حکیم نازش احتشام اعظمی
قربانی کا مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ حاصل کرنا ہے، لہذا قربانی سے پہلے ہمیں اپنی نیتوں کا جائزہ لینا ہوگا تاکہ اپنے جانوروں کا خون بہانے سے پہلے ہم اس مقصد کے پانے والے بن جو اس ذبح عظیم کا مقصد ہے۔ عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیاتھا۔ نہ ان کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیاتھا۔ ان کی یہ ادااللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی اس اداکو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پرلازم کردیا، حتی کہ اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنت کو واجب کر دیا۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کر تاہے کہ ’’ اللہ کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بل کہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتاہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جوچھری چلارہا ہے، اس سے وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے یا نام نمود اور واہ واہی بٹور نے کیلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین دے پٹکا ہے۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانور وں کو قربان کررہا ہے اگر جادۂ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کواس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانورکی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کا میاب ہورہا ہے یا نہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبہ ایثار اور فداکاری دیکھنا چاہتاہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم دور زوال میں ہیں اوردورزوال میں ایک زوال یافتہ قوم کی جونفسیات ہوتی ہے وہ پورے طورپر مسلمانوں میں موجود ہے یعنی حقیقی پیغام سے صرف نظر کرلینااوررسم کی ادائیگی پر زور دینا۔ ہم ہرسال قربانی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ کچھ لوگ کچھ خصوصی نشانیوں والی بھینسیں، بکرے، بھیڑیں، لاکھوں کی رقم میں خریدتے ہیں اورپوری نمائش کے ساتھ رسم قربانی ادا کر تے ہیں، لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ قربانی کا پیغام کیاہے، اس کا مقصد کیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے آخری کلام (قرآن مجید) میں یہ واضح طورپر کہاہے کہ اللہ کو قربانی کا گوشت اورخون نہیں پہنچتا اس تک توتمہاراتقوی پہنچتاہے۔ اورآج یہی تقویٰ جو قربانی کا حقیقی پیغام ہے ہم سے غائب ہورہاہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قربانی محض ایک رسم اورنمود ونمائش کا موقع بن کر رہ گئی ہے۔
قربانی سے قبل ہم اس سچائی کو فراموش کرچکے ہیں کہ خالق کائنات کی خوشنودی کا راستہ اس کی مخلوق کی حقوق کی ادائیگی سے ہو کر جا تا ہے، حقوق العباد کے بغیر حقوق اللہ بے سود ہیں، عید الاضحیٰ کے موقع پر اللہ کے حکم سے جو قربانی کی جاتی ہے اس میں حضرت ابراہیمؑ کے جذبہ قربانی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور آپس میں محبت، برداشت، ایثار و قربانی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ کامیابی کے لیے قربانی ضروری ہے لیکن جانور کی قربانی سے پہلے اپنی خواہشات کی قربانی اور تزکیہ نفس ضروری ہے۔ آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے کی رسم تو اپنالی، لیکن سنت ابراہیمی کو فراموش کرتے ہوئے اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ چکے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم جو بھی عبادت کرتے ہیں اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی اور اسکی رضا ہے۔ اگر قربانی کرتے ہوئے یہ جذبہ موجود نہیں تو صرف قربانی کی رسم پوری ہوگی اور کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عید الاضحیٰ کا دن یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر بہت سی خواہشات کی قربانی دینا ہے، یعنی ہمیں صرف مال و زر ہی خرچ نہیں کرنا ہے، بلکہ اپنے اندرقربانی کی اصل روح بھی بیدار کرنی ہے جو کہ سال کے بقیہ دنوں تک ہماری ذات کا حصہ بنی رہے اور ہم سال بھر چھوٹی چھوٹی قربانیاں دیتے رہیں، تا کہ آئندہ آنے والی عید الاضحی پرہم ایک بار پھر اسی نیک نیتی اور صحیح روح کے ساتھ بڑی قربانی کر سکیں۔
غور کیجئے سیدنا ابراہیم ؑکی زندگی امتحانات میں گزری، آخری عمر میں بیٹے کا ملنا، پھر اس کی قربانی کا حکم اور اسے اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کردینا، بہت بڑا متحان تھا۔ باپ اور بیٹے دونوں نے اپنی جبین نیاز کو اللہ کے دربار میں خم کردیا۔ جب آنکھوں سے پٹی کھولی توحضرت اسماعیل ؑ زندہ تھے۔ مگر اللہ کریم اپنے خلیل کے جذبہ ایثار ووارفتگی کو پسند اورقبول کرچکاتھا۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ ؑ نے اپنا خواب سچا کردیا۔ ہم محسنین کو ایسے بدلہ دیتے ہیں کہ آپ ؑکی قربانی قبول ہوگئی، رب بھی راضی ہوگیا اور آپؑ کا بیٹا بھی اسی طرح سلامت ہے۔ آگے ارشاد فرمایا : یہ بہت بڑاذبیحہ جو آپؑ کو ہم نے دیا، اسے ہم آگے آنے والوں کے لیے رکھیں گے، یادگار بنا دیں گے۔ یہاں غور کرنے والی بات ہے کہ کیا ہم اللہ کے پیغمبر جیسا وہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں یا نہیں کہ اللہ کے دین اور اس حکم کی سربلندی کیلئے اگر ہمیں بھی کبھی اپنے جگر ٹکڑوں کو راہ خدامیں پیش کرنے کی نوبت آئے تو ہم بھی اللہ کی رضا اور تقویٰ حاصل کرنے کیلئے یہ کام کر گزریں گے یا نہیں۔ اگرہم نے جانوروں کی قربانی کے ساتھ وہی عزم، وہی جذبہ خلیل اللہی پالیا تو یقین مانئے کہ آپ اللہ کے نزدیک سرخرو ہیں۔ سرکار دوعالم ﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے، ارشاد فرمایا کہ یہ میری اور تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔
ہمیں اپنے مذہبی تہواروں کو ان کے عین تقاضے کے مطابق منانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے دین کی نمائندگی اس انداز سے کرنی چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ان تہواروں کو محض تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں۔ سوچیں کہیں آپ کی قربانی جذبہ ایثار، اور خلوص سے تو خالی نہیں اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھو ٹی انا، خواہشات نفس کی بھی قربانی کردیں۔ جومسلمان آج قربانی کررہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد کو تازہ کررہے ہیں۔ ان کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ قربانی سے زیادہ قربانی کے پیغام کو سمجھیں کہ وقت کے نمرود کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت اپنے اندر پیداکریں، دین وایمان اورملت اسلامیہ کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز اوردریغ نہ کریں۔ چاہے اپناگھر بار چھوڑناپڑے۔ اجنبی سرزمین میں بودوباش اختیار کرنی پڑے حتی کہ اگراپنی اولاد کو قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو بھی ہمت اورحوصلہ سے کام لیاجائے۔ خاردار وادیوں اور سنگلاخ پہاڑیوں کا سینہ چاک کرنا پڑے پھر بھی اللہ رضا اور خوشنودی کیلئے خود کومٹاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، حتیٰ کہ کامیابی ہمارے قدم چوم لے۔
جواب دیں