از: خورشید عالم داؤد قاسمی
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ورسالت سے قبل، اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ رسولوں اور پیغمبروں پر کئی آسمانی کتابیں نازل کی۔ مگر وہ سب کتابیں کچھ خاص اقوام، کچھ خاص علاقے اور کچھ خاص زمانے تک کے لیے محدود تھیں۔ اللہ پاک نے سب سے آخری میں جس آسمانی کتاب کو نازل فرمایا وہ "قرآن کریم" ہے۔ ذات باری تعالی نے اس کتاب کو اپنے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے، اپنے پیارے رسول جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ یہ کتاب تقریباتئیس سالوں میں نازل ہوئی۔ یہ کتاب نزول کے وقت سے اب تک کسی بھی طرح کی تبدیلی وترمیم سے محفوظ ہے اورمستقبل میں بھی محفوظ رہے گی۔ اس کی حفاظت کی ذمے داری خود پاک پروردگار نے لے رکھی ہے۔ اللہ پاک کی یہ آخری کتاب : قرآن کریم پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے اتاڑی گئی ہے۔ اس کے بعد اب کوئی دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ اس کتاب کو پڑھنا، سمجھنا اور اس کی ہدایات وارشادات کے مطابق زندگی گزارنا، ہر انسان پر لازم وضروری ہے۔
جب بھی ایک آدمی کسی دوسرے شخص کی کوئی بات سنتا ہے، یا کوئی کتاب یا مضمون پڑھتا ہے؛ تو اس کو سمجھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں، تو ہماری پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم قرآن کریم کے معانی ومفاہیم کو سمجھ کر پڑھیں۔ اگر ہم میں یہ استعداد نہیں ہے کہ ہم کلام الہی کے معانی ومفاہیم کو سمجھ سکیں؛ تو ہمیں اہل علم سے اس کے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم میں قرآن کریم کے معانی ومفاہیم کو سمجھ کر پڑھنے اور تلاوت کرنے کی استعداد نہیں ہے؛ تو ایسی صورت میں بھی یہ ہمارا معمول ہو کہ ہم ہر روزمخارج وتجوید کی رعایت اور سکون واطمینان کے ساتھ قرآن کریم کے کچھ حصے کی تلاوت کریں۔ اس عظیم کتاب قرآن کریم کی صرف تلاوت کرنے کے بھی بہت سے فوائد ہیں اور اللہ پاک بہت زیادہ اجر وثواب سے نوازتے ہیں۔
دلوں کا اطمینان:
قرآن کریم میں مذکور ارشاد خداوندی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے ذکر سے دل کو سکون نصیب ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت بھی اللہ تعالی کا ذکر ہے؛ اس لیے دلوں کے سکون واطمینان کے لیے سب سے اچھی چیز قرآن کریم کی تلاوت ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ. (سورة الرعد: 28) ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں، اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
درج بالا آیت کی تفسیر میں، علامہ شبیر احمد عثمانی (رحمہ اللہ) رقم طراز ہیں: "یہ خدا کی طرف رجوع ہونے والوں کا بیان ہوا۔ یعنی ان کو دولت ایمان نصیب ہوتی ہے،اور ذکر اللہ (خدا کی یاد) سے چین اور اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ کیوں کہ سب سے بڑا ذکر تو قرآن ہے "انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون"، جسے پڑھ کر ان کے دلوں میں سکون کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ شبہات اور وساوس شیطانیہ دور ہوکر،سکون اور اطمینان میسر آتا ہے۔ ایک طرف اگر حق تعالی کی عظمت ومہاب دلوں میں خوف وخشیت پیدا کرتی ہے؛ تو دوسری طرف لا محدود رحمت و مغفرت کا ذکر قلبی سکون وراحت کے سامان بہم پہنچاتا ہے۔ غرض ان کا دل ہر طرف سے ٹوٹ کر، ایک خدا کی طرف جم جاتا ہے اور ذکر اللہ کا نور ان کے قلوب سے ہر طرح کی دنیوی وحشت اور گھبراہٹ کو دور کردیتا دیتا ہے۔"
ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں:
اگر کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے؛ تو اس شخص کو ہر ایک حرف پر ایک نیکی ملے گی۔ پھر اس ایک نیکی کو دس گنا کردیا جائے گا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو شخص قرآن کریم کے ایک حرف کی تلاوت کرتا ہے، اسے دس نیکیاں ملیں گی۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لاَ أَقُولُ الْم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلاَمٌ حَرْفٌ، وَمِيمٌ حَرْفٌ». (ترمذي: 2910) ترجمہ: "جس نے اللہ کی کتاب (قرآن کریم) کا ایک حرف پڑھا؛ تو اس کے بدلے اس شخص کے لیے ایک نیکی ہے اور وہ نیکی دس گنا ہوگی ۔ میں نہیں کہتا ہوں کہ "الم" ایک حرف ہے؛ بلکہ "الف" ایک حرف ہے، "لام" ایک حرف ہے اور "میم" ایک حرف ہے"۔
تلاوت میں مشغولیت:
ایک شخص قرآن کریم کی تلاوت میں اس طرح مشغول ومنہمک ہے کہ اسے اللہ پاک کا ذکر کرنے اور دعا مانگنے کی بھی فرصت نہیں ملتی ہے۔ ایسے تلاوت میں مشغول ومنہمک شخص کے بارے میں، ایک حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اس کو اللہ پاک مانگنے والے شخص سے بھی بہتر اور زیادہ عطا فرمائیں گے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: «مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي؛ أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ». (ترمذي: 2926) ترجمہ: جس شخص کو قرآن کریم میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے سے مشغول کردے؛ میں اس شخص کو اس سے بہتر دیتا ہوں، جو میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں۔
قیامت کے دن قرآن کریم کی سفارش:
قیامت کے دن کا منظر عجیب وغریب ہوگا۔ نفسی نفسی کا عالم ہوگا۔ کوئی کسی کا پوچھنے والا نہ ہوگا۔ قرآن کریم اس دن اپنے تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش کرے گا۔ حدیث شریف میں ہے: «اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ». (صحیح مسلم: 804) ترجمہ: قرآن کریم کی تلاوت کرو؛ کیوں کہ وہ قیامت کے دن اپنے تلاوت کرنے والوں کے حق سفارشی بن کر آئے گا۔
اٹک اٹک کر تلاوت کرنے والے:
قرآن کریم کی تلاوت کے حوالے سے حافظِ قرآن شخص اور ایک غیر حافظِ قرآن شخص ہو؛ تو ان دونوں کی تلاوت میں بہت فرق ہوگا۔ جو شخص قرآن کریم کا حافظ ہے، وہ آسانی سے تلاوت کرلے گا۔ اسے تلاوت میں کوئی دشواری نہیں پیش آئے گی۔ مگر وہ شخص جو حافظ نہیں ہے، اس کو تلاوت کرنے میں دشواری پیش آئے گی اور وہ حافظ کے مقابلے میں اٹک اٹک کر تلاوت کرے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کو دوگنا ثواب ملے گا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ». (صحیح مسلم: 798) ترجمہ: قرآن کا ماہر (حافظ) ان بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہے، جو لوح محفوظ کے پاس لکھتے رہتے ہیں اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے، وہ قرآن کے پڑھنے میں اٹکتا ہے اور وہ اس کے لیے دشوار ہے؛ تو اس شخص کے لیے دوگنا ثواب ہے۔
رات میں دس آیات کی تلاوت:
اللہ پاک کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ ہمیں چلتے پھرتے بھی تسبیح وغیرہ پڑھتے رہنا چاہیے یہ بھی اللہ پاک کے ذکر مشغول رہنا ہے۔ اگر کوئی قرآن کریم کی تلاوت کرے؛ تب وہ تو اعلی درجے کی ذکر میں مشغول ہے۔ جو شخص رات میں قرآن کریم کی صرف دس آیات کی تلاوت کرے گا، تو وہ شخص اللہ پاک کے ذکر میں مشغول رہنے والا شمار ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «من قرأ في ليلة عشر آيات، كتب من الذاكرين، ومن قرأ بمائة آية، كتب من القانتين». (سنن الدارمي: 3501) ترجمہ: "جس شخص نے ایک رات میں (قرآن کریم کی) دس آیات کی تلاوت کی؛ تو وہ شخص ذاکرین میں لکھا جائے گا، جس نے سو آیتیں پڑھی، تو وہ شخص اطاعت گزار بندوں میں لکھا جائے۔
قرآن کریم نور ہے:
ایک لمبی حدیث شریف ہے، جس میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کیے ہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سوالوں کے جوابات دیے ہیں۔ پھر انھوں نے وصیت کرنے کی درخواست کی؛ تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا، ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے وصیت کیجیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللهِ؛ فَإِنَّهُ رَأْسُ الْأَمْرِ كُلِّهِ». (ترجمہ) میں آپ کو تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں؛ کیوں کہ وہ سارے معاملات کی جڑ ہے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ کچھ مزید (وصیت) فرمائیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عَلَيْكَ بِتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ؛ فَإِنَّهُ نُورٌ لَكَ فِي الْأَرْضِ، وَذُخْرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ». (صحيح ابن حبان: 361) ترجمہ: قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کا اہتمام کرو؛ کیوں کہ یہ زمین (دنیا) میں تمھارے لیے نور ہے اور آسمان (آخرت) میں تمھارے لیےذخیرہ ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کے حوالے سے جن فوائد کو تحریرکیا گیا ہے، ان کے علاوہ او ربھی بہت سے فوائد ہیں، مثلا: جو شخص قرآن کریم کو مضبوطی سے تھام لے گا، قرآن کریم اس کو بدی سے روک دے گا اور جو شخص قرآنی احکامات پر عمل کرے گا، قرآن کریم اس شخص کے لیے جہنم کی آگ سے حفاظت کا ذریعہ بنے گا۔ قرآن کریم کی تلاوت سے اگر اللہ پاک کی رضا مقصود ہو؛ تو اللہ پاک اس شخص کو کامیابی عطا فرمائیں گے۔ قرآن کریم کی تلاوت ایک مومن کو سیدھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن کریم اللہ پاک کی مضبوط رسی ہے، جس نے بھی اسے مضبوطی سے پکڑ لیا، اس کی تلاوت کی وہ دنیا وآخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوگا۔ تلاوت قرآن کریم سے شرح صدر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت روحانی وجسمانی بیماریوں کے لیے دوا کا کام بھی کرتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو قرآن کریم کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے!
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں