائے کہ ہندوستان کے جس جس شہر میں جسم فروشی کی حکومت کی طرف سے اجازت ہے وہاں سب کو لائسنس دیئے گئے ہیں اور رجسٹروں میں تفصیل موجود ہے کہ کل تعداد کتنی ہے وہاں معلوم کریں کہ ان میں ہندو کتنی ہیں مسلمان کتنی اور عیسائی کتنی ہیں؟ اور اسی دفتر سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ ان میں سے نسلی کتنی ہیں خریدی ہوئی کتنی ہیں اور کتنی ایسی ہیں جن کے ماں باپ کے پاس جہیز دینے اور لڑکے والوں کی مانگ پوری کرنے کے پیسے نہیں تھے اس لئے وہ بازار حسن میں فروخت کرگئے۔ اور یہ بھی معلوم کرلینا چاہئے کہ ان میں کتنی مسلمان ایسی ہیں جنہیں مسلمان فروخت کرگئے ہیں۔
اب تک لوجہاد کا فتنہ اترپردیش میں زیادہ تھا لیکن اب یہ شیوسینا کو بھی اس لئے اچھا لگا کہ ٹھاکرے بھی مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ بننا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے باپ کے اخبار سامنا میں لکھ ڈالا کہ اگر مرکزی حکومت خاموش رہی تو دہشت گرد اپنے عزائم میں کامیاب ہوجائیں گے۔ شیوسینا نے یہ بھی لکھ دیا کہ یہ ہندو تہذیب اور ثقافت کو مٹانے کی عالمی سازش ہے۔ انہوں نے شری موہن بھاگوت کے بیان کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے ہندو لڑکیوں کو لوجہاد سے چوکس رہنے کی ہدایت کی تھی۔ موہن بھاگوت جی ہوں یا اور کوئی بڑے مہاپرُش ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکوں میں کون سی ایسی چیز نظر آتی ہے جو وہ ان کے ساتھ زندگی وابستہ کرلیتی ہیں؟ ہر تحقیقاتی رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ بری اقتصادی حالت مسلمانوں کی ہے دولت ان کے پاس نہیں سرکاری نوکری انہیں نہیں ملتی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے پھر آخر وہ کیا کشش ہے جو وہ مسلمانوں کے قریب میں آجاتی ہیں؟
جب تک یوگی آدتیہ ناتھ جیسے کم درجہ کے لوگوں نے ایسی باتیں کہیں تو اس پر دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں سمجھی لیکن جب موجودہ مرکزی حکومت کے سربراہ موہن بھاگوت جیسے لوگ کہیں تو ان سے ضرور معلوم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ان کے چیلے اترپردیش میں سیکڑوں مسلمانوں کو گائے کاٹنے کے الزام میں یا موت کے گھاٹ اتار چکے یا جیل میں سڑا رہے ہیں اور وہ خود ناگ پور میں ہیں اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ پونے میں جتنا اچھا گائے کا گوشت بکتا ہے اور جیسی خوبصورت اور بڑی منڈی وہاں ہے ایسی کلکتہ میں بھی نہیں ہے جہاں گائے پر پابندی نہیں ہے۔
موہن بھاگوت جی اپنے دھرم اور ایمان کی قسم کھاکر بتائیں کہ کتنے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کے پیٹ میں لڑکی کو مروا دیا اور کتنے ہندوؤں نے یہ کام کیا اور کررہے ہیں؟ بھاگوت جی نے بھی سنا ہوگا کہ ہریانہ کی سائنہ بیڈمنٹن چمپئن نے بتایا تھا کہ میں جب پیدا ہوئی تو میری دادی نے تین مہینے تک میرا منھ نہیں دیکھا تھا۔ بھاگوت جی نے کبھی کسی مسلمان لڑکی کا ایسا بھی بیان پڑھا ہے؟ بڑے سے لے کر چھوٹے تک کوئی ہندو گھرانہ ایسا نہیں ہے جہاں لڑکی کی پیدائش پر غم نہ منایا جاتا ہو۔ ہزاروں ایسے کیس ہیں کہ جہاں کسی ہندو عورت کے پیٹ سے دو لڑکیاں پیدا ہوئیں سسرال میں اس کی زندگی اجیرن ہوگئی اور اسے یا مار دیا یا وہ اپنی لڑکیوں کو لے کر خود بھاگ گئی۔ بھاگوت جی بتائیں کہ ان کا دھرم لڑکیوں کی اچھی پرورش کے لئے کیا تعلیم دیتا ہے؟ اور ہماری سنیں کہ اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے خوشخبری دی ہے کہ جس کے گھر دو بیٹیاں پیدا ہوئیں اور اس نے ان کی تربیت اور تعلیم اچھی طرح کی اس کی جنت یقینی ہوگئی۔
یہ بھی موہن بھاگوت سے کہنے کی بات ہے کہ آج ان کی پوزیشن مسز سونیا سے بھی بڑھ کر ہے وہ آگ میں گھی ڈالنے کا کام نہ کریں اور ایسی باتیں نہ کریں کہ مسلمان نوجوان ہمارے جیسے لوگوں کے روکے بھی نہ رُکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مودی جی ہوں یا بھاگوت جی ’’وکاس اور سب کا ساتھ‘‘ جیسے نعرے دے کر اور اچھے دنوں کی خوشخبری اور 85 لاکھ کروڑ کالا دھن دوسرے ملکوں سے لانے کے معاملہ میں فریب دے کر اب پریشان ہیں۔ ان کی حکومت میں کوئی ایک کام ایسا نہیں ہوا ہے جس سے عام آدمی کو راحت ملی ہو۔ دہلی جہاں وہ پہلے دن سے بیٹھے ہیں وہیں رہتے، سوتے اور جاگتے ہیں اس سے زیادہ بری حالت میں ہے جتنی شیلا دیکشت کے زمانہ میں تھی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس دہلی میں 100 دن پہلے پارلیمنٹ کی سب کی سب سیٹیں جیتی تھیں وہاں اسمبلی کا الیکشن اس لئے کرانے کی ہمت نہیں کرپارہے کہ انہیں یقین ہے آدھے ہاریں گے اور آدھے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگی۔ ہر آدمی کی زبان پر ہے کہ مودی لہر ختم ہوگئی اور لہر یا آندھی آنی جانی چیز ہے اسی لئے اب لوجہاد، القاعدہ اور سیمی یا لشکر طیبہ کی پناہ ڈھونڈی جارہی ہے۔ اور یہ بھاگوت جی اور مودی جی دونوں کے لئے شرم کی بات ہے۔

«
»

’’17ستمبر‘‘۔۔۔یومِ نجات نہیں یومِ ماتم !

مسئلہ فلسطین کا حل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے