قرآن میں ذوالقرنین کی داستان……کیا کہتی ہے ؟

  ابونصر فاروق
 
    دور حاضر میں جن لوگوں نے انگریزی پڑھ لی ہے اور بہت زیادہ ناجائز دولت کما لی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام جو اُن کے نزدیک ایک فرسودہ اور دقیانوسی مذہب ہے، اُس کی پیروی کر کے وہ غیر ترقی یافتہ، پسماندہ اورناکام رہ جائیں گے۔ایسے لوگوں کو اُن کی بے علمی، غفلت اور ناسمجھی کے دلدل سے نکال کر صراط مستقیم تک لانے کے لئے یہ  عبرت و نصیحت والامضمون ایک کوشش ہے،تاکہ ایسے بد نصیب لوگ سونے اور پیتل کا فرق سمجھ سکیں۔سورہ کہف کی ان آیات کا مطالعہ کیجئے اورحقیقت کو سمجھئے۔
    مشرکین مکہ جب رسول اللہ ﷺ کے مشن کو ناکام بنانے میں خود ناکام ہو گئے تواُنہوں نے مدینہ کے یہودیوں سے فریاد کی کہ تم لوگ بھی تو اہل کتاب اور نبی کے ماننے والے ہو، کوئی ترکیب بتاؤ کہ ہم اپنی قوم کے اس نئے نبی سے نجات پا سکیں۔اُنہوں نے کہا کہ ان سے اصحاب کہف کے متعلق پوچھو۔اگر یہ سچے نبی ہوں گے تو بتا دیں گے اور اگر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو یہ ثابت ہو جائے گا۔جب اہل مکہ نے رسول اللہﷺ سے یہ سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ کل بتا دوں گا۔اور منتظر رہے کہ اللہ کی طرف سے وحی آئے گی، لیکن وحی نہیں آئی۔دوسرے دن نبیﷺ نے پھر اگلے دن کا وعدہ کیا،لیکن اگلے دن بھی وحی نہیں آئی۔وعدہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے نبیﷺ بے انتہا پریشان ہو گئے۔تب اگلے دن وحی آئی اور اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے ہیں۔جب تک اللہ نہ چاہے غیب کی باتیں کوئی نہیں جان سکتا ہے۔آئندہ سے کوئی بھی وعدہ انشاء اللہ کے ساتھ کیا کیجئے یعنی اللہ نے چاہا تو ایسا ہو جائے گا۔ اللہ نے اصحا ب کہف کا قصہ سنانے کے بعد موسیٰ اور ذو القرنین کی داستان بھی سنا دی جو اہل مکہ کے لئے ایک تنبیہ تھی۔
ض    اور اے محمدﷺیہ لوگ تم سے ذو القرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں۔(۳۸)ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اُسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ (۴۸)اُس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا)سر و سامان کیا۔(۵۸)حتیٰ کہ جب وہ غروب آفتاب کی حد تک پہنچ گیا تو اُس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھ اور وہاں ایک قوم ملی۔ہم نے کہا اے ذوالقرنین،تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ اُن کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اُن کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے۔ (۶۸)اُس نے کہا، جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اُس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اوروہ اُسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔(۷۸)اور جو ا ُن میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لئے اچھی جزا ہے اورہم اُس کو نرم احکام دیں گے۔(۸۸)پھر اُس نے ایک دوسری مہم کی تیاری کی۔(۹۸)یہاں تک کہ طلوع آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اُس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلو ہو رہا ہے جس کے لئے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔(۰۹)یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔(۱۹)پھر اُس نے (ایک اور مہم کا)سامان کیا۔(۲۹) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اُسے اُن کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی۔(۳۹) اُن لوگوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام کے لئے دیں کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے۔ (۴۹) اُس نے کہا، جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور اُن کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں۔(۵۹) مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو۔ آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو اُس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا اب آگ دہکاؤ۔یہاں تک کہ جب(یہ لوہے کی دیوار) بالکل آگ کی طرح سرخ ہو گئی تو اُس نے کہا لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔ (یہ بند ایسا تھا کہ) یاجوج ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آ سکتے تھے اوراس میں نقب لگانا اُن کے لئے اوربھی مشکل تھا۔(۷۹)ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے۔مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا۔ اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔(الکہف:۳۸تا۸۹)
    ان آیتوں سے معلو ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ایک ایسا بادشاہ گزرا ہے جس کی حکومت ساری دنیا پر تھی اور اُس کی حکومت میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ایسی شاندار ترقی کا دور تھا جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتاہے۔اُس نے اپنی حکومت کی سیر کرنے کا ارادہ کیا اور زمین کی پچھم میں وہاں پہنچ گیا جہاں کا لے پانی کا سمندر تھا یعنی Black Seaکے پاس۔اُس وقت ذو القرنین اُس قوم کو نقصان بھی پہنچا سکتا تھا اورفائدہ بھی۔ذو القرنین نے اللہ کے نیک اور صالح بندے کی طرح اُس قوم کو اسلام کی دعوت دی اور کہا کہ تم میں جو ظلم کرے گا اُسے ہم سزا دیں گے اور اللہ بھی اُس کو عذاب میں ڈالے گا۔اور جو ایمان لا کر نیک عمل کرے گاتو اُسے اللہ اچھا بدلہ دے گا اور آسان احکام دے کرمدد کرے گا۔پھر اُس نے پورب کی طرف سفر کیا اور اُس قوم تک پہنچا جو مکان بنانا نہیں جانتی تھی۔ آسمان کے نیچے رہتی تھی۔پھر وہاں سے تیسری طرف چلا اور ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دو پہاڑ تھے اور اُن دونوں کے بیچ گہری کھائی تھی۔وہاں جو قوم آباد تھی وہ ایسی جنگلی تھی کہ مشکل ہی سے کوئی بات سمجھ پاتی تھی۔اُنہوں نے ذوالقرنین سے کہا کہ پڑوس سے یاجوج اور ماجوج آتے ہیں اور ہماری قوم میں فساد برپا کرتے ہیں۔ہم تمہیں ٹیکس دینے کو تیار ہیں کیا اُن سے حفاظت کا سامان تم ہمارے لئے کر سکتے ہو۔ذوالقرنین نے جواب دیا اللہ کا دیا میرے پاس بہت کچھ ہے۔مجھے کچھ نہیں چاہئے۔صرف اس کام میں محنت سے میری مدد کرو۔اُس نے لوہے کی چادریں Iron sheets منگوائیں اور دونوں پہاڑوں کے بیچ لوہے کی اتنی اونچی اورچوڑ ی دیوار بنا دی جس پر نہ تو چڑھ کر دشمن آ سکتے تھے اور نہ ہی اُس دیوار میں چھید کر سکتے تھے۔اور اُس لوہے کی دیوار پر پگھلے ہوا تانبا ڈال کر اُس کو اورمضبوط بنا دیا۔ذوالقرنین  نے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ میرا کمال نہیں میرے رب کا فضل ہے۔ اب یہ دیوار توڑی نہیں جا سکے گی۔مگر جب قیامت آئے گی تو اللہ تعالیٰ اس کو مسمار کر دے گا۔اورقیامت کا وعدہ اللہ کا سچا وعدہ ہے۔
    اس پورے معاملے کو پڑھنے کے بعد درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
(۱)    کیا معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے کسی فرد کو پوری دنیا کی حکومت ملی ہو ؟
(۲)    کیا ذوالقرنین جیسی حکومت، طاقت، دولت، شان و شوکت دنیا کے کسی فرد کو میسر ہوئی ہو ؟
(۳)    اتنی عظمت اور طاقت کے باوجوذوالقرنین غرور میں نہیں مبتلا ہو اورنہ خدا کو بھولا بلکہ اللہ کا شکر گزر رہا۔
(۴)     لوہے کی چادروں Iron sheetsکا ملنا، اُن کا کھلی فضا میں تپا کر لال ہو جانا اور پگھلا ہوا تانبا اُن پر ڈالنا،کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اُس دور میں سائنس اور ٹکنالوجی آج سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود تھی ؟
(۵)    دنیا میں ترقی یافتہ،شاندار، خوش نصیب اور کامیاب اللہ کے نافرمان بندے نہیں ہوتے، بلکہ اللہ کے فرماں برداربندے ہوتے ہیں۔
(۶)    آج کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان جو مسلم ہوتے ہوئے اسلام کو نہیں مانتے، اللہ کی کتاب کوسمجھ کر عمل کرنے کے لئے نہیں پڑھتے وہ کبھی  ذو القرنین نہیں بن سکتے بلکہ مکہ کے وہ مشرک اور منکر ہیں جو کم تعداد اور، بے سرو سامان رہنے والے نیک،صالح اور پاکباز ایمان والوں سے شکست کھا کر نیست و نابود ہو گئے۔
    عصر جدید کے نام نہاد ترقی یافتہ، خوش حال اورکامیاب انسانوں کی اصلیت اور حقیقت کیا ہے درج ذیل آیتوں کو پڑھ کر جانئے۔
ض    پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا۔ہم نے اُنہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دُھتکارپھٹکار پڑے۔اس طرح ہم نے اُن کے انجام کو اُس زمانے کے لوگوں اوربعد میں آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت بنا کے چھوڑا۔ (البقرہ: ۵۶/۶۶)
    سمندر کنارے رہنے والے مچھیروں کی قوم جس نے دنیا کی حرص وہوس میں پڑ کر اللہ کی نافرمانی کی اللہ نے اُسے ذلیل بندر بنا دیا اور وہ ہر اعتبار سے ذلیل و رسوا ہوگئے۔
ض        اوراے نبی، ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کروجس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا، مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔آخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ (۵۷۱)اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس کے پیچھے ہی پڑا رہا، لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں۔(اعراف:۵۷۱/۶۷۱)
    جن بدنصیبوں نے دین کا علم حاصل کیا،لیکن اللہ کا فرماں بردار بندہ بننے کی جگہ دولت کے پجاری اور دنیا کے طلب گار بن گئے، اللہ نے اُنہیں اعلیٰ درجے کا انسان نہیں کتا بنا دیا جو سب سے ذلیل اورگھٹیا جانور ہے۔ عیسائی قوم کتوں کو انسانوں سے زیادہ قیمتی سمجھتی ہے۔اُن کے ملکوں میں دوسرے نسل کے انسانوں کی کوئی قدر نہیں لیکن کتوں کی عزت و عظمت انسانوں سے بھی زیادہ ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ کتے ہی کتوں سے لڑائی بھی کرتے ہیں اور کتے ہی کتوں کے دوست بھی بنتے ہیں۔
ض    جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے، جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بد تر مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔(الجمعہ:۵)
    جو یہودی آج دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھے جاتے جب اُنہوں نے توریت کے احکام کی پابندی نہیں کی تو وہ گدھے بنا دیے گئے۔آج مادی لحاظ سے بلند ترین مقام پر پہنچ کر وہ ایسے محتاج اور مجبور ہیں کہ اُن کا کوئی وطن نہیں ہے۔اگر سوپر پاورملک اُن کی طرف داری نہ کرے تو اہل عرب مل کر اُن کا نام و نشان مٹا دیں۔اُن کے ڈرپوک اور بزدل ہونے کا یہ عالم ہے کہ وہ فلسطینی قوم کا قتل عام کر رہے ہیں اور اُن کا اپنا ایک آدمی بھی مرتا ہے تواُن کے ہوش اُڑ جاتے ہیں،کیونکہ دنیا میں اُن کی تعداد سب سے کم ہے۔یہودی قوم گھمنڈی، ایک نمبر کی دھوکہ باز، جھوٹی، خود غرض اورانسانوں کی دشمن ہے۔ یہودی سے دنیا میں کوئی محبت نہیں کرتا ہے۔
    اندازہ کیجئے،دور حاضر کے جن بے دین، دنیا پرست، دولت کے پجاری مسلمانوں کا ذکر کیا جارہاہے وہ کتنے بدنصیب اورگھٹیا لوگ ہیں کہ اُنہیں اللہ کا ڈر نہیں، نبی رحمت ﷺ سے اُن کومحبت تو دور کوئی لگاؤ بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے نبی کو اپنے معیار اور نمونہ بنانے کی جگہ یہودی صفت دنیا داروں کو اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل بنائے ہوئے ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ فرعون کا کیا حال ہوا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا ؟   اللہ نے قارون کو کیسی سزا دی جو دنیا کا سب سے زیادہ دولت رکھنے والا انسان تھا ؟  یہ لوگ خود بھی جہنم میں جانے والے بدنصیب ہیں اورمسلم نوجوانوں کو بھی اسی بدنصیبی اورجہنم کی آگ کی طرف بلانے اور بہکانے کا کام کر رہے ہیں۔
    جس سائنس اور ٹکنالوجی کی آج دھوم ہے اُس نے نئی نسل کو شریف، مہذب،با ادب،نیک، صالح،سچا، خیر خواہ، ہمدرد، غم گسار، ناتوانوں سے محبت کرنے والے کی جگہ ذلیل، بدتمیز،بے ادب،بد معاش، بد مزاج، جھوٹا، فریبی، بد خواہ، ظالم، خود غرض،کمزوروں اور ناتوانوں سے نفرت کرنے والا بنا دیا۔حد یہ کہ یہ نئی نسل اپنے غریب رشتہ داروں کی بھی ہمدرد اور مددگار نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ موجودہ تعلیم اچھے انسان نہیں بندر، کتے اور گدھے جیسے جانور پیدا کر رہی ہے۔ہر سمجھدار اور باشعور انسان ایسی تعلیم پر لعنت بھیجے گا جو انسان کو حیوان بنانے کا کام کر رہی ہے۔یہ تعلیم نہیں بلکہ قوموں کا مستقبل برباد کرنے کی ایک سازش ہے،لیکن بد عقلوں اور ناسمجھوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے۔صارمؔ کہتے ہیں:
یہ مسلمان جو اخلاق کا پیکر ہوتا
بن کے خورشیدِ جہاں تاب منور ہوتا
حسنِ کردار اگر اس کو میسر ہوتا
دورِ حاضر میں جہاں والوں کا رہبر ہوتا
ہوتی تعلیم نئی نسل کی اردو میں اگر
نوجواں قوم کا جو بھی تھا سخنور ہوتا
دورِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھتا یہ اگر
علم و صنعت کے سمندر کا شناور ہوتا

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے