مفتی محمد انعام اللہ حسن
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿۱﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿۲﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿۳﴾
ترجمہ: بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے، تو آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کیجیے اور قربانی کیا کیجیے، یقیناً آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا۔
یہ سورۃ الکوثر ہے؛ جو قرآن مجید کی سب سے مختصر سورت ہے۔ اس سورت میں دو خوش خبریاں سنائی گئی ہیں اور دو احکام دیئے گئے ہیں۔
اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے پہلی خوش خبری یہ ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے۔
'کوثر' جنت کی ایک نہر کا نام بھی ہے اور خیرِ کثیر کو بھی کوثر کہا جاتا ہے، سعید بن جبیر رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں خیرِ کثیر کا عطا کرنا مراد ہے؛ جس میں جنت کی نہرِ کوثر بھی داخل ہے۔(بخاری،کتاب التفسیر:742/2)
دوسری خوش خبری یہ دی گئی کہ مکہ کے مشرکین تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کا نام و نشان مٹ جائے گا؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کا نام قیامت تک باقی رہے گا؛ البتہ آپ کے دشمنوں کے نام مٹ جائیں گے۔
جس شخص کی کوئی نرینہ اولاد باقی نہ رہے، عرب اس کو "ابتر" کہا کرتے تھے اور ان کا گمان تھا کہ مرنے کے بعد یہ شخص بے نام و نشان ہوجاتا ہے، کوئی اس کا نام لینے والا نہیں ہوتا؛ چنانچہ جب نبئ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دو دو صاحبزادوں کا انتقال ہوگیا تو مکہ کے مشرکین خوش ہوکر کہنے لگے کہ اب محمد بن عبداللّٰہ کے بعد کوئی شخص اُن کے دین کا نام لیوا باقی نہیں رہے گا۔ اس پر اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے نبی! ایسا ہرگز نہیں؛ بلکہ آپ کا نام تو دن بہ دن روشن ہوگا اور آپ کے دشمن خود بے نام و نشان ہوجائیں گے۔ چنانچہ اس حقیقت کو آج سَر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے کہ دن و رات کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں کچھ نہ کچھ اہلِ ایمان آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود و سلام نہ بھیج رہے ہوں اور آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی نہ دے رہے ہوں؛ جبکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کو 'اَبْتَرْ' کہنے والوں کا آج کوئی نام و نشان تک نہیں؛ اگر ان کے نام لئے بھی جاتے ہیں تو ناپسندیدہ نام کی حیثیت سے اور یہ بھی آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم ہی کی نسبت سے!
جن دو باتوں کا اس سورت میں حکم دیا گیا ہے؛ اُن میں سے ایک نماز ہے کہ"آپ نماز پڑھا کیجیے" اب یا تو اس سے تمام فرض نمازیں مراد ہیں؛ جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے، یا اس سے عیدالاضحیٰ کی نماز مراد ہے، حضرت قتادہ، عطاء اور عکرمہ رحمہم اللّٰہ یہی فرماتے ہیں، اور اس کو حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کی روایت سے تقویت ملتی ہے، جو تفسیرِ قرطبی میں اس آیت کے تحت موجود ہے کہ شروع میں نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم پہلے قربانی کیا کرتے تھے اور اس کے بعد نماز پڑھتے تھے؛ چنانچہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ پہلے نماز پڑھا کریں پھر قربانی کیا کریں۔
'بدائع الصنائع' (236/2، مطبوعہ بیروت) میں لکھا ہے کہ اس آیت میں چونکہ عید کی نماز کا حکم عربی گرامر کے مطابق اَمْر کے صیغے سے دیا گیا ہے یعنی لازمی عمل کی حیثیت سے اس کی تلقین کی گئی ہے؛ اس لیے نمازِ عید کی ادائیگی واجب ہے۔(مستفاد:آسان تفسیرِ قرآن مجید)
دوسرا حکم قربانی کا دیا گیا ہے، ''نحر'' اصل میں اونٹ کی قربانی کو کہا جاتا ہے، جس کے سینہ میں چھرا مار کر شہ رگ کاٹی جاتی ہے؛ لیکن بعض اوقات یہ لفظ مطلق قربانی کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور یہاں اِسی معنیٰ میں ہے۔(تفسیرِ ابن کثیر:482/14)
چونکہ قربانی کا حکم نمازِ عید کی طرح اَمْر کے صیغے سے دیا گیا ہے، یعنی اس کی تلقین بھی لازمی عمل ہی کی حیثیت سے کی گئی ہے؛ اس لیے قربانی کرنا بھی صاحبِ استطاعت .لوگوں پر واجب ہے۔(المبسوط:8/12)
قربانی کا عمل اللّٰہ تعالٰی کو بہت محبوب ہے، قربانی میں جانور کا جو خون بہایا جاتا ہے وہ؛ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللّٰہ تعالٰی کے دربار میں قبولیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ نبئ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا۔(سنن ترمذی، حدیث نمبر 1493)
"قربانی کے دن اللّٰہ تعالٰی کو انسان کا کوئی عمل اللّٰہ کے نام پر جانور کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی میں جو خون بہایا جاتا ہےوہ؛ زمین پر گرنے سے پہلے اللّٰہ تعالٰی کے دربار میں قبولیت حاصل کرلیتا ہے؛ اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو"
اِس حدیث شریف میں جہاں قربانی کی فضیلت اور اُس کے اجر کو بیان کیا گیا ہے؛ وہیں صاف لفظوں میں یہ بھی فرمادیا گیا کہ قربانی کے دنوں میں جانور کی قربانی سے زیادہ کوئی اور عمل اللّٰہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔
اِس سے اُس غلط خیال کی بھی کھل کر تردید ہوگئ جس کا اظہار بعض گوشوں کی جانب سے کیا جاتا ہے کہ "جانور کی قربانی کے بجائے اُتنی رقم صدقہ کردینا چاہیے؛ اس میں غریبوں کا زیادہ فائدہ ہے"۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلام روئے زمین کا سب سے زیادہ غریب پرور مذہب ہے، جس نے اپنے ماننے والوں پر مال کے ایک متعین حصہ کو غرباء اور محتاجوں کی امداد میں خرچ کرنا فرض اور واجب کردیا ہے، پھر اس متعینہ مقدار کے علاوہ مزید صدقات و خیرات کی بھی کثرت سے ترغیب دی ہے؛ لیکن اُس نے اِس بات کو گوارا نہیں کیا کہ خدا کے نازل کردہ احکام کے مقابلے میں کوئی شخص اپنی عقل سے کام لینے لگے، اور کسی فرض اور واجب کو چھوڑ کر نفل کاموں پر زور دینے لگ جائے! نہ صرف یہ کہ وہ اِس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا؛ بلکہ وہ اس حرکت کو "نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق" قرار دیتا ہے۔
چنانچہ "بدائع الصنائع" میں ہے کہ قربانی کے دنوں میں کوئی بھی چیز قربانی کا بدل نہیں بن سکتی، چاہے وہ جانور کا صدقہ کرنا ہو یا اس کی قیمت کا؛ اگر کسی نے کردیا تو یہ قربانی کی طرف سے کافی نہ ہوگا۔(291/6، ط: بیروت) بلکہ ایسا شخص وسعت کے باوجود واجب قربانی کو ترک کرنے کی وجہ سے بڑا گناہ گار ہوگا۔(کتاب المسائل،جلد:2)
وسعت رکھتے ہوئے بھی قربانی نہ کرنے والے کے بارے میں نبئ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بہت ہی سخت بات ارشاد فرمائی ہے: "مَن وجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ، فَلا يَقْرَبَنَّ مُصَلّانا" کہ جو شخص گنجائش رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے (مسند احمد: 24/14)
لہٰذا خوش دلی کے ساتھ، اللّٰہ تعالٰی کی خوشنودی کو مقصد بنا کر ہر وسعت والے کو ضرور قربانی کرنی چاہیے۔
اس سورت میں خصوصیت کے ساتھ نماز اور قربانی کا حکم دے کر اللّٰہ تعالٰی نے اس طرف اشارہ بھی فرمادیا کہ جہاں یہ دونوں چیزیں خیرِ کثیر کی نعمت کا شکرانہ بن سکتی ہیں؛ وہیں دشمن کے منصوبوں کو ناکام و نامراد کرنے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کا طاقت ور ذریعہ بھی ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
08 جولائی 2020 (فکروخبر بھٹکل)
جواب دیں