قرآن کا ایک قصہ جس سے مسلمانوں نے سبق نہیں لیا!

  ابونصر فاروق

   اور اے موسیٰ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟  (۷۱)موسیٰ نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں۔اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتاہوں۔اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں۔(۸۱) فرمایا پھینک دے اس کو موسیٰ! (۹۱)اُس نے پھینک دیا اوریکایک وہ (لاٹھی)ایک سانپ تھی، جو دوڑ رہا تھا۔ (۰۲)فرمایا پکڑ لے اس کو اور ڈر نہیں۔ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔(۱۲)اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا۔چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔یہ دوسری نشانی ہے۔(۲۲)اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے ولے ہیں۔(۳۲)اب تو فرعون کے پاس جا،وہ سرکش ہو گیا ہے۔(۴۲) موسیٰ نے عرض کیا پروردگار میرا سینہ کھول  دے،(۵۲) اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر دے(۶۲)اورمیری زبان کی گرہ سلجھا دے (۷۲)تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ؎(۸۲)اور میرے لئے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے(۹۲)ہارون میرا بھائی(۰۳)اُس کے ذریعے سے میرا ہاتھ مضبوط کر(۱۳)اور اُس کومیرے کام میں شریک کر دے(۲۳)تاکہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں (۳۳)اورخوب تیرا چرچا کریں (۴۳)تو ہمیشہ ہمارے حال پر نگراں رہا ہے۔(طٰ ہٰ:۷۱/۵۳) 
    موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی بنائے گئے تھے۔بنی اسرائیل کا مطلب ہے اسرائیل کی اولاد(نسل)۔ ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام کا ایک نام اسرائیل بھی تھا۔اسی وجہ سے اُن کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔بنی اسرائیل کی قوم میں لاکھوں پیغمبرآئے۔اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو دنیا کی ساری قوموں پر افضل ہونے کا اعزاز دیا، لیکن اس قوم کی سرکشی، نافرمانی اور نبیوں سے بغاوت کے بدلے میں اس کو حد سے زیادہ ذلیل ورسوا بھی کر دیا۔مصر میں جہاں یہ قوم آباد تھی، وہاں ایک قبطی قوم بھی رہتی تھی جس کا ایک فرد فرعون وہاں کا حاکم تھا۔وہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے بیٹوں کو قتل کرا دیتا تھا اور اس کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔بنی اسرائیل کی حیثیت اُس وقت مصر میں ویسی ہی تھی جیسی اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی ہے۔
    موسیٰ علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو وہ بھی قتل کر دیے جاتے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا کرشمہ دکھایا کہ وہ قتل ہونے سے بچ گئے اور اپنی قوم کے دشمن فرعون کے گھر میں اُن کی پرورش ہوئی۔جب وہ جوان ہوئے تو قبطی قوم کے ایک فرد کا اُن کے ہاتھوں قتل ہو گیا اوروہ مصر سے بھاگ کر کنعاں چلے گئے جو مصر کی سلطنت سے باہر تھا۔وہاں شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے اُن کی شای ہوئی۔وہ اپنی بیوی کو لے کر سردی کی راتوں میں واپس مصر جا رہے تھے۔کوہ طور کے پاس انہوں نے پہاڑ پر روشنی دیکھی۔ سمجھے کہ وہاں آگ جل رہی ہے۔گھر والوں کے لئے آگ لانے کے لئے وہاں گئے تاکہ یہ آگ تاپ کر سرد رات میں کچھ گرمی حاصل کر سکیں۔جب وہاں پہنچے تو وہاں جو واقعہ ہوا وہی سورہ ئ طٰہٰ کی آیت ۷۱ سے ۵۳ تک میں لکھا ہے جو اوپر نقل کیا گیا۔ان آیات سے ہمیں درج ذیل سبق ملتا ہے:
(۱)    انسان کو دنیا میں کوئی بڑا رتبہ اورعزت ووقار اُس کی اپنی کوشش سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے ملتا ہے۔جو فرد دنیا میں فضیلت چاہتا ہے اُسے اپنی صحیح اور اچھی کوشش کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اُس کا فضل مانگنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ اپنا فضل اپنے فرماں بردار بندوں کو عطا کرتا ہے، شیطان کے پیچھے چلنے والوں کو نہیں۔
(۲)    جس کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازنے کا ارادہ کرتا ہے تو پیدائش کے وقت سے ہی اُس کی حفاظت اوراُس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتا ہے۔موسیٰ علیہ السلام کو مجبور و بے بس طبقے میں پیدا کیا اور اُن کی پرورش کا انتظام دشمن کے گھر میں کیا۔ یہ اللہ کی قدرت کا انتہائی کمال ہے۔انسان کو اپنی حفاظت کے لئے ہتھیار،طاقتور لوگوں سے دوستی اور لوہے کے گھر کی نہیں اللہ پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش اس وقت کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آئے ؟
(۳)    موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں میں ایک لاٹھی تھی، جس کی حیثیت بہت معمولی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اُس لاٹھی کو انتہائی خطرناک اژدہا بنا دیا۔اسباب کو لاٹھی سے اژدہا بنانے کی طاقت اللہ کے پاس ہے انسان کے پاس نہیں۔وہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں اس کی پہچا ن کے لئے ایک اور معجزہ اُنہیں عطا کیا کہ جب وہ اپنی بغل سے ہاتھ نکالتے تھے تو اُس میں ٹارچ کی طرح روشنی پیدا ہو جاتی تھی۔اُس دور میں یہ ایک انہونی تھی۔یہ دونوں چیزیں موسیٰ علیہ السلام کو معجزہ کے طور پر ملیں۔ ہر نبی کو اللہ نے کوئی نہ کوئی معجزہ دیا ہے۔
(۴)    وقت کے فرعون سے ٹکرانے کا حکم دیا گیا جو ایک ناممکن سی بات تھی۔لیکن اللہ کو دنیا والوں کو یہ بات بتانی تھی کہ انسان چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ بن جائے،اللہ کے مقابلے میں اُس کی حیثیت ایک چیونٹی کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس زمین پر کسی کی سلطنت طاقت کے بل بوتے پر نہیں قائم ہوتی ہے بلکہ اللہ کی اجازت اور فیصلے کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ کوئی بھی معمولی سے معمولی آدمی اللہ کے سہارے وقت کے بڑے بڑے سورما کو دھول چٹا سکتا ہے۔
(۵)    اُن کو اس کام کی ہمت نہیں ہو رہی تھی، اُنہوں نے شرح صدر کی دعا کی۔کرشمہ، منطق اور دلیل سے دماغ  تو متاثر ہو کر سر جھکا دیتا ہے، لیکن دل مطمئن نہیں ہوتا ہے۔دل کا اطمینان انسان کو وہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ فرعون جیسے انسان سے بھی ٹکرانے کی ہمت کر بی ٹھتا ہے۔ابراہیم علیہ السلام نے بھی نبی بننے کے بعد شرح صدر کی دعا کی تھی۔ نبی ﷺ بھی ہمیشہ شرح صد ر کی دعا مانگا کرتے تھے۔یہ نعمت اللہ دیتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا۔آج کے مسلمانوں کو اللہ سے کچھ مانگنے کی توفیق ہی نہیں ملی ہے۔
(۶)    کوئی کام تنہا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ایک قابل اعتماد معاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسیٰ علیہ اسلام نے اس کی بھی دعا کی۔ساتھ ہی موسیٰ علیہ السلام نے یہ بھی کہا ”تاکہ ہم تیری تسبیح کرسکیں اور تیرا ذکر کرتے رہیں۔یہاں تسبیح سے مراد صرف زبان سے کلمہ کہنا نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں جان لڑانامراد ہے۔ اسی طرح اس مشن کے دوران خدافراموشی کا رویہ نہیں اپنانا ہے بلکہ ہر قدم پر اُس معبود کو یاد کرتے رہنا ہے جس نے یہ عظیم الشان ذمہ داری عطا کی ہے۔مغرور اور خود پسند لوگ تنہا رہتے ہیں۔اُن کی حماقت اور ناسمجھی کے باعث کوئی اچھا اور لائق و فائق آدمی اُن کا دوست، ساتھی اور معاون بن ہی نہیں پاتاہے۔ کاش اس وقت کے قائدین ملت اپنے ساتھ خوشامدیوں اور چاپلوسوں کو رکھنے کی جگی موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا سے سبق لیں۔خدا فراموشی کا جو رویہ انہوں نے اپنا رکھا ہے اُس سے نجات پانے کی کوشش کریں۔
ض        ان آیات میں تو اتنی ہی بات کہی گئی ہے، لیکن قرآن کے مطالعے سے موسیٰ علیہ السلام کی پوری داستان سامنے آتی ہے کہ کس طرح انہوں نے فرعون کے دربار میں پہنچ کر اُس کو اللہ کی بندگی کی دعوت دی،پھر جادو گروں سے اُن کا مقابلہ ہوا اور نبی کا معجزہ دیکھ کر سارے جادوگر ایمان لے آئے، مگر فرعون نے نہیں مانا اور خود کو سب سے بڑا رب بتایا۔اپنی نافرمانی کے سبب وہ عذاب میں مبتلا ہوا تب موسیٰ علیہ السلام سے بولا اپنے خدا سے دعا کرو ہمیں اس عذاب سے نجات مل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔مگر عذاب سے نجات پانے کے بعد اپنی بات سے پلٹ گیا۔ بار بار عذاب آتا رہا اور وہ یہ وعدہ خلافی کرتا رہا۔آخر اللہ کا حکم آیا کہ موسیٰ اپنی قوم کو لے کر تم مصر سے نکل جاؤ۔ وہ رات میں چلے۔ راستے میں سمندر ملا۔ اللہ نے حکم دیا سمندر پر اپنا عصیٰ مارو اور ایسا کرنے سے پانی ہٹ گیا اور بیچ میں راستہ بن گیا۔فرعون کو جب اس کی خبر ملی تو اُس نے اُن لوگوں کا پیچھا کیا۔وہ سمندر کے پاس اُس وقت پہنچا جب یہ لوگ سمندر کے بیچ میں پہنچ چکے تھے۔فرعون بھی سمندر میں گھس گیا۔جب وہ بیچ میں پہنچا تو موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچ کر سمندر سے نکل چکے تھے اور فرعون بیچ میں تھا۔ اللہ نے حکم دیا اور سمندر کا پانی مل گیا نتیجہ یہ ہوا کہ فرعون اور اُس کا سارا لشکر سمندر میں ڈوب گیا۔فرعون کی لاش آج تک عجائب گھر میں محفوظ ہے اور دنیا والوں کو عبرت کی داستان سنا رہی ہے کہ زمین پر جو لوگ اللہ سے غافل ہو کر اللہ کی عظمت کے خلاف غروور اور گھمنڈ میں آکراپنی بڑائی چاہتے ہیں اُن کا یہی انجام ہوتا ہے۔
ض        ان آیات کو پڑھنے سے کیا یہ سبق نہیں ملتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنی احمقانہ حرکتوں سے پیچھا چھڑاکر قرآن میں نبیوں کی کامیابی کی جو راہ اور خاص کر آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی جو داستان سنائی گئی ہے اُس سے سبق لیں اوراُن کے بتائے ہوئے راستے اور طریقے کے مطابق ملک و ملت کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں ؟
(۱)    اس کام کے لئے سب سے پہلے قرآن کے مطابق آپس میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا جو صرف دین کی بنیاد پر ہونا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے ملت کا اتحاد مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ آپس میں اتحاد پیدا کر کے ایٹم بم جیسی طاقت بننا پڑے گا جس کے نام سے ہی دہشت پھیل جاتی ہے۔لیکن ان قائدین ملت کو اپنے حلوے مانڈے سے فرصت کہاں ہے کہ اتنا بڑا کام یہ کر سکیں گے۔ابھی تو ہر مذہبی فرقہ دوسرے فرقے کو کافر، مشرک، منافق اور بدعتی بنانے کے جہاد میں لگا ہوا ہے۔تفرقہ پھیلانا ہی ان کا مقصد حیات بن چکا ہے۔خانقاہیں جن کے نام کا کلمہ پڑھتے لوگ نہیں تھکتے ہیں اور جن بزرگا ن دین کے نام پر اب تجارت کی جارہی ہے اور خیر خواہی اور انسانیت کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں، خود وہی خانقاہیں اب سجادہ نشینوں کی جاگیریں بن چکی ہیں۔کسی بھی دوخانقاہ میں اتفاق و اتحاد دتو دور کی بات ہے، رابطہ تک نہیں پایا جاتا ہے۔ایک ہی مقام پر ایک ہی نام سے دو خانقاہیں موجود ہیں۔جس بزرگ کے نام پر یہ دونوں خانقاہیں چل رہی ہیں کیا اُنہوں نے یہی تعلیم دی تھی ؟
(۲)    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کی فراست(سمجھداری) سے ڈرو۔یعنی کوئی کافرو مشرک،فاسق و منافق مومن کو نہ بے وقوف بنا سکتا ہے اور نہ ٹھگ سکتا ہے۔لیکن اس وقت کے مسلمانوں سے کوئی ڈرے گا کیا۔اسلام اور مسلم دشمنوں کی ہیبت سے اُن میں لرزش اورکپکپی پیدا ہو رہی ہے۔اور ایسا صرف احمقانہ ناسمجھی کی بدولت ہے۔
(۳)    فراست مومن کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ مومن کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اس کے انجام کو سوچتا ہے اور ہر پہلو سے سوچتا ہے کہ کہیں دھوکہ اورنقصان تو نہیں ہوگا ؟ لیکن اس وقت جتنے بھی کام ہو رہے ہیں اُن سے ملت کے اچھے لوگ نہ تو مطمئن ہیں اور نہ ہی ملت کے مسائل حل ہو رہے ہیں۔
(۴)    اسلام دشمن ہر تھوڑے د ن پر کوئی نہ کوئی شوشا چھوڑتے ہیں۔ناعاقبت اندیش مسلمان اُس کا توڑ اور کاٹ تو کر نہیں سکتے۔اس مسئلے پر واویلا شروع کر کے دشمن کا کام آسان کر دیتے ہیں۔اپنی نادانی سے پورے ملک میں دشمن کی بات کو پھیلا کر اُس کا مقصد پورا کر دیتے ہیں۔دشمن تو چاہتا ہی ہے کہ اُس کی بات پورے ملک میں پھیل جائے اور اس کی بنیاد پراپنی قوم کو گمراہ کیا جائے کہ دیکھو میاں جی معمولی معمولی بات پر ہنگامہ کر کے اپنی ملک و قوم دشمنی کاثبوت دے رہے ہیں۔کسی ادارے یا شعبہ کا قاعدہ قانون ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہر جگہ یہ دہشت گردی کرتے ہیں۔
(۵)    ہر مسئلہ کسی نہ کسی مقامی حادثے سے شروع ہوتا ہے۔حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ اُس کو مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جائے اور پروپیگنڈا کرنے سے بچا جائے تا کہ دشمن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا۔نہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بچایا جاسکا، نہ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی شرعی آزادی بچائی جاسکی، نہ مرد کو طلاق کا جائز اورشرعی استعمال کرنے کی جو آزادی تھی اُس کی حفاظت کی جا سکی۔نبی ﷺ نے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی اور نکاح میں سن بلوغ کو بنیاد بنانے کی تاکید کی تھی،اب مسلمان اپنے نبی کی اس وصیت پر عمل کرنے سے بھی محروم ہو گئے۔شادی کے لئے بیس سال تک انتظار کرنا ہوگا۔فرقہ پرستی کی بنیاد پر جب اللہ کے گھریعنی مسجدوں کا بٹوارا کر لیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے عذا ب ناز ل کیا کہ تم مسجد میں نماز تو پڑھو گے لیکن اللہ کے ڈر کے ساتھ نہیں بلکہ باطل حکومت کے خوف کے سائے میں۔ کیا ایسی نمازیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا ؟
    محاورے کی زبان میں کہا جاتا ہے ”اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی“۔اس دور کے مسلمان چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی، سماجی ہوں یا ذات برادری کے قائدین، سب کے سب اپنی روٹی سینکنے میں لگے ہوئے ہیں۔کسی نے آج تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ملت کا فائدہ ہوا ہو یا ملی مسائل حل ہوئے ہوں۔ان لوگوں کا کام صرف  جلسے کرنا، ڈائس پر آ کر دھواں دھار بے مقصد تقریریں کرنا اور پیچھے ہاتھ کی طرف سے سیاسی لوگو ں سے ہاتھ ملانا ہے۔صارمؔ ان حالات پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
نام پر مذہب کے کچھ رسموں رواجوں کا چلن
اہل ایماں ہو کے بھی یہ اہل باطل ہو گئے
اور پھر اللہ بھی ان سب سے غافل ہو گیا
زندگی میں یہ مثال مرغ بسمل ہو گئے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے