قربانی کے دنوں میں کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں

کورونا وبائی مرض کی آفت میں قربانی کا حکم

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی 

عید الفطر کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر بعض حضرات کی طرف سے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روح کے بر خلاف کہا جارہا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے تاریخی واقعہ کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں کی جانے والی قربانی کے بجائے کورونا وبائی مرض سے متاثر غرباء کو نقد رقم دے دی جائے۔ اس طرح کی باتیں عموماً اُن حضرات کی طرف سے سامنے آتی ہیں جو قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے مقابلہ میں دنیاوی وقتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موقع پر چند باتیں عرض ہیں:
۱) کسی عالمی ادارہ یا کسی حکومت کی طرف سے قربانی پر پابندی کا نہ کوئی فرمان جاری ہوا ہے اور نہ ہی کورونا وبائی مرض کا دور دور تک قربانی کے جانور سے کوئی تعلق ہے۔ نیز جب دنیا میں کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باوجود احتیاطی تدابیر کے ساتھ دیگر کام ہورہے ہیں، حتی کہ چین کے ووہان شہر کی گوشت مارکیٹ (جہاں سے کورونا وبائی مرض پھیلا تھا) اور دنیا کے ہزاروں سلاؤٹر ہاؤس میں روزانہ لاکھوں جانور ذبح ہورہے ہیں، تو اسلامی شعار (قربانی) کو کیوں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ اگر کبھی کسی حکومت کی طرف سے عید الاضحی کی قربانی پر پابندی کی بات شروع ہو تو ہمیں اتحاد واتفاق کا بہترین نمونہ پیش کرکے اس کی مخالفت کرنی چاہئے تاکہ سنت ابراہیمی پر عمل کیا جاسکے۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی وجہ سے پوری کوشش اور فکر کے باوجود تین دن تک قربانی نہ کرسکا اور نہ کسی دوسرے مقام پر کرواسکا تو پھر وہ قربانی کے ایام گزرنے کے بعد قربانی کی قیمت غریبوں کو ادا کردے۔
۲) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قربانی کرنے کا حکم دیا ہے اور حکم عمومی طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ نیز نبی اکرمﷺ سے حالات تنگ ہونے کے باوجود کسی ایک سال بھی قربانی نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کو حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ وہ عید گاہ کے قریب بھی نہ جائیں۔ اس نوعیت کی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ صاحب استطاعت ہیں تو ہر صاحب استطاعت کو قربانی کرنی چاہئے۔ 
۳) قرآن وحدیث کی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ قربانی کے دنوں میں بڑھ چڑھ کر قربانی میں حصہ لیا جائے کیونکہ تمام مکاتب فکر کے فقہاء وعلماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں اور قربانی کے ایام میں کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے جیسا کہ پوری کائنات میں سب سے افضل حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺ بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرمﷺ کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ باوجود یکہ آپ کے گھر میں کبھی کبھی پکانے کی اشیاء موجود نہ ہونے کی وجہ سے دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلتا تھا۔ آپ ﷺ نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ ﷺ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر بھی باندھے۔ حضور اکرم ﷺ پوری زندگی میں ایک بار بھی صاحب استطاعت نہیں بنے یعنی پوری زندگی میں آپ ﷺ پر ایک مرتبہ بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود حضور اکرم ﷺ ہر سال قربانی کیا کرتے تھے، نیز آپ ﷺنے حجۃ الوداع کے موقعہ پر انہی قربانی کے ایام میں ایک دو نہیں، دس بیس نہیں سو اونٹوں کی قربانی کی۔ غرضیکہ قربانی کے دنوں میں خون بہانا یعنی جانوروں کو ذبح کرنا ایک اہم عبادت ہے۔
۴) جانوروں کی قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہونا صرف مذہب اسلام میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی ہے اور حضور اکرم ﷺ سے قبل دیگر انبیاء کرام کی تعلیمات میں بھی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عظیم واقعہ مشہور ہے۔ جب قربانی سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے تو عید الاضحی کے موقع پر قربانی میں حصہ نہ لینے کی دوسروں کو ترغیب دینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ 
۵) حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں عمومی طور پر صحابہئ کرام کے معاشی حالات بہتر نہیں تھے، کتابوں میں درج سینکڑوں واقعات اس کے شاہد ہیں۔ نیز صحابہئ کرام کو اپنے مال کا اچھا خاصہ حصہ جہاد وغیرہ میں بھی لگانا ہوتا تھا، اس کے باوجود حضور اکرمﷺ صحابہئ کرام کو قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تعلیم دیتے تھے، حالانکہ آپ ﷺ اپنی امت پر شفقت کا معاملہ کیا کرتے تھے۔
 آخری بات عرض ہے کہ شریعت اسلامیہ میں غریبوں کی مدد کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ بلکہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے یتیموں، بیواؤں، محتاجوں اور مسکینوں کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے۔ اسی لئے ہمیں یقینا غریبوں کی مدد کرنے میں سبقت کرنی چاہئے، جیساکہ مسلم بھائیوں نے گزشتہ رمضان کے مبارک مہینہ میں محتاجوں اور مزدوروں کی مدد کرکے مثال قائم کی۔ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق جہاں مالدار لوگ اپنے مال کی مکمل زکوٰۃ ادا کریں وہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کمزور لوگوں کی مدد کرے، مگر قرآن وحدیث سے ثابت شدہ واضح حکم میں اپنی خواہش کی اتباع کے بجائے شریعت اسلامیہ کے حکم کو بجالانا ہی ضروری ہے۔ یقینا غریبوں کی مدد کی جائے لیکن واجب قربانی چھوڑ کر قربانی پر خرچ ہونے والی رقم غریبوں میں تقسیم کرنا کسی شخص کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر یہ بات قرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہے۔ قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرنے یا پکاکر کھلانے میں حکم الٰہی پر عمل کے ساتھ غریبوں کی مدد نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کوئی شخص واجب قربانی ادا کرنے کے بعد موجودہ حالات میں نفلی قربانی زیادہ نہ کرکے غریبوں کی مدد کرے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن واجب قربانی چھوڑ کر غریبوں کی مدد کرنا ہرگز دین نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ اور صحابہئ کرام کے زمانہ میں موجودہ دور کے مقابلہ میں زیادہ تعداد میں لوگ غریب تھے اور وہ آج کے غریبوں سے زیادہ محتاج اور ضرورت مند تھے مگر ایک مرتبہ بھی حضور اکرم ﷺ یا کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ انہوں نے عید الاضحی کے دنوں میں قربانی کے بجائے غریبوں کی مدد کی بات کہی ہو۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اللہ کے حکم اور نبی کی اتباع میں قربانی کے دنوں میں قربانی کریں اور تین دن کے علاوہ پورے سال شادی وغیرہ کے اخراجات اور اپنے داتی مصاریف میں کمی کرکے یتیموں، بیواؤں، محتاجوں اور مسکینوں کی خوب مدد کریں۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

12جولائی 2020(ادارہ فکروخبر)
 

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے