تحریر:ام ھشام،ممبئی
ایک مسلمان خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مبارک کتاب قرآن مجید کے حوالے سے اس کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کتاب سے جڑ جائے اور اسے یاد کرنے اور سمجھنے والی ہو اور وہ اسے اپنے لئے بہت بڑا اعزاز تصور کرتا ہے۔
وہ جس قسم کی بھی پر مشقت زندگی گزار رہا ہو،اس سے کئی گنابہتر اور شاندار زندگی کا تصور اپنی اولاد کے لئے سجاتا ہے۔اسے اپنی ہر محرومی پر صبر آجاتا ہے،کیونکہ اسے اپنی بے مائیگی،بے سرو سامانی کی حقیقت سے زیادہ کتاب اللہ کے معجزات پر یقین ہوتا ہے۔
یہ یقین اس کے اوپر اوپر نہیں بہہ رہا ہوتا ہے بلکہ اس کی ذات میں اپنی جڑوں سمیت پیوست ہوتا ہے یہ قول ”علم ولدک القرآن سیعلمہ القرآن کل شیئ“(اپنی اولاد کو قرآن سیکھادو،قرآن اسے بقیہ علوم سکھا دے گا) اس کے لئے راہ کاسنگ میل ثابت ہوگا۔
وہ جانتا ہے کہ یہ واحد علم ان کے بچوں پر علوم و فنون کے اور بھی بہت سے دروازے کھول دے گا۔
اور دنیا و آخرت کی زندگی میں فلاح کی راہ کو تلاش کرنے والے کے پاس یہی وہ علم ہے جو اسے فائزالمرامی تک پہنچائے گا۔
قرآن کریم دنیا کی Best Sellerکتابوں میں سے ہے،دنیا کے ہر خطہ میں جہاں کہیں بھی مسلمان اپنی اقلیت و اکثریت کے ساتھ موجود ہیں،یہ کتاب وہاں نہ صرف پڑھی پڑھائی جاتی ہے بلکہ یاد بھی کی جاتی ہے۔دنیا بھر میں 13ملین مسلمان یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ کم و بیش حافظ قرآن ہیں،اور اس مقدس کتاب کو اپنے سینوں میں اٹھائے ہوئے ہیں۔اللہ کا یہ کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا کئے گئے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے۔اس کتاب کروڑوں سینوں میں محفوظ ہونا ہی اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے،اور کتاب الٰہی کے منزل من اللہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
اتنے فیوض و برکات کے باوجود ساتھ ہی ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم الشان کتاب کو کما حقہ اٹھایا نہیں گیا۔اہل قرآن نے کماحقہ اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا۔
جس کی وجہ سے آج قرآن کریم سیکھنے سکھانے جیسا بابرکت عمل اپنی اصل خوبصورتی اور برکات سے محروم ہوگیا ہے۔
اسی ضمن میں ایک اہم مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آخر بچے قرآن سیکھنے میں تردد کیوں کرتے ہیں،اور اسے سیکھنے یا یاد کرنے کے بعد اس کے اثرات اس کی زندگی پر دکھائی کیوں نہیں پڑتے؟
والدین،سرپرست یا اساتذہ کی طرف سء بار بار ایسی شکایتیں اور مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم آئندہ سطور میں ان اسباب و عوامل پر غور کریں گے۔
(۱) والدین کی اپنی منصوبہ بندی: والدین اگر اپنے بچے کو قرآنی تعلیمات سے آراستہ کرنا چاہتے ہوں تو اس بات کی تیاری زوجین کو اسی وقت سے شروع کردینی چاہئے جب وہ ایک دوسرے کا انتخاب کر رہے ہوں۔
جی ہاں!! کیونکہ اگر شریک سفر نیک ہوگا / ہوگی تو یقینی طور پر وہ خود بحیثیت مومن اللہ اور اس کی کتاب مقدس سے جڑا ہوا ہوگا / جڑی ہوئی ہوگی۔اس کی زندگی کا نصب العین ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہوگا۔اور نیک والدین یقیناًاپنی اولاد کا تعلق بھی اللہ اور اس کی کتاب حکیم سے ضرور جوڑیں گے۔
پھر اولاد آجانے کے بعد اس کی پرورش کے آغاز ہی میں والدین اپنے عزم و ارادہ کو اس بات پر پختہ کرلیں کہ انہیں ہر صورت اپنی اولاد کو قرآن مجید کے لئے وقف کرنا ہے،جس کی تکمیل کی خاطر وہ اپنا وقت مال اور توجہ سب کچھ وقف کرنے کو پوری طرح سے تیار ہیں قرآن مجید کا حفظ کرنا یا اس کی تفسیر کا سیکھنا،یہ ایک لمبا اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے،جس کے لئے عزم محکم،مضبوط قوت ارادی،صبر و برداشت،حکمت و تحمل اور جہد مسلسل کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔لہٰذا یہ امر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ خواہشمند والدین اپنے ارادہ میں استقلال رکھنے والے ہوں اور عجلت پسند اور جذباتی نہ ہوں۔
والدین کی منصوبہ سازی میں کرنے کا دوسرا کام یہ ہیکہ ان کے سامنے ان کا مقصد صاف ہو یوں نہ ہو کہ بچے کے بڑے ہونے تک والدین اس کی کیریئر منصوبہ بندی کو ہر دو مہینے پر بناتے رہیں۔
والدین کے پاس ان کا اپنا ایک مضبوط و مطلوب اور مثالی ویژن ہو کہ وہ کیوں اپنے بچے کو قرآن سے جوڑنا چاہتے ہیں؟اسے حافظ قرآن یا عالم دین کیوں بنانا چاہتے ہیں؟اور جب یہ جواب آئے تو یہ جواب روایتی نہ ہو مثلاً والدین کہیں کہ!!!ہم مسلمان ہیں اور ہر مسلمان کو قرآن پڑھنا چاہئے،اس لئے ہم بھی قرآن پڑھانا چاہتے ہیں۔
یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ کسی کو دیکھ کر اپنے بچے کو عالم یا حافظ بنانا خاندانی روایت کی وجہ سے یا پھر اولاد کی چاہت میں نذر ومنت کے طور پر بچے کو اللہ کی راہ قرآن سیکھنے کے لئے وقف کرنا،اپنے تعارف کو مزید وسعت دینے کی خاطر بچے کا استعمال کرنا تاکہ لوگ آپ کو حافظ قرآن کے والدین سمجھیں، یا پھرایسی کسی شرمناک وجہ کے ساتھ بچہ کو قرآن سے جوڑنا مثلاً ”یہ کانوینٹ یا انگلش میڈیم میں نہیں چلا،اس لئے حافظ جی کے پاس بٹھانا چاہتے ہیں“۔
ایسی ساری نیتوں کا شمار مخلصانہ عزم و ارادہ میں نہیں ہوتا،لہٰذا اس کے اثرات بھی دیرپا اور نتائج بخش ثابت نہیں ہوسکتے۔والدین خود کو جانچیں گر اوپر دی گئی وجوہات میں سے آپ کے پاس ایک بھی وجہ ہے تو یہ آپ کے مقاصد کی بنیادی اور سب سے بڑی غلطی ہوگی،جیسے تیسے گر بچے نے قرآن مکمل کر بھی لیا تو بھی یہ ایسے ارادے سے ایک سچا جانشین قرآن کبھی تیار نہیں کیا جا سکتا،والدین کے پاس ایسے کمزور اور سطحی ارادوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا عزائم موجود ہونے چاہئے۔مثلاً یہ کہ والدین کہیں کہ ”ہم اپنے بچے کو قرآن مقدس سے اس طور جوڑنا چاہتے ہیں کہ بچہ کا قرآن مقدس سے لفظی،معنوی اور روحانی رشتہ قائم ہوسکے۔اس کتاب کے معجزاتی اثرات نہ صرف بچے کے ظاہر کو متاثر کریں بلکہ قرآن کریم کی تاثیر اس پر اور اس کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کرنے والی ہو۔
(۲) اللہ کی معرفت: جس کام پر ہم اپنا وقت،پیسہ اور طاقت صرف کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے اس کام کو کرنے کے لئے ہمارے پاس بہت ٹھوس وجہ اور ویژن ہونا چاہئے۔
قرآن کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس کتاب کو سیکھنے کے لئے وہ بڑی وجہ ہمارے پاس ضرور ہونی چاہئے،جو ہمیں اس کام کی رغبت دلا تی ہو۔لہٰذا والدین پر ضروری ہے کہ اس عظیم مشن میں بچے کو صرف یہ کہہ کر قرآن مجید نہیں تھما دینا ہے کہ اسے پڑھو اور پڑھتے جاؤ،کیونکہ اس کے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے۔ نیکیاں ملتی ہیں، بلکہ یہاں پہلا اسٹیپ یہ ہوگا کہ بچے کے دل و دماغ میں جس ہستی نے اس کتاب کو نازل کیا اور بنایا ہے یعنی اللہ رب العزت کی معرفت،اس کی موجودگی اور قدرتوں کا یقین پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔جس کی خاطر اسے توحید کا مفہوم بہت ہی آسان لفظوں میں لیکن پورے وثوق کے ساتھ سمجھایا جائے،پھر اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تعارف بھی دیا جائے،نفسیاتی طور پر بچے کو اندرسے مضبوط کیا جائے۔بچے کو ہمہ وقت یہ احساس ہو کہ اس کے والدین اور اساتذہ کی غیر موجودگی میں بھی کوئی ذات ہے جو مسلسل اس کے ساتھ ہے،جو ان لوگوں سے کہیں زیادہ بڑی،طاقتور،باخبر اور بے انتہاء محبت کرنے والی ہے۔
اوریہ ذہن سازی ان شاء اللہ بہت ہی مفید ثابت ہوگی۔ایک طرح سے یہ بچے کے دل و دماغ پر اللہ کی محبت اور اس کی سلطنت قائم کرنے جیسا ہے گر ایک بار بچہ اللہ کی معرفت سے سرفراز ہو جاتا ہے تو پھر ان شاء اللہ اس کے لئے اللہ کے کلام کو سیکھنا،سکھانا اور اس پر عمل کرنا بھی بہت آسان ہو جائیگا۔قرآن سیکھنے کے لئے ان شاء اللہ اس کے پاس سب سے بڑی وجہ اللہ کی محبت ہوگی جس کے حصول کی خاطر وہ بلا رکے،بلا تھکے اس راہ میں اپنی منزل کو بڑھتا چلا جائیگا۔
یہ حدیث ہمارے لئے زبر دست گائیڈ لائن فراہم کرتی ہے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے دس سالہ عبد اللہ سے فرمایا کہ اے عبد اللہ
(یا غلام انی اعلمک کلمات: احفظ اللہ یحفظک،احفظ اللہ تجدہ تجاھک،اذا سألت فاسأل اللہ،و اذا استعنت فاستعن باللہ،واعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیئ، لم ینفعوک الا بشیئ قد کتبہ اللہ لک، و ان اجتمعواعلیٰ ان یضروک بشیئ، لم یضروک الا بشی ئ قد کتبہ اللہ علیک،رفعت الاقلام و جفت الصحف ( رواہ الترمذی، و قال: حدیث حسن صحیح)
ترجمہ: ابو العباس عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے،فرماتے ہیں:میں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! میں تجھے چند باتوں کی تعلیم دیتا ہوں:تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا۔تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر،ہمیشہ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔جب بھی کچھ مانگنا ہو،اللہ تعالیٰ سے مانگ،اور جب بھی مدد طلب کرنی ہو، اللہ تعالیٰ سے طلب کر۔اچھی طرح جان لے اگر ساری امت جمع ہوکر تجھے کوئی فائدہ پہونچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکتا۔اور اگر ساری امت اکٹھی ہو کر تیرا کوئی نقصان کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے نوشتہ ئتقدیر کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی۔قلم اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچوں کو امور عقیدہ کی تعلیم دینی چاہئے۔بلکہ کہ عقیدہ کی جو اہمیت کتاب و سنت سے اجاگر ہوتی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تعلیم دین میں اسی سے آغاز کیا جائے۔چونکہ ابتدائی تعلیم بچے کے دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ یاد بھی رہتی ہیں،لہٰذا صغر سنی ہی سے عقیدہ کی تعلیم دینا انتہائی نافع ثابت ہوگی۔
یہ حدیث نصیحت کے ایک خیر خواہانہ اور ناصحانہ اسلوب کا شاہکار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً نصیحت شروع کرنے کے بجائے پہلے (یا غلام انی اعلمک کلمات)کہہ کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول فرمائی،پھر نصیحت شروع فرمائی۔
ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بچوں کی ذہن سازی پہلے کی جائے،پھر انہیں کچھ سیکھنے پر آمادہ کیا جائے۔
(۳) قرآن کی معرفت:بچے کو قرآن کریم کی عظمت سے واقفیت دلائی جائی، جس کے لئے بچے کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے اسے نکیوں،اجر و ثواب سے متعارف کروایا جائے۔اس کے معصوم دل و دماغ کو بھاری بھرکم جملوں کے بجائے آسان فہم زبان میں بات کی جائے۔ایسی مثالوں کا انتخاب کیا جائے جس سے بچے اجر وثواب کے کانسیٹ کو سمجھ پائیں۔
قرآن کریم پڑھنے پر آمادہ کرنے کے لئے جبر کی بجائے محبت اور شوق دلانے سے کام لینا چاہئے۔
امام ابن عثمین ؒ کہتے ہیں:ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو احکام سکھاتے ہوئے ساتھ ان کے دلائل بھی بتائے جائیں۔آپ ایسا کریں گے تو اس کے دو فائدے ہوں گے۔
پہلا: بچے کو دلائل کے ساتھ بات کرنے اور ماننے کی عادت پڑ جائے گی۔
دوسرا: اسے اللہ کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت ہوگی۔
کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی قابل اتباع امام ہیں۔کہ جن کی ہر کام میں پیروی کرنی ضروری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس بات سے غافل ہے،لوگ اپنے بچوں کی احکام کی تعلیم دیتے ہیں،لیکن اس تعلیم کو دلائل کے مصدر سے مربوط نہیں کرتے جو کہ کتاب و سنت ہے۔ القول الفید علیٰ کتاب التوحید 2/243
بچے کو قرآنی فضائل اور اس کی برکات سمجھانی چاہئے،جس کے لئے صرف زبانی کام نہیں ہو بلکہ ان چیزوں کا ادراک کرایا جائے جسے رب اعلیٰ نے ہم پر بطور احسان عطا کیا ہے۔
بچہ جب بھی سوال کرے کہ ہم اس کتاب کو کیوں پڑھتے ہیں اور اسے پڑھنے سے کیا ہوگا…….؟
آپ اسے بتلائیں کہ اس کے ہر حرف کے پڑھنے پر ایک نیکی ملتی ہے تو سوچو!!!!! جس نے مکمل قرآن اپنے سینے میں محفوظ کرلیا وہ انسان کتنا با سعادت ہوگا۔اللہ عزو جل کے یہاں اس کا درجہ کس قدر بلند ہوگا۔
اسی طرح نیک کام کرنے پر اجر و ثواب پانے والی بات کو سمجھانے کے لئے پریکٹکلی یہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے سے اس کی ذاتی کوئی بھی معمولی چیز کچھ سکنڈ کوعاریتاً مانگیں،اور جب بچہ اپنی چیز آپ کے حوالے کردے تب اس کے بدلے اسے چاکلیٹ/بسکٹ یا کھلونے دیں،پھر ساتھ ہی سمجھائیں کہ جس طرح تمہاری ایک معمولی چیز کے بدلے میں تمہیں یہ دس چاکلیٹ ملی ہیں،اجر و ثواب کامعاملہ بھی اللہ کے پاس ایسا ہی ہے۔قرآن پڑھنے کے عوض صرف ایک حرف کے بدلے وہ اپنی دس دس نیکیاں تمہارے نام لکھتا ہے۔
بچے یونہی خالی خولی اجر وثواب،خیر و برکت کو نہیں سمجھ سکتے بحیثیت ذمہ دار والدین اور اساتذہ ہمیں انہیں سمجھانے کے لئے مختلف طریقوں
کا استعمال کرنا چاہئے،اسی ضمن میں انہیں اجر و ثواب کی کیفیت اور اس کی صورت سمجھانے کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ بیٹا!!!! تمہارے والدین،تمہارا گھر،کھلونے،کپڑے سب اللہ کی طرف سے ہے۔اور تمہارے لئے یہی اجر و ثواب ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ گاہے بگاہے خوش ہوکر تم کو اپنی نعمتیں دیتا رہتا ہے اور مزید بھی دے گا۔
بچوں کی طبیعت فطرتاً متجسس،متحرک اور دفاعی ہوتی ہے۔اس فطرت کے تحت بھی بچوں کو قرآن کریم کی تاثیر سمجھائی اور محسوس بھی کرائی جا سکتی ہے۔چونکہ بچے غیر مرئی مخلوق جن و شیاطین کی باتوں میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں،ان کی باتوں اور قصے،کہانیوں کو بچے بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔تخیلاتی طور پر ان سے لڑنا،انہیں شکست دینا بچوں کے لئے بہت دلچسپ کھیل ہوتا ہے۔جس کی خاطر وہ اکثر الٹے سیدھے منتر پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،اور یہ کلمات مہمل ہونے کے ساتھ بسا اوقات شرکیہ بھی ہوتے ہیں۔
کیا ہی خو ب ہو کہ بچوں کو آیت الکرسی کے فضائل سمجھائے جائیں کہ اس سورۃ کو پڑھنے کا فائدہ ا نکی دلچسپیوں سے خاصامتعلق ہے۔بچے بڑے ہی خوش ہو کر اس سورۃ کا اہتمام کرتے ہیں،جب انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سورت جن و شیاطین کو بھگانے والی ہے،اور آگ،چوری اور ڈکیتی سے محفوظ کرنے والی ہے۔
اسی طرح سورۃ کہف کی ابتدائی دس آیات کو یاد کرنے کی فضیلت بتلانا (فتنہ ئ دجال سے حفاظت)اور بچوں کو اس کے حفظ پر ابھارنے کی ایک عمدہ کوشش ثابت ہوسکتی ہے۔بچوں کے لئے دجال بھی ایک سسپنس ہے۔وہ بہت پر جوش ہوکر اس کے متعلق احادیث سنتے ہیں۔
معوذتین کی اہمیت بتلاتے ہوئے بچوں کو قرآنی آیات کی طاقت کا احساس دلانا چاہئے کہ یہ چھوٹی سی سورتیں اپنے اندر کیسی ناقابل تسخیر قوت رکھنے والی ہیں،آپ نہ صرف اسے یاد کریں بلکہ صبح و شام اسے اپنے آپ پردم کرکے اپنی حفاظت کا اہتمام خود کریں۔
خلاصہ کلام یہ کہ بچوں کو محض زبانی چیخ و پکار،جبر و تشدد سے قرآن کریم کے سیکھنے کی طرف رغبت نہیں دلائی جا سکتی،یہ طریقہ کار ہر گز بھی مفید اور مؤثر نہیں ہو سکتا۔
قرآن کریم سے بچے کا مضبوط تعلق بنانے کی خاطر اسے قرآن سے محبت کا عادی بنانا شرط اول ہے،وہ جو بھی سیکھے کم یا زیادہ کلام اللہ کے ہر ہر لفظ سے اس کا رشتہ رسمی نہ ہو بلکہ قلبی، روحانی اور جذباتی بھی ہو۔
اسے سمجھایا جائے کہ اس کتاب کا نام قرآن کریم اس لئے ہے کہ یہ عزت و تکریم تقسیم کرنے والی کتاب ہے،جو اس کتاب کا ہوگیا یہ کتاب اس کے لئے کافی ہوگی،جیسے (ان اللہ یرفع بہٰذا الکتاب اقواماً و یضع بہ آخرین) (صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،باب فضل من یقوم بالقرآن و یعلمہ۔۔۔۔الخ‘ح:817)
اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو سر بلند ی عطا کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے قوموں کو پستی میں بھی گراتا ہے۔حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی شرح فتح الباری میں اس طرح فرماتے ہیں:(یرفع اللہ المومن العالم علی المؤمن غیر العالم)اللہ اس کتاب کے عالم مومن کو غیر عالم مومن پر فضیلت عطا کردیتا ہے۔
بچوں کو بتایا جائے کہ دنیا سبھی علوم پراس علم کو سبقت ملی ہوئی ہے۔اللہ رب العزت دنیا میں قرآن کے پڑھنے والے کو یوم جزاء کے روز بلائے گا اور کہے گا:”اے صاحب قرآن!!!!(قرآن پڑھنے اوراسے حفظ کرنے والے) سے(قیامت کے دن) کہا جائے گا پڑھتا جا اور(درجے) چڑھتا جا،اور اس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کر جیسے تو دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔پس تیرا مقام وہ ہوگاجہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی“۔(سنن ابی داؤد۔الوتر،باب کیف یستحب الترتیل فی القراٗۃ ح:1464)
بچے کو سمجھایا جائے کہ بیٹا!!!!”جس روز ساری دنیا کے انسان ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے،اللہ رب العزت ایک باعمل قرآن پڑھنے والے کو بلا کر کہے گا کہ تو جنت کی سیڑھیاں چلتا چلا جا،اور جہاں تیری تلاوت ختم ہو جائے وہی تیری منزل ہے۔ یہ یقینا بہت بڑا شرف ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی حقیقی کوشش سے اس اعزاز کے قابل بنو“۔
(۴)کثرت دعا کا اہتمام:بلا شبہ یہ ایک نہایت ہی عظیم اور بلند و بر تر کام ہے جسے انسان کا صرف اپنی کوششوں کے بل بوتے پر پایہ تکمیل تک پہچانا تقریباً ناممکن ہے۔لہٰذا اس کام کے لئے ہمہ وقت اللہ رب العزت کی مدد طلب کرنی چاہئے،عموماًہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے حوالے سے مادی ذرائع کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن جس چیز پر توجہ نہیں دیتے وہ ہے اولاد کے لئے کثرت سے دعا کرنا،یہ انبیاء کا شیوہ ہے۔دعاء ابراہیم دیکھیں:”رب اجعلنی مقیم الصلاۃ و من ذریتی ربنا وتقبل دعاء“ اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولادکو بھی، اے ہمارے رب میری دعاء قبول فرما(سورۃ ابراہیم) ”واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک و انی من المسلمین رب اجعلنی مقیم الصلاۃ و من ذریتی ربنا و تقبل دعاء“
بچوں کی فوز و فلاح کے لئے اللہ سے دست بہ دعا ہونا ضروری ہوتا ہے،ساتھ ہی ایک بات اور سمجھ لیں کہ ماں باپ اور اساتذہ کی عبادت و ریاضت بچوں کی فلاح و کامرانی میں کلیدی کردار انجام دیتی ہیں۔اس ضمن میں حضرت سعید بن المسیب ؒ کے عمل سے ہم کو رہنمائی و ہدایت حاصل ہوتی ہے،آپ اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں ”میں اپنی نماز میں تیری وجہ سے اضافہ کرتا ہوں،ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری وجہ سے تیری رعایت کردے،پھر آپ نے یہ آیت کریمہ ”وکان ابوھما صالحا“(سورۃ کہف82) تلاوت فرمائی۔علامہ حافظ ابن کثیر ؒنے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نیک آدمی کے سبب اس کی اولاد کے ساتھ رعایت کی جاتی ہے اور والدکی عبادات کی برکات اسے دنیا و آخرت دونوں میں حاصل ہوتی ہیں“۔
لہٰذا سمجھ میں یہ آیا کہ والدین کا اللہ کے اوامر کی بجا وری اور اس کی منہیات سے پر ہیز اور ہمہ وقت بچے کے علم و عمل کے لئے اللہ کے حضور سوال کرتے ہی رہنا کامیابی کی ضمانت ہے۔
(۵) سازگار گھریلو عوامل: ایک بچے کے کچھ سیکھنے سکھانے میں اس کا گھریلو ماحول سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے،اس لئے ہمیشہ کوشش ہونی چاہئے کہ گھر کا ماحول پاکیزہ،آسودہ اور اطمینان بخش ہو۔بچہ اس ماحول میں جب اپنی آنکھیں کھولے،سانس لے تو وہ خود اسلامی تعلیم وتربیت کا تیار کردہ،بولتا ہوا آئینہ ثابت ہو۔
اس لئے ضروری ہے کہ گھر میں اہل خٓنہ کا باہمی تعلق اس قدر ملاطفت آمیز ہو کہ بچے کی طبیعت پر اس کے خوشگوار اثر نظر آئیں،بچہ گھر والوں کی صحبت میں خود ہشاش و بشاش محسوس کرے،دوران تدریس اس کی تھکی ماندی طبیعت گھر والوں کی صحبت میں پھر سے تر و تازہ ہوجائے۔
قرآن کریم سیکھنے والا بچہ جب اپنے گھر میں داخل ہو تو نہ صرف اس کی عزت و تکریم کی جائے بلکہ شفقت و محبت کا اظہار بھی کیا جائے،حسب استطاعت اس کی خاطر مدارات کا انتظام بھی کیا جائے،تاکہ بچہ اہل خانہ کی نظر میں اپنے آپ کو محترم اور اہم تصور کرے،اس سے اس کا اعتماد پروان چڑھے گا۔
عموماً گھروں میں جن اخلاقی برائیوں کی کثرت دیکھی جاتی ہے ان برائیوں کے جر ثومے بچے کے اندر غیر محسوس طریقے سے داخل ہوجاتے ہیں،اور یہ اپنے اثرات چھوڑنے میں نہایت مستعد ہوتے ہیں۔ایک بار کوئی ان کے زیر اثر آگیا تو پھر بچوں پر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا،اس لئے لازم ہے کہ گھروں کو صوتی،سمعی اور بصری آلودگی سے پھیلنے والے جراثیم سے بچایا جائے۔اور غیبت،جھوٹ،چغلی،بد کلامی جیسی خطرناک اخلاقی بیماریوں سے پاک رکھا جائے،کیونکہ ان کے غیر معمولی اثراتبچوں کے اندر ہمیشہ کے لئے کنڈلی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔
گھروں کی صوتی آلودگی سے پاک ہونے سے مراد گھر کو شور شرابہ سے محفوظ رکھا جائے،خواہ وہ گھر کے کسی الیکٹرانک کا شور ہو یا افراد خانہ کا آپسی بات چیت اور لڑائی جھگڑے کا شور ہو۔یہ شور بچے کے تخیل میں ایک شدید قسم کا دخل ہوتا ہے اور تحقیق شدہ بات ہے کہ اضافی شور ذہن کو تھکادیتے ہیں۔
اسی طرح بصری آلودگی سے بھی ایک طالب قرآن کو بچایا جائے،اسکرین سے بچے کوجنتا ممکن ہو بچائیں کیونکہ ٹی وی،میڈیا ایمان و اخلاق کے علاوہ ذہن کے ان ترقی پذیر حصوں کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں،جہاں پر انسان کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے،یا کسی چیز پر اپنا ارتکاز کررہا ہوتا ہے،ٹی وی میڈیا کا اضافی اور بے جا استعمال سیدھے ذہن پر حملہ کرتا ہے جس سے قوت حافظہ و مطالعہ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔اور بچے کی قوت ارتکاز انتشار میں تبدیل ہوتے ہوتے ناکارہ ہوجاتی ہے۔
ساتھ ہی سمعی آلودگی سے بھی بچے کے دل ودماغ کوبچانے کا اہتمام کرنا چاہئے،اور ہمارے پاس سمعی آلودگی کی سب سے واضح مثال ہے ایل خانہ غیبت،چغلی جیسے رذیل افعال میں شریک ہونا۔
غرضیکہ قرآن سیکھنے والے بچے کو ہر طرح کے ڈسٹریکشنز سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ اس کے نقصانات کو ایک دوسرے زاویے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک بچہ قرآں کریم سیکھنے پر مامور کا جاتا ہے اور یہی بچہ جب اپنے گھر میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو میوزک اور فلم بینی میں غرق
پاتاہے تو بچے کاذہن ایک قسم کے تضاد کا شکار ہوجاتا ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے؟اور کیسی ذمہ داری ہے جو صرف مجھ پر عائد ہے؟کیونکہ ہمارے یہاں بچے کو بتلایا جاتا ہے ”بھئی اس خاندان کی دینی حمیت و غیرت اور اجر و ثواب کا سارا بار اب تمہارے کندھوں پر ہے میرے بچے!!!! لہٰذا تمہارے قدم لڑ کھڑانے نہ پائیں۔اب پورے خاندان کی جانب سے تمہی قرآں پڑھو،اور سب کی بخشش اللہ سے کرواو،تقویٰ شعار بنو اور سب کے فرائض و نوافل بھی تم ہی ادا کرو،اور گناہوں سے باز رہو“
اندازہ لگائیے اس بچے کی ذہنی حالے کا،بچہ یہاں گھر والوں کے رویے سے جس قسم کے تضٓد کا شکار ہوتا ہے وہاں بچہ صرف سوچتا نہیں اندر سے روتا ہے و بے چین ہو اٹھتا ہے،پھر وہ کتاب اور اس کے سیکھنے سکھانے کے عمل سے ہی متنفر ہوجاتا ہے۔لہٰذا بچے کو صرف نیک و پارسا بننے کی تاکید نہ کریں،بلکہ کرنے سے پہلے بچے کے سامنے عملی نمونہ بن کر دکھائیں۔
گھروں سے قرآں کی صدا گونجتی ہو،گھر کا ہر فرد قرآن کریم سے جڑا ہوا ہو۔قرآن سیکھنے کے لئے جس بچے کا انتخا ب کیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی اسکے دیگر بھائی بہن کو بھی قرآن سیکھنے پر اتنا ہی زور دیا جائے جتنا اس بچے پر دیا جاتا ہے۔
تاکہ بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوسکے کہ یقیناً یہ کتاب کوئی عظیم کتاب ہے،جسے سب نے اپنے لئے لازمی کیا ہوا ہے۔
(۶)نظر بنائیں رکھیں:
قرآن سیکھنے والے بچے کے ساتھ پوری مستعدی دکھائیں، بچے کے اسباق اور ان کی دہرئی پر پوری طرح نگاہ بنائی جائے،اگر کئی دنوں تک بچہ اپنے سبق میں آگے نہ بڑھ سکے تو استا دسے جاکر معاملہ کا پتہ کریں،ممکن ہے کہ کچھ مشکلات بچے کے سبق میں آڑے آرہی ہوں،یا پھر بچہ ہی اپنی تساہلی کے باعث یومیہ سبق کو سنانے سے جی چراتا ہو۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو وقت پر اس مسئلہ کا پتہ چل جائے گا اور آپ اس کا مناسب حل بھی نکال سکتے ہیں۔ورنہ عموماً تو یہی ہوتا ہے کہ دو دو سال ہوجاتے ہیں اور بچوں کا نورانی قاعدہ مکمل نہیں ہوپاتا،استاد سے مسلسل رابطہ بنائے رکھیں،اور ساتھ ہی اپنی نگاہیں بچے کی کار کردگی پر بنائے رکھیں،تاکہ واقعتاً تپہ چل سکے کہ بچے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے یا یہ سب محض کاہلی اور بے دلی کا کارنامہ ہے۔
ہمیشہ کوشش یہی ہو کہ بچے کی تعلیم کے لئے نت نئی تکنیک تلاش کی جائے،بچے کی ذہنی استعداد اور اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کے اسباق کی تقسیم کی جائے،اور جس طریقے سے بھی اسے قرآن پڑھنا،سمجھنا اوریاد کرنا آسان لگتا ہو ہر اس طریقہ سے بچے کی مدد کی جائے،ایک ہی طریقہ سب پر لاگو نہ کیا جائے۔
(۷)مسجد سے تعلق بڑھائیں:بہت سے بچے قرآن کریم پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسجد کے ماحول سے گھبراتے ہیں۔مسجد جاکر قاری صاحب سے نہیں پڑھنا چاہتے ہیں،بلکہ گھر میں پڑھنا چاہتے ہیں۔اس صورت حال میں والدین کا فرض بنتا ہے کہ بچوں کی مسجد سے دوری کی وجہ جو بھی ہو وہ اپنے طور پر بچوں کو مساجد کی فضیلت سے آگاہ کریں،انہیں حدیث سء سمجھئائیں کہ باوضو ہوکر مسجد کی طرف جانے والے ہر قدم پر ایک گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور ایک نیکی ملتی ہے (صحیح مسلم جلد اول:حدیث نمبر 1516)مسجد جانے کا شوق اس کے دل میں پیدا کرنا چاہئے،اللہ کے گھر میں جاکر قرآن سیکھنے سکھانے والوں پر اللہ کی جانب سے مقرب فرشتوں کے ذریعے رحمتوں کے نزول والی بشارت سناکر بچے کو مسجد جاکر تلاوت اور عبادت کرنے پر حاصل ہونے والے ثواب کے حصول پر ابھارنا چاہئے،تاکہ بچے کے دل میں مسجد جانے کا شغف پیدا ہو اور اللہ کے گھر سے اس کا تعلق استوار ہو۔۔۔۔۔
اسی طر ح قرآن کو حسن صوت اور تجوید وترتیل کے ساتھ پڑھنے پر ملنے والی سعادت کا حریص بنانا چاہئے۔
جس عرصے میں بچہ قرآن کریم سیکھ رہا ہو اس دوران بچے کی غیر ضروری مصروفیات ترک کروا دیں،پورا انہماک قرآن سیکھنے کی جانب ہو،اور اس کے لئے ایسا ماحول بھی بنایا جائے۔جس کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہیکہ گھر میں کثرت تلاوت کا اہتمام کیا جائے،گھر کا ماحول تلاوت کے ذریعے روحانی اور نورانی بنایا جائے،بچے کو صرف فضیلتیں نہ گنائی جائیں،بلکہ ان پر خود عمل کرکے دکھایا جائے۔
(۸)اعادہ کی پابندی: بچہ فطرتاً اورطبیعتاً بے حد متجسس ہوتا ہے،اسے ہر نئی چیز سیکھنے کا بے حد شوق ہوتا ہے۔اور وہ مسلسل،بلا رکے سیکھتا رہتا ہے،بڑوں کے مقابلے میں بے حد تیزی سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے،اور اپنے اندر اتارتا ہوا چلا جاتا ہے۔
تویہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب اتنا سارا مواد بچے کے دل و دماغ میں موجود ہو،اور ان میں سے وہ کچھ کا استعمال کرتا ہو اور کسی کا نہ کرتا ہو، تو ظاہر ہے جس چیز کا استعمال بچہ نہیں کریگا وہ مواد اس کے ذہن سے ضرور خارج ہو جائے گا۔
لہٰذا اگر قرآنی اسباق کا اعادہ کروانے پر پابندی نہیں کی گئی تو نئی چیزیں سیکھنے کا شوقین بچہ جوں جوں نئی باتیں سیکھے گا پچھلا علم اس کے ذہن سے محو ہوتا جائے گا،اور یہ ”علم قرآن“ ہو تو زیادہ فکرمندی کی بات ہے۔اس کی تائید خو د نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہے،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(تعاھدواالقرآن فو الذین نفسی بیدہ لھو اشدتفصیا من الابل فی عقلھا(متفق علیہ)قرآن کی خبر گیری کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اونٹ اپنی رسی سے باندھا گیا ہے،اگر اس کی خبر گیری رکھتا ہے تو وہ بندھا رہتا ہے اگر اس کو چھوڑ دیتا ہے تو جاتا رہتا ہے۔
اونٹ میں یہ صفت ہے کہ جب یہ چلتا ہے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا بنسبت دوسرے جانوروں کے جب وہ چلتے ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔
اسی طرح بچہ اگر مسلسل قرآن کی تلاوت کرتا رہے تو قرآن اس کے سینہ میں محفوظ رہے گا ورنہ اونٹ کی طرح چلا جائے گا اور اس کے سینے سے محو ہو جائے گا۔
لہٰذا یہ سر پرستوں پر ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے اعادہ کا نظم و ضبط پابندی کے ساتھ قائم رکھیں۔
قرآن مجید کی پابندی سے تلاوت نہ کی جائے اور قرآن مجید کو چھوڑ دیا جائے تو انسان اسے بھول جاتا ہے،اگر چہ ہر کسی کے چھوڑدینے کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے،جیسے کہ ابن القیم رحمۃ اللہ ”الفوائد“(صفحہ 82)میں کہتے ہیں:”قرآن مجید انسان اسی وقت بھولتا ہے جب قرآن کریم سے رو گردانی کرتے ہوئے اور چیز میں مشغول ہوجائے،یقینایہ ایک بڑی مصیبت ہے، اور اس کی وجہ سے مزید مصیبتیں کھڑی ہو سکتی ہیں،اور اجر و ثواب سے محرومی بھی یقینی ہے“
علامہ محمدابن صالح العثمین رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ افسوس کا مقام ہے کہ بعض طلبہ قرآن مجید یاد نہیں کرتے ہیں،بلکہ کچھ تو قرآن پاک صحیح سے پڑھ بھی نہیں پاتے ہیں،واقعی یہ بہت بڑا خلل ہے دینی علوم کے سیکھنے کے منہج میں،اسی لئے میں سختی کے ساتھ کہتا ہوں کہ طلبہ پر قرآن کا حفظ کرنا،اس پر عمل کرنا،اس کی دعوت دینا اور اس کو منہج سلف صالحین کے مطابق سمجھنا واجب اورضروری ہے۔کتاب العلم (35/1)
(۹) بچے اور مربیان کے مابین تعلق:
بچے کا اپنے والدین اور اساتذہ سے باہمی تعلق مضبوط ہو اور خوشگوار ہو۔بچہ اپنے بڑوں پر آنکھ بند کرکے یہ یقین رکھنے والا ہو کہ اس کی راہ میں مشکلیں اور حالات جتنے بھی نامساعدہوں اس کے والدین ہر قدم اس کے ساتھ کھڑے ہیں،اسی طرح اساتذہ سے بھی یہی امید رکھتا ہو کہ اس کی زندگی میں والدین کے بعد اگر کوئی خیر اندیش رہنما اور مشفق و مہربان ہے تو اس کا استادہے بچہ قرآن کریم کو سیکھتے ہوئے کسی قسم کے سوال یا افہام و تفہیم میں تردد محسوس نہ کرے۔
خشیت استاد یا خشیت والدین اگر حفظ قرآن کا وسیلہ بن رہے ہوں تو یہ بڑی خطر ناک بات ہے،کیونکہ بچے کے دل میں خشیت صرف اس کتاب کے بنانے والے کی ہونی چاہئے نہ کہ پڑھانے والوں کی،انسانوں کا ادب و احترام اپنی جگہ مسلم لیکن نے جا خوف اور پریشر یہ نفسیات پر بری طرح حاوی ہوجاتی ہیں،اور انسان اور اس کی صلاحیتیں زندگی بھر کے لئے ناکارہ ہوجاتی ہیں،اس لئے ان سے گریز لازمی ہے۔اور یہ بھی بات سمجھ لینی چاہئے کہ غیر اللہ کا خوف ایمان کا سب سے بڑا دشمن ہے، جسے خود نبی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما کو اپنے پیچھے سواری پربٹھا کر سمجھایا:(”اے لڑکے یہ بات اچھی طرح جان لو!!!! اگر ساری امت جمع ہوکر تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے سوا کوئی پہنچا نہیں سکتا اور اگر ساری امت اکٹھی ہو کر تیرا کوئی نقصان کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے نوشتہئ تقدیر کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی“)
تشدد اور خوف کے طریقہ کارسے بچہ جو کچھ بھی سیکھے گا وہ علم نتیجہ خیز اور دیرپا نہیں ہوگا۔آج مار پیٹ کے خوف سے وہ قرآن سیکھ تو لے گا،لیکن اس کا کوئی قلبی تعلق اس مقدس کتاب سے نہ بن پائے گا۔اور یہ قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے کی بہت ہی بے ڈھنگی شکل ہوگی جس کے مثبت اثرات کبھی بچے کی زندگی پر نظر نہیں آسکتے،جونہی بچہ آپ کی دسترس سے آزاد ہوگا،سب سے پہلے اس کتاب سے خود کو دور کرے گا،جس کی وجہ سے وہ اپنے بچپن کی چھڑیا کھایا کرتا تھا اور ہمہ وقت خوف میں مبتلاء رہتا تھا
مشاہدہ کی ایسی بہت سی مثالیں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں،جہاں لوگ حافظ قرآن یا عالم دین تو کثیر تعداد میں ہوتے ہیں،لیکن اتنی عملی دنیا میں کتاب و سنت کی ایک ہلکی سی جھلک بھی دکھائی نہیں پڑتی۔اساتذہ اور والدین بچوں کا اعتماد جیتنے کی کوشش کریں،بلا شبہ یہ بڑی طویل اور صبرا ٓزما مدت ہوتی ہے۔
خود پر کنٹرول کرنا سیکھیں،بچے کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں۔ٹائم،لمٹ اور رفتار پر قابو رکھیں،عجلت پسندی اور جلد بازی سے پر ہیز کریں۔بچہ جتنا کچھ سیکھ رہا ہو اس پر اس کی حوصلہ افزائی کریں،انعامات بھی دیتے رہیں،ساتھ اسے اگر کچھ مشکلات آتی ہوں تو بھی ایسا ماحول بنا کر رکھیں کہ بچہ بے جھجھک آپ سے اپنے سبق کی مشکلات بتا سکے اور آپ اس کی پریشانیوں کا حل نکال سکیں۔
(۰۱) حفظان صحت،متوازن غذا:
قرآن سیکھنے والے بچے کے لئے اس کی صحت کا غیر معمولی طور پر عمدہ ہونا ضروری ہے،ہم اگر بچے کے غذائی دائرہ کو درست کرلیں تو ان شاء اللہ ہمارے بچے کی تعلیم اور اخلاق درست ہوجائیں گے۔
ایک دور ہوا کرتا تھا جب ایک طالب علم کے ساتھ شرعی علوم سیکھنے والا طالب علم بھی علم بدن اور علم غذا جیسے علوم پر دسترس رکھتا تھا۔وقت بدلا،نصاب بدلا………اب یہ سارا کام مغرب نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ ………..سلف نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے کہ حلال اور صاف ستھری غذا کا کیا معیار ہونا چاہئے،کیونکہ اطباء اور مصلحین نے ماضی بعید میں روح کے بگڑنے کو جسم کے بگڑنے سے جوڑ کر دیکھا ہے۔پہلے انسان کو اس کی خوارک کو متوازن کرنے پر ابھارا ہے،پھر ان کی روحانی کمزوریوں پر کام کیا ہے۔
بچے کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر بچہ اچھی صحت کا مالک ہے تو لازما وہ مستقبل میں ایک اچھی کارکردگی کا مالک بن سکتا ہے۔جس کی خاطر اسے اچھی،متوازن خوراک دینی چاہئے۔موسمی پھل،دودھ،سبزیاں،گوشت،انڈے،سوکھے میوے لازماًاس کی غذامیں شامل کرنا چاہئے۔بہت زیادہ کھٹی،میٹھی اورٹھنڈے مشروبات او رماکولات سے پر ہیز کرنا چاہئے۔کیونکہ ایسی غذائیں جسم میں کاہلی کا سبب بنتی ہیں،اور مزاج میں ترشی لاتی ہیں،اور گلا خراب کرنے کی وجہ بھی بنتی ہیں۔
ایسی غذاؤں کا انتخا ب کیا جائے جو ذہانت اور حافظہ کو قوی بنانے والی ہوں،پھلوں اور سبزیوں کے تازہ جوسکا استعمال کرنا چاہئے،پیک شدہ پھلوں کے رس صحت کے لئے مضر ثابت ہو سکتے ہیں،بچے کے ناشتہ کے لئے مقوی چیزوں کو بازاری اشیاء کا متبادل بنانا چاہئے۔
(۱۱)ورزش: بچے کو یومیہ کسی ورزش کا عادی بنانا ایک بہت اچھا عمل ثابت ہو سکتا ہے،اس سے بچے کے اعصاب،حافظہ اور اس کی طبیعت کی سر شاری کے اسباب پیدا ہوں گے۔اس کے علاوہ اس کے پٹھے اگرمضبوط ہوں گے تو اس کا سیدھا اثر اس کی قوت بصارت اور قوت سماعت پر ہوگا،وہ عام لوگوں کی بہ نسبت بہت تیز ہوگی،لہٰذا ایک طالب علم کے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے۔اس لئے بھی یومیہ چہل قدمی یا جسمانی سرگرمی بچے کے لئے بھی لازمی ہے۔اس سے بچے کا نظام تنفس بھی بہتر ہوگا۔
بچے کو STRETCH BREAK بھی دینی چاہئے،درا صل دوران تدریس ایک میانہ درجہ کے طالب علم کی ذہنی یکسوئی 45منٹ سے لے کر 60منٹ تک ہو سکتی ہے اس کے بعد بچے کی یکسوئی ختم ہونے لگتی ہے یا کمزور پڑنے لگتی ہے۔
اسٹریچ بریک سے مراد یہ کہ بچے کے پینتالیس سے پچاس منٹ کی مسلسل پڑھائی کے بعد اسے ایک منٹ کا وقفہ دیں،اسے دس منٹ کی چہل قدمی کروائیں اور دوبارہ اس کی جگہ پر واپس بلالیں،اس ایک منٹ کی قربانی دے کر بچے کو پھر سے فریش کیا جا سکتا ہے۔
(۲۱) کھیل کود: اس کے کھیل کے اوقات لازمی طور پر مقرر کئے جائیں،کیونکہ کھیل نہ صرف صحت کا معاون ہے بلکہ بچے کی نفسیات اور مضبوط اعصاب کا بھی معاون ہے،بچے کے ذہنی تناؤ اور بے دلی جیسی کیفیت کو دور کرنے کا ایک آسان اور صحتمند ذریعہ ہے،بلکہ بچے کو اس کے امتحانات کے دوران بھی کھیلنے کے لئے بھیجنا چاہئے۔
محترم والدین اور اساتذہ!!!!!مانا کہ ڈگر دور،راہ طویل اور قدم قدم مایوسیاں،مشکلات استقبال کو کھڑی ہیں،لیکن سوچیں تو!!!………..جیت یونہی تو حاصل نہیں ہوگی،آپ کے سر پر تاج یونہی تو نہیں رکھا جائے گا،یوم جزاء کے روز آپ کی سفارش یونہی تو اللہ رب العزت کے سامنے نہیں کی جائے گی،یونہی تو نہیں اللہ کے رسول نے آپ کو یہ اعزاز دے دیا کہ:خیر کم من تعلم القرآن و علمہ
تو آئیے محترم والدین و اساتذہ!!!! ایک بڑے عزم و ارادہ کے ساتھ……..خالص نیتوں کے ساتھ اس عظیم مشن کے فعال کارکن بن جائیں،تاکہ یہ سر زمین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام سے گونج اٹھے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں