ماہ ذی الحجہ مبارک اور متبرک ہمارے اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کی نویں تاریخ کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ تقریب حج اداکی جاتی ہے ۔اور میدانِ عرفات میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہو کرحج ادا کرتے ہیں۔اور اپنے گناہوں کی بخشش و مغفرت کا سوال کرتے ہیں اور اس مہینہ کی دسویں تاریخ کو عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرکے بارگاہِ الٰہی میں قربانی کر کے محبت الٰہی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ یہ مہینہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی محرم الحرام سے نیا اسلامی سال شروع ہوتاہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ "ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں عبادت کرنا اللہ تعالی کے نزدیک باقی تمام ایام کی عبادت سے زیادہ محبوب ہے۔ ان ایام میں سےایک دن کے روزے کا ثواب ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر ہے اور ان ایام کی راتوں میں سے ہر ایک رات کے قیام کا ثواب لیلۃ القدرکے قیام کے ثواب کے برابر ہے۔"(ترمذی شریف )
ذی الحجہ کے پہلے نو دنوں میں روزہ رکھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے۔جو شخص ان ایام میں روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اسے دس انعامات سے نوازتا ہے۔
(1) اس کی عمر میں برکت فرماتا ہے۔(2) اس کے مال میں اضافہ کرتا ہے۔(3) اس کے اہل وعیال کو ہر قسم کی مصیبتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ (4)اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(5) اس کی نیکیوں کودو گنا کرتا ہے ۔(6) اس کے لیے موت کے سکرات آسان کر دیتا ہے۔(7 )اس کی قبرکی تاریکیوں کے لیے نور عطا فرماتا ہے ۔(8 )اس کے نیکیوں والے پلڑے کو وزنی بنا دیتا ہے۔(9) اور جہنم میں گرنے سے بچا لیتا ہے۔(10) اسے بلند درجات کی طرف چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے ۔(درةالناصحين)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذی الحجہ کے دس دنوں میں جو عمل کیا جاتا ہے وہ باقی تمام اعمال کیے جانے والے عمل سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں زیادہ محبوب ہے۔آپ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی وہ عمل زیادہ پسندیدہ ہے تو آپ نے فرمایا۔ہاں! البتہ وہ آدمی جو اپنا مال لے کر جہاد کے لئے نکلے اور واپس نہ ہوۓ یہاں تک کہ وہ شہادت کا مرتبہ حاصل کر لے۔تو گو یا اس کا درجہ اس سے بھی بلند ہے۔
روایت کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کیا ۔اے میرے پروردگار! میں نے تیری بارگاہ میں دعا کی کہ تو مجھے اپنے جمال جہاں آرا کا مشاہدہ کرا تو تو نے میری آرزو قبول فرمائی۔ اب مجھے ایسی دعا سکھا جس کو میں ورد کروں تو اور تیرا قریب سے قریب تر بندہ بن جاؤں تو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی ۔کہ اے موسیٰ! جب ذی الحجہ کا مہینہ داخل ہو جائے تو پہلے 10 دن تو پڑھا کر" لَاِ لِٰهَ اِلَّا اللّهُ "میں تیری حاجت پوری کردونگا ۔تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا مولیٰ یہ تو تیرے تمام انبیاء ومرسلین پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے موسیٰ ایک پلڑے میں" لَاِ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ " رکھ دیا جائے اور دوسرے میں پوری کائنات رکھ دیا جائے تو اے موسیٰ! " لَاِ ِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ " والا پلڑا بھاری اور وزنی ہو جائے گا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کے آخری دن اور محرم کے پہلے دن میں روزہ رکھتا ہے تو اس نے گزشتہ سال کا اختتام اورآئندہ سال کا آغاز روزے کے ساتھ کیا اللہ تعالی اس کو اسکے پچاس سال کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔
قربانی کا لغوی معنیٰ:-اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی چیز اس کے راستہ میں خرچ کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ اس چیز کے خرچ کرنے کا مقصد صرف اور صرف رضائے الہی ہو نام و نمود و نمائش اور ریا کا دل میں خیال تک نہ ہو اور اپنی عزیز تر اشیاء کو بارگاہِ الٰہی میں قربان کر ڈالے۔
قربانی کا عرفی اور شرعی معنی:-یہ ہے کہ 10 ذی الحجہ کو سنت ابراہیمی کے مطابق عمل کرتے ہوئے قربانی کا مقصوص جانور ذبح کیا جائے اور اس سنت پر عمل پیرا ہونےکا حکم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا ہے۔اللہ تعالی قرآن مقدس میں فرمایا ہے۔فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَاَنۡحَرۡ "اے محبوب آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیئے اور قربانی کیجیئے-"اس لیے آپ نے خود بھی ہر سال اپنی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کے جانور ذبح کیے۔اور اپنی امت کو بھی حکم دیا ہے کہ جو صاحب نصاب ہو تو قربانی کیا کریں ۔ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہی صاحب نصاب پر قربانی دینا واجب ہے۔
قربانی کا پس منظر:- حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام نے رسول صلی اللہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یہ قربانیاں کیا ہیں؟۔آپ نے فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں انہوں نے عرض کی اس میں ہمیں کیا ثواب حاصل ہو گا ؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا" کہ اس کے ہر بال کے بدلے ایک حسنہ حاصل ہوگی (حسنہ سے مراد دس نیکیاں ہیں ) پھر انہوں نے عرض کیا صوف یعنی اون کا کیا حکم ہے ۔ تو حضورِ اکرم صلّی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا نے اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک ایک حسنہ یعنی دس دس نیکیوں کا ثواب حاصل ہوگا -(ترمذی شریف)
اسی طرح حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ قربانی کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ جو شخص قربانی خریدنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو اسے ہر قدم کے بدلے دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اور اس کے نامۂ اعمال سے دس گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور اس کے دس درجے بلند کیۓ جاتے ہیں۔ اور جب وہ اس کے خریدنے کے متعلق جانور کے مالک سے گفتگو کرتا ہے تو اس کے کلام اللہ تعالی کی تسبیح بن جاتی ہے ۔اور جب وہ اس کی قیمت نقد ادا کرتا ہے تو اسے ہر درہم کے بدلے سات سو نیکی حاصل ہو تی ہے ۔ اور جب اس کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹاتا ہے تو وہ سطح زمین سے لے کر ساتویں آسمان تک تمام مخلوق اس کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہے۔اور جب اس کا خون زمین پر گرتا ہے تو خون کا ہر ہر قطرہ سے اللہ تعالی دس دس فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اس کے لیے تا قیامت دعاۓ مغفرت کرتے رہتے ہیں۔اور جب وہ اس کا گوشت تقسیم کرتا ہے تو گوشت کی ہر بوٹی کے بدلے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔(جواھرزادہ)
قربانی کی فضیلت وعظمت کو ظاہر کرنے کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی امت مسلمہ کے لیے بڑا ہی سود مند ہے ۔
" حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے قربانی کا جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا۔جب وہ شخص اپنی قبر سے اٹھے گا تو وہ اس کو اپنی قبر کے سرہانے کھڑا پائے گا۔جس کے بال سونے کے،اس کے دونوں آنکھیں جنت کے یاقوتوں کی اور اس کے دونوں سینگ بھی سونے کے ہونگے۔وہ شخص اس سے پوچھےگا کہ تو کون ہے ؟اور تو کیا چیز ہے؟میں نے تو اس سے زیادہ حسین کسی چیز کو نہیں دیکھا تو وہ جانور جواب دے گا۔ہاں میں تیری وہ قربانی ہوں جو دنیا میں تو نے ذبح کرکے اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا۔ پھر وہ اس سے کہے گا کہ میری پشت پر سوار ہو جاؤ وہ شخص اس پر سوار ہوجائے گا تو جانور اسے اٹھائے ہوئے آسمان اور زمین کے درمیان سے گزرتا ہوا عرش الہی کے سائے تک اسے لے جائے گا۔"
بہرحال جو صاحب نصاب ہے تو اسے چاہیے کہ قربانی کے ایام میں مخصوص جانوروں کی قربانی کر کے اللہ ربّ العزت کا قرب حاصل کر ے اسلیے کے اندنوں میں سب سے محبوب اور پسندیدہ عمل اگرکوئی ہے تو وہ قربانی ہی ہے ۔اور جو قربانی کرنے کی حیثیت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ماہ ذ ی الحجہ میں روزہ و تلاوتِ قرآن توبہ استغفار اور دیگر ذکرو اذکار کی کثرت کرے۔
"غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل"
جاری ہے …………….
ازقلم:-محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔مجلس علماء اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا ناراین پور زونل کمیٹی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
19جولائی2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں