قرآن کریم میں انسانیت کی ہدایت کا پیغام ہی تو ہے

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی 

چند روز قبل ”سویڈن“ میں قرآن کریم کا نسخہ جلانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ گزشتہ سال بھی یورپ کے ہی ایک دوسرے ملک ”ناروے“ میں اس نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا۔ نہ صرف مسلمان بلکہ عقل سلیم رکھنے والا ہر شخص اس واقعہ کی مذمت کررہا ہے۔ دنیا میں امن وسکون کے ظاہری ٹھیکیدار مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب کو نذرِ آتش کرنے کی مذموم کوشش اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت وتعصب کی وجہ سے ہے جو اسلام مخالف طاقتیں اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس نوعیت کے واقعات رونما کراتی ہیں۔ ہم اِن واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ کسی بھی مذہبی کتاب یا مذہبی رہنماکے خلاف اس نوعیت کے واقعات پر سزا کے لیے سخت قانون بنایا جائے کیونکہ اس طرح کے واقعات سے دنیا میں امن وامان کے بجائے افراتفری، عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ ہی ہوگا، جس سے لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا ہوگی۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے موقع پر قرآن کریم کے متعلق اپنے قول وعمل سے عام لوگوں کو بتائے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے جو صرف اور صرف انسانیت کی رہنمائی کے لئے نازل کیا گیا ہے، اس میں دہشت گردی کی نہیں بلکہ امن وسکون کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن کریم کے اعلان کے مطابق کسی شخص کو مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا ہے۔ 
قرآن کیا ہے؟ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لئے آخری نبی حضور اکرم ﷺ پر وحی کے ذریعہ عربی زبان میں ۳۲ سال کے عرصہ میں نازل فرمایا، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں اور وہ لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔ 
قرآن کے نزول کا مقصد؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جیساکہ فرمان الٰہی ہے: یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے (اللہ سے) ڈر رکھنے والوں کے لئے۔(سورۃ البقرۃ آیت ۲) 
قرآن کریم کس طرح اور کب نازل ہوا؟ ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا (زمین سے قریب والا آسمان) پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۳۲ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورہئ علق کی ابتدائی آیات ہیں۔ ترجمہ: پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ ﷺ پر نازل فرمائیں۔ ترجمہ: اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً ۳۲ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔
قرآن کریم کس طرح ہمارے پاس پہنچا؟ قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا، چنانچہ خود حضور اکرم ﷺ الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ پہلے حافظ قرآن ہیں۔ پھر آپ ﷺ صحابہئ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابہئ کرام کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابہئ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابت، خلفاء راشدین، حضرت ابی بن کعب، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ابتداء میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔ حضرت زید بن ثابت خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابہئ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابت نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی۔ صحابہئ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم ﷺسے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔ 
قرآن کریم میں کیا ہے؟:  علماء کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے:  ۱) عقائد۔ ۲) احکام۔ ۳) قصص۔۔۔ قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اصول ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیث نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم کے مضامین کو ہم احادیث نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ ۱) عقائد: توحید، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآن کریم نے بہت زور دیاہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان، جزاوسزا، جنت ودوزخ، عذاب قبر، ثواب قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف عقیدوں پر قرآن کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۲) احکام: اس کے تحت مندرجہ ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں۔ عبادتی احکام: نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ کے احکام ومسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ ہی عموماً زکاۃ کی ادائیگی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔ معاشرتی احکام: مثلاً حقوق العباد کی تفصیلات۔ معاشی احکام: خرید وفروخت، حلال اور حرام اور مال کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔ اخلاقی وسماجی احکام: انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام ومسائل۔ سیاسی احکام: حکومت اور رعایا کے حقوق سے متعلق احکام ومسائل۔ عدالتی احکام: حدود وتعزیرات کے احکام ومسائل۔ ۳) قصص: گزشتہ ابنیاء کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔
قرآن کریم کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟: ۱) تلاوت قرآن: اللہ کے کلام کو پابندی سے پڑھیں۔  ۲) حفظِ قرآن: اللہ کے کلام کی کم از کم چند سورتیں زبانی یا د کریں۔ ۳) قرآن فہمی: علماء کرام کی صحبت میں رہ کر قرآن کریم کوسمجھنے کی کوشش کریں۔ ۴) العمل بالقرآن: یہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کی تطبیق ہے اور اسی میں بنی نوع انسانی کی دنیاوی واخروی سعادت مضمر ہے، اور نزول قرآن کی غایت ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو گویا ہم قرآن کریم کے نزول کا سب سے اہم مقصد ہی فوت کررہے ہیں۔ لہٰذا جن امور کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالائیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے رک جائیں۔ ۵) قرآنی پیغام کو دوسروں تک پہنچانا: امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اپنی ذات سے قرآن وحدیث پر عمل کرکے اس بات کی کوشش وفکر کی جائے کہ ہمارے بچے، خاندان والے، محلہ والے، شہر والے بلکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اللہ کو معبود حقیقی مان کر قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بن جائے۔ 
 اگر ہم حقیقی معنوں میں دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن وحدیث کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا، ہمیں قرآن کریم سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا، جو تلاوت، حفظ، تدبر اور عمل بالقرآن سے ہی ممکن ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس

دنیا ایک متبحر اور رجال ساز عالم سے محروم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے