قرآن،رمضان اور صیام

 

 

  ڈاکٹر ساجد عباسی

روزہ تقویٰ پیدا کرنے اور کلام مجید مکمل رہنمائی کا ذریعہ

اللہ کی کتاب امتِ مسلمہ کو زوال سے اٹھا کر عروج کی بلندیاں عطاکرسکتی ہے

عام طورپر ماہِ رمضان کے تقدس کا سبب اس ماہ میں روزوں کی فرضیت کو سمجھاجاتا ہے جبکہ قرآن ماہِ رمضان کی امتیازی شان کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا(سورۃ البقرۃ ۱۸۵) اور جس شب میں قرآن کا نزول ہوااس کولیلۃ القد یا لیلۃ مبارکہ فرمایا گیا جو ہزار ماہ سے بہتر ہے(سورۃ الدخان ۳،سورۃ القدر۱)۔اور اس ماہ میں روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں کہ ان روزوں کا اہتمام کرکے حاملین قرآن ، قرآن جیسی عظیم نعمت کا شکر ادا کریں (سورۃ البقرۃ ۱۸۵) روزوں سے تقوی کی صفت مطلوب ہے جو قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے اہم ترین شرط ہے(سورۃ البقرۃ ۱۸۳، ۳) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا (سورۃ ابراھیم ۳۴) ان تمام نعمتوں میں قرآن سب سے بڑی نعمت ہے ۔دنیا کی ہر نعمت عارضی اور زوال پذیر ہے لیکن قرآن ایسی نعمت ہے جو انسانوں کو لازوال نعمتوں والی جنت کی طرف لے جانے والی ہے۔یہ ایسی نعمت ہے جو ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ اس دنیا میں جمع کررہے ہیں (سورۃ یونس۵۸)۔
قرآن ایسی بیش بہا نعمت ہے کہ جس دن امتِ مسلمہ کو اس نعمت کا ادراک ہوجائے تو اسی دن سے امتِ مسلمہ کا اس کے روشن مستقبل کی جانب سفرکا آغاز ہوجائے گا۔قرآن کو محض اس کی تلاوت کرکے ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔یہ ایسا ہے جیسے سمندر سے چند قطروں پر قناعت کرنا اور باقی سمندر کو فراموش کردینا۔قرآن کی عظمت کے کئی پہلو ہیں ۔اس مضمون میں قرآن کے صرف تین پہلؤوں پر روشنی ڈالی جائے گی ۔قرآن تین چیزوں کی ضمانت دیتا ہے :۱)قرآن فرد کی سطح پر ایک ایک فرد کو جنت کا راستہ دکھاتا ہے اور انگلی پکڑ کر جنت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔۲)قرآن تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔۳) امتِ مسلمہ چاہے اپنی پستی و محکومی کے کتنے ہی انتہائی نچلے درجے تک پہنچ جائے قرآن حکیم کی تعلیمات میں یہ تاثیر ہے کہ وہ امت کو بامِ عروج پر پہنچادے۔
۱۔قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قرآن کو عالم انسانیت کے لیے شفاءلمافی الصدور اور اہل ایمان کے لیےہدایت و رحمت بنا کر نازل کیا گیا ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۔ اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔(سورۃ یونس ۵۷)
اس آیت مبارکہ میں ساری انسانیت کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ قرآن دلوں کے امراض کی شفا ہے یعنی قرآن تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ ایک ایک آیت میں بڑے بڑے انسانی مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔قرآن ان تمام سوالات کے جوابات پیش کرتا ہے جو اس کائنات اور اس میں انسان کی تخلیق سے متعلق ہیں ۔قرآن انسان کی ابتداء اور اس کے مقصدِ تخلیق اور اس کے انجام پر مفصل کلام کرتا ہے۔ قرآن جن غیبی حقائق کو بیان کرتا ہے اس کے حق میں ناقابل انکار دلائل بھی پیش کرتا ہے۔قرآن جہاں انسانی عقل کو مطمئن کرتا ہے وہیں وہ انسانی فطرت کی ایسی صدا ہے جو ہر سلیم الفطرت انسان کے دل کی آوازسے ہم آہنگ ہے۔انسانی فطرت ایسی ہستی کی متلاشی ہے جو اس کائنات کا خالق ہی نہیں ہے بلکہ وہ رب العالمین بھی ہو ۔جن چیزوں کا انسانوں کو محتاج بنایا گیا ہے وہ تمام چیزیں وافر مقدار میں اللہ تعالی نے اس کرۂ ارض میں پیدا بھی فرمایا ہے ۔لیکن اس کرۂ ارض کو اس اصول پر بنایا گیا ہے کہ یہاں انسان کی عارضی ضروریات کی تکمیل کا سامان تو کیا گیا ہے لیکن انسان کی لامحدود خواہشات کی تکمیل اس زندگی میں ممکن نہیں ۔ان لامحدود خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک الگ دنیا بنائی گئی ہے جس کو جنت کہتے ہیں ۔اس جنت میں انسان کو وہ کچھ ملے گا جو اس کا دل مطالبہ کرے گا۔اس جنت میں انسان کی وہ خواہشات پوری ہوں گی جو اس دنیا میں ناممکن ہے۔انسان چاہتا ہے کہ وہ کبھی نہ بیمارہو،نہ بوڑھا ہو اور نہ اس کو موت آئے ۔وہ چاہتا ہے کہ اس کو پورا انصاف ملے۔اس کو وہ سب کچھ ملے جس کی خواہش اس کے دل میں پیداہو۔ ان لامحدود خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو جنت بنائی ہے اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ : ۔۔ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ۔وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔(سورۃ فصلت ۳۱)
ایسی جنت جس میں انسان کی لامحدود خواہشات پوری ہوسکتی ہیں اس میں داخلہ کے لیےانسان کو ایک قیمت اداکرنی ہے ۔قیمت یہ ہے کہ اس عارضی زندگی میں انسان اپنے خالق کو پہچانے اور اس کی مرضی کے مقابلے میں اپنی مرضی سے دستبردار ہوجائے ۔انسان کا پہلا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے جس نے خود کو پردۂ غیب میں رکھا ہے ۔دوسرا امتحان یہ ہے کہ انسان ، اللہ کی نافرمانی کا اختیار رکھ کر بھی اپنے آپ کو بے اختیارکرلے اوراپنے خالق کی مرضی کے مقابلے میں سرتسلیم خم کردے ۔قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ کی مرضی کو بیان کرتی ہے اور ہر ہر قدم پر انسان کوجنت کے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔جو انسان قرآن کو رہنما بنالے ، قرآن قدم قدم پر اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اس کو جنت میں لے جانے کا ضامن بن جائے گا اور محشر میں اللہ کے حضور شفاعت کرے گی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اپنے آخری رسول کو مبعوث فرماکر اس کے قلب پر نازل فرمایا جس کی ساری زندگی دراصل قرآن کی عملی تفسیر ہے ۔ جنت کے راستے کو آسان بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو اسوۂ حسنہ بناکر پیش کردیا ہے ۔آپ کی زندگی میں ایک فرد کی دنیاوی واخروی کامیابی کے لیے بھی اسوہ ہے،ایک صالح معاشرہ کے لیے بھی نمونہ ہےاور ایک فلاحی ریاست کے لیےبھی بہترین ماڈل ہے۔
جہاں آخرت کی زندگی میں کامیاب انسانوں کےلیے جنت بنائی گئی ہے جو ناقابل تصور حدتک آرام و آسائش کی جگہ ہےوہیں ناکام انسانوں کے لیے جہنم بنائی گئی ہےجو بدترین ٹھکانہ ہے جہاں کا عذاب ناقابل بیان ہے ۔دنیاوی زندگی کا دورانیہ محدود ہے اوریہاں ہر انسان کا امتحان لیا جارہا ہے ۔لیکن اس امتحان کے نتائج لامحدود ہیں ۔ کامیاب انسانوں کا مستقر ابدی جنت ہے تو ناکام ونامراد لوگوں کا ٹھکانہ ابدی جہنم ہوگا ۔ قرآن وہ عظیم نعمت ہے جو جہنم سے ہم کو نجات دلاکر جنت کے راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔اس لیے فرمایا گیا : قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ۔ اے نبیؐ، کہو کہ“یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں”۔
(سورۃ یونس ۵۸)
دنیا میں لوگ مال و دولت ، شہرت اور قوت واقتدار کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جبکہ قرآن ان تمام چیزوں سے بہتر ہے ۔اس لیے کہ قرآن کی اتباع کرنے کی صورت میں نہ صرف آخرت میں ابدی جنت ملے گی بلکہ اسی قرآن کی بدولت دنیا میں امامت و قیادت بھی ملے گی ۔آخرت پیش نظر ہوتو دنیا بھی اس کے طفیل میں مل جائے گی ۔لیکن محض دنیا کے طالبین کے لیے آخرت میں ابدی جہنم ملے گی ۔
۲۔ قرآن اللہ کے بندوں کو جنت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ان کی دنیاوی زندگی کو بھی بابرکت بنادیتا ہے۔انسان کی فطرت کو خالق کی مرضی(فطرت ) کے مطابق بنایا گیا ہے: فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ۔ پس (اے نبیؐ اور نبی کے پیروو) یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نےانسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔(سورۃ الروم ۳۰)
قرآن میں اللہ کی مرضیات، احکامات کی صورت میں بیان کی گئی ہیں ۔یہ وہ احکامات ہیں جو انسان کی انفرادی زندگی ،معاشرتی زندگی ، سیاسی و معاشی زندگی کو بہتر سے بہتر بناکر ایک پر امن معاشرہ بناتے ہیں ۔اس طرح جہاں قرآن ہمارے لیے اخروی کامیابی کا ضامن ہے وہیں قرآن سارے انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔قرآن میں چھوٹی چھوٹی آیات میں انسانی زندگی کے بڑے بڑے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔زنا کو قرآن میں بُرا راستہ قراردیا گیا ہےاور اس کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا ہے(سورۃ بنی اسرائیل ۳۲) جب زنا برا راستہ ہے تو اس کا انجام بھی برا ہونا چاہیے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ایک آیت پر عمل نہ کرنے سے آج خاندان ٹوٹ رہے ہیں ۔معاشرہ تباہ ہورہا ہے ۔ازدواجی زندگی جس کا محرک فطری محبت و مودت ہے، زنا کی وجہ سے اس میں بد اعتمادی کا زہر سرائیت کرجاتا ہے ۔جرائم کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں قتل کا سب سے بڑا محرک نکاح سے باہر استوارکیے جانے والے ناجائز رشتے ہیں ۔ قرآن کی بس ایک آیت نے ایک بڑے معاشرتی مسئلہ کو حل کردیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات سے مسلم ممالک میں خاندانی نظام اس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوا جس طرح مغربی معاشروں میں ہوا ہے ۔قرآن نے معاشی مسئلہ کو زکوٰۃ کے ذریعے سے حل فرمایا ہے۔اگر زکوٰۃ ایمانداری سے نکالی جاتی تو مسلم دنیا میں ایک فرد بھی غریب نہیں رہ پائے گا۔جس حدتک بھی زکوٰۃ کا نظام مسلم معاشرہ میں جاری ہے اس کی برکات ضرور دیکھی جاسکتی ہیں جس کی مثال غیر مسلم معاشروں میں نہیں دیکھی جاسکتی۔غریبی آج دنیا میں ایک عالمی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے انسانیت کا ایک بڑا حصہ بھوک ،بیماری اور جہالت کا شکارہے۔دنیامیں آج زکوٰۃ کے بجائے سودی نظام رائج ہے جس سے امیر ،امیرترین بنتے جارہے ہیں اور غریب ،غریب ترین بنتے جارہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک اسلامی احکامات کو اجتماعی طورپر نافذکرکے ایک قابل عمل متبادل معاشی نظام پیش کرتے۔اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کااللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکل جس سطح پر بھی پایا جاتا ہے اس کا اثر یہ ہے کہ مسلمان حالات سے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کی طرف مائل نہیں ہوتے۔جبکہ غیرمسلم معاشرہ میں خودکشی کا رحجان بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور لوگ معمولی بات پر بھی اپنی جان لےلیتے ہیں۔بھارت میں بیٹیوں کی پیدائش کو مصیبت اور زحمت سمجھا جاتا ہے اور رحمِ مادر ہی میں ان کو ماردیا جاتا ہے ۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے اثرات سے مسلم گھرانوں میں بیٹی کو رحمت تصورکیا جاتا ہے ۔یہ چند مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ قرآن سارے انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔یہ مسلم دانشوروں اور علماء کا کام ہے کہ ہر انسانی مسئلہ کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں دنیا کے سامنے پیش کرتے۔
۳۔قرآن امتِ مسلمہ کو زوال سے اٹھا کر عروج کی نئی بلندیوں پر لےجا سکتا ہے جس طرح قرون اولی کے مسلمانوں کو دنیا کا قائد و امام بنا دیا تھا۔آج مسلمان چاہے کتنی ہی پستی میں ہوں سب سے پہلے قرآن مسلم قوم کو ایک عظیم مقصد عطا کرتا ہے اور وہ مقصدیہ ہے کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغا م پہنچایا جائے۔یہی مقصد امت کے عروج کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔قرآن کے نزول کا جب آغاز ہواتھا اس وقت رسول اللہ ﷺ تنہا تھے اور ۲۳سال کے اختتام پر اسلام جزیرہ نمائے عرب میں ایک واحد قوت بن چکا تھا ۔اس کے بعد ۱۲ سال کے اندر حضرت عمرؓ کی خلافت میں روم وایران، مصر، عراق، بلاد الشام، آذربائیجان ، آرمینیا، جارجیا، افغانستان اور سندھ تک کا علاقہ فتح ہوچکا تھا ۔رسول اللہ ﷺکے ۲۳سالہ دورِ نبوت میں قرآن کی آیات کی روشنی میں ہمارے سامنے اس مبارک انقلاب کے تمام سنگ ہائے میل نمایاں ہوجاتے ہیں۔جن قرآنی اصولوں کی بنیاد پر وہ عظیم انقلاب برپا ہواتھاان اصولوں کو اختیارکرنے کی صورت میں ہر دور میں اسلامی انقلاب ممکن ہے۔مکی دورِ نبوت میں فکری انقلاب برپا ہوا۔اس کے بعد مدنی دورِ نبوت میں جذبۂ جہاد و جذبۂ شہادت کے ساتھ حق کا راستہ روکنے والی قوتوں کا خاتمہ کردیا گیا۔ایک طرف فکری جہاد کے ذریعے لوگوں کے دل اور دماغ جیتے گئے تو دوسری جانب جہاد قتال کے ذریعے ظالموں کا قلع قمع کیا گیا۔عسکری طاقت کو جس چیز نے دوبالا کردیا تھا وہ تھا باطل فوج کے مقابلے میں جذبۂ شہادت ۔جب شہادت کی موت مطلوب و مقصودبن جاتی ہے تو باطل کی فوج اسلامی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
مسلمانوں کا زوال فکری انحطاط کے ساتھ شروع ہوا۔اس کے بعد مسلم حکمرانوں نے مقاصدِ شریعت کو فراموش کرکے عیش وعشرت کو مقصدِ حکمرانی بنالیا اور شورائیت کے بجائے جبر و استبداد کا طریقہ اختیار کیا۔دوسری طرف مسلم حکومتیں علم و تحقیق کی قیادت و امامت سے دستبردار ہوگئیں اور سائنس کا میدان یہودو نصاری کے لیے چھوڑدیا۔اس کے نتیجے میں وہ جنگی ہتھیاروں کے میدان میں خود اپنے دشمنوں کے محتاج بن گئے ۔اس طرح مسلمان وسائل رکھنے کے باوجود معاشی، عسکری اور سیاسی طور پر بڑی عالمی طاقتوں کے محکوم بن گئے۔اورجن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں پائے گئے انہوں نے اسلام کی فکری طاقت کو استعمال کرکے فکری انقلاب برپا کرنے کی ذمہ داری سے غافل ہوگئے ۔
قرآن یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جہاں اسلام کے ماننے والے اقلیت میں ہوں اور سیاسی طور پر مغلوب ہوں وہاں وہ اسلام کے داعی بن کر پوری قوتِ استدلال کے ساتھ فکری محاذپر چھا جائیں اور اسلام کی حقانیت کو پیش کریں ۔اس سے فکری انقلاب برپا ہوگا۔اسی فکری جدوجہد کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا : فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ۔پس اے نبیؐ ، کافروں کی بات ہر گز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔ (سورۃ الفرقان ۵۲)
یہ آیت مکی دورِ نبوت میں نازل ہوئی جہاں اسلام پر چلنے والوں، اسلام کی دعوت پیش کرنے والوں اور اسلام قبول کرنے والوں پر ظلم کیا جارہا تھا۔اس دورِ اذیت میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے اور کمزورتھے اس وقت کہاجارہا تھا کہ کفار کے خلاف قرآن سے جہادِکبیر کیا جائے ۔اس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ ایک ظالم اکثریت کے درمیان کمزور مسلم اقلیت کے پاس ایک ہی ہتھیار ہوتا ہے جس سے وہ کفارکی فکری طاقت پر غالب آسکتے ہیں اوروہ ہے اسلامی ( قرآنی) فکر کی طاقت ۔چونکہ اسلامی فکر حق پر مبنی ہے اس لیے دشمن قوم کے سلیم الفطرت لوگ جب اسلامی فکر سے متاثر ہوں گے تو اس کو قبول کرتے چلے جائیں گے۔حضرت عمرؓ ، رسول اللہ ﷺکو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے تھے لیکن ان کی بہن کے گھرمیں جب انہوں نے سورۃ طٰہ کی آیات کو پڑھا تو ان کے دل کی دنیا بدل گئی۔قرآن کے کلام میں آج بھی وہی تاثیر باقی ہے۔ہر زمانے میں حق کے متلاشی پائے جاتے ہیں لیکن وہ قومی تفاخر و عصبیت کا شکار ہوکر اسلام کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔لیکن جب قرآن کی آیات ان کے دل کو پگھلادیتی ہے تو قومی تعصبات چھٹ جاتے ہیں ۔
یہ تاثیر کسی انسانی کلام میں نہیں پائی جاتی ۔قلوب کو پگھلانے اور ان کو مسخر کرنے کی تاثیر صرف اللہ کے کلام ہی میں ہوسکتی ہے۔دنیا میں صرف مسلم ہی وہ امت ہیں جن کے پاس اللہ کا کلام محفوظ حالت میں موجود ہے۔آج دنیا میں دوسرے مذاہب کو ماننے والے ہر دورمیں نئی نئی گمراہیوں کا شکارہوتے رہے ہیں۔جب کہ مسلم امت پر اللہ کا احسان ہے کہ ان کے پاس قرآن جو اللہ کا آخری پیغام ہے اصلی حالت میں موجود ہےجس کی بدولت امتِ مسلمہ باربار اپنی اصل کی طرف لوٹ کرآتی رہی ہے ۔
اگر دعوت الی اللہ کا کام نہ ہو تو ایک ظالم اکثریت کے درمیان مسلم اقلیت کا اپنے تشخص کے ساتھ باقی رہنا محال ہوجاتا ہے۔چنانچہ بھارت میں مسلم مذہبی و سیاسی رہنماؤوں نےجب اس قرآنی اصول کو فراموش کرکے اپنے آپ کو محض مظلوم قوم کے طور پر پیش کرکے ظالم اکثریت سے اپنے حقوق مانگنےکی پالیسی اختیارکی تو ہر نیا دن مسلم قوم کے لیے ذلت و رسوائی میں اضافہ کے ساتھ طلوع ہوتا نظر آرہا ہے۔ چنانچہ روز بروزحقوق ملنے سے زیادہ سلب ہوتے جا رہے ہیں ۔اس افسوسناک صورتحال کو بدلنے کا بس ایک ہی راستہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم محض مسلم قوم کےبجائے ایک بامقصد امت بن کر اس مشن کے ساتھ زندہ رہیں جس کو دے کر ہم کو اللہ تعالیٰ نے امت وسط اور خیر امت بنایا ہے۔جب فکری انقلاب، اتمام حجت کے نشان تک پہنچتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدافرماتا ہے کہ انقلاب دوسرے مراحل میں داخل ہوتا جس کا ہم ادراک نہیں کرسکتے ۔ہر ملک کے حالات کے مطابق اللہ کی مدد مختلف انداز سے ظاہر ہوتی ہے۔
وہ مسلم ممالک جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں پر مسلم رہنماؤوں کا کام یہ ہوکہ وہاں وہ اسلامی اقدار کو فروغ دیں ۔اصلاحی کوششوں سے اسلامی اقدار کا احیاء ہو جن سے مثالی معاشرہ وجودمیں آئے ۔دوسری طرف سیاسی رہنما ملک کو شورائیت کے اصول پر چلائیں نہ کہ استبداد کے ساتھ۔ ملک میں علم و تحقیق کو اتنا فروغ دیا جائے کہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں وہ غیراسلامی ملکوں سے کم نہ رہیں ۔ سائنس و ٹکنالوجی میں تنزل ہی جنگ عظیم اول میں خلافت ِعثمانیہ کی بدترین شکست کا سبب بنا۔قرآنی اصولو ں سے انحراف کے نتیجہ میں آج ۵۷ مسلم ممالک اسرائیل کے مقابلے میں غزہ کے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے میں ناکام ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے مسلم ملکوں کو مادی وسائل سے مالامال کرنے کے باوجود ان کے حکمراں سیاسی و فوجی اعتبار سے عالمی طاقتوں کے محکوم بنے ہوئے ہیں ۔ان کی حکومتیں امریکہ کی مرضی کی مرہونِ منت ہیں ۔امریکہ جب چاہے مستحکم حکومتوں کو متزلزل کرکے اقتدار کی بساط کو الٹ کر، کٹ پتلی سیاسی قیادت کو مسلط کرسکتا ہے جیسا پڑوسی ملک میں ہورہا ہے۔ مسلم حکومتیں فوجی و سیاسی غلامی میں مبتلا ہیں ۔ ان ممالک میں جہاں مسلم اقلیت میں ہیں وہاں ان کی جان ،مال ،عزت و آبرو ہر روز نیلام ہورہی ہے۔فلسطین میں انسانیت ہر روز قتل ہورہی ہے اور انتہائی سفاکی کے ساتھ اہل فلسطین کو بھوک وپیاس کا شکاربناکر ان کے جذبۂ حریت کا امتحان لیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک کر اپنی جانوں کی بھیک مانگیں اور اسرائیل کی شرطوں پر اپنی غلامی کی خوفناک تاریک رات پر راضی ہو جائیں۔ان حالات میں قرآن امت مسلمہ کو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ عطاکرتا ہے ۔ دنیا میں کسی مذہب کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ انتہائی ظلم کے باوجود ظالموں کےخلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتی ہو۔آج دنیا حیران ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو اہل غزہ پر بہیمانہ بمباری کے باوجود ان کو آزاد فلسطینی ریاست حاصل کرنے کے اپنے موقف سے ہٹنے سے روک رہی ہے ۔ ایک طرف جذبۂ حریت ہے تو دوسری طرف جذبۂ شہادت ہے جو قرآن ہی ایک قوم کے اندر پیداکرسکتا ہے۔جذبۂ حریت یہ ہے کہ ہم اللہ کی غلامی کے ماسوا کسی کی غلامی کو قبول نہیں کرسکتے ۔جذبۂ شہادت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مرتے ہیں وہ اپنی جان دے کر حیات جاودانی حاصل کرتے ہیں اور اللہ کی جنتوں میں رزق پاتے ہیں۔ اس ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو پھر ایک موقع عنایت فرمایا ہے کہ ہم قرآن کی اہمیت کو سمجھیں کہ قرآن کو ہمارے لیے دنیا میں عزت و شوکت اور آخرت میں جنت کا انعام پانے میں مکمل رہنمائی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے ۔لیکن ہم نے اس کو محض ثواب حاصل کرنے کا نسخہ بنالیا ہے۔دعا ہے کہ اس رمضان میں صیام سے ہمارے اندر تقویٰ پیداہواور قیام سے قرآن کے مطالب ہمارے ذہن نشین ہوں ۔

«
»

رمضان سے ہم نے کیا حاصل کیا؟

خدا کی قدرت ،جو سب سے طاقت و ر تھا وہ سب سے کمزور بن گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے