اس کے مطابق کائنات اور اس کی تخلیق میں غور وفکر انسان کو اللہ کے عرفان تک پہنچانے کاذریعہ ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کی جسمانی بناوٹ میں اللہ کی سینکڑوں حکمتیں پوشیدہ ہیں جن پر غور کیا جائے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنے بدن کی بنیاد یعنی ڈی این اے پر ہی غور کر لے تو اسے سمجھ میں آجائے گا کہ اس کی جسمانی ساخت میں کس قدر حکمت ودانائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات کو اگر کاغذ کے صفحے پر لایا جائے تو لاکھوں صفحات سیاہ ہوجائیں مگراس کی تفصیل تو کیا اجمال بھی نہ آسکیں۔ حالانکہ اس کا ابھی تین فیصد ہی سمجھ پانا ممکن ہوا ہے اور جب سائنس اور آگے بڑھے گی تو پتہ چلے گا کہ وہ جسے تین فیصد مان رہی ہے وہ ۱ ء ۰ فیصد بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسا دانشمندانہ کام سب سے بڑا دانشمند اور حکیم ہی کرسکتا ہے کہ کسی کی زندگی اورشخصیت کی تمام تفصیلات ایک ایسے چھوٹے سے ذرے میں داخل کردے ۔ جو اتنا چھوٹا ہوکہ آنکھ بھی دیکھنے سے قاصر ہو۔ سائنس تو اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کاہی نام ہے اور قرآن اس کی دعوت دیتا ہے لہٰذا وہ سائنس کا مخالف نہیں بلکہ اس کا رہنما ہے۔ قرآن میں جتنے مقامات پر ’’غور کرو، فکر کرو، تدبر کرو، سوچو‘‘جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں دنیا کی کسی دوسری مذہبی کتاب میں نہیں کئے گئے ہیں۔قرآن میں تقریباً ۷۵۰ مقامات پرسائنس کی جانب انسان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام محمدرسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی پر نظر ڈالیں تواحساس ہوگا کہ آپ نے بھی ہمیشہ تدبر اورفکر پر ہی زور دیا۔ قرآن اور صاحب قرآن کا یہ انداز اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم سائنس کے لئے چیلنج نہیں ہے بلکہ مشعل راہ ہے۔ جو سائنسی حقائق اب سامنے آرہے ہیں ان کا بیان کتاب اللہ میں چودہ سو سال قبل کیا جاچکا ہے اور آج دنیا سر دھن رہ رہی ہے کہ اسے اس حقیقت کا پتہ پہلے کیوں نہیں چلا؟
اسلام اور سائنس کی مشترکہ بنیادیں
قرآن ، انسان کو موجودات میں فکرونظر کی دعوت دیتا ہے اور سائنس اسی کا نام ہے۔ موجودہ دور میں مسلمان کا علم سے رابطہ کم ہوا ہے اور حقیقی علم یعنی قرآنی علوم سے تو وہ بالکل بے بہرہ ہوگیا ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ دینی علم کے لئے مدرسوں میں جاتا ہے جہاں کا نصاب تعلیم ایسا فرسودہ ہے کہ وہ نہ اسلام کی ترجمانی کرتا ہے اور نہ عصر حاضر کی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو دینی علوم حاصل کرکے نکلتے ہیں وہ اگر بعد میں عصری تعلیمی ادارے یا یونیورسیٹیوں کا رخ نہ کریں تو دنیا سے واقف نہیں رہ پاتے۔ آج خود مسلمان بھی کچھ مدرسوں کے نصاب تعلیم کو دیکھ کر یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اسلام اور سائنس دومختلف چیزیں ہیں، لہٰذا وہ دین کے نام پر گھر میں بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھادیتے ہیں اور نماز کا طریقہ سکھا دیتے ہیں۔ باقی تعلیم ان کی اسکولوں اورکالجوں میں ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ قرآن کریم ہی سائنس کا اصل منبع و سرچشمہ ہے اور وہ کائنات کے ایسے سربستہ رازوں کا افشا کرتا ہے جہاں تک پہنچنا سائنس دانوں کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ دراصل اسلام اور سائنس کی مشترکہ بنیادیں ہیں اور یہی مومن کا وہ گمشدہ خزانہ ہے جسے حاصل کرنے کے لئے کبھی سب پر علم کے حصول کے فرضیت کی بات کہی گئی تو کبھی چین جیسے دور دراز ملک کا دشوار گذار سفر کرنے کو کہا گیا۔ اکیسویں صدی علم و ہنر کی صدی ہے اور اسی کے ساتھ قبولیت حق کی صدی بھی ہے۔ اس لئے کہ جب انسان علم و ہنر سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کے دل پر حقائق کی روشنی ظاہر ہوتی ہے اور اسی اجالے میں وہ حق وباطل کی پہچان کرتا ہے۔
اکیسویں صدی سائنس اور قرآن کی
آج کا انسان فرسودہ روایات کے سامنے سرجھکانے کو تیار نہیں ۔ اسے ہرمعاملے میں دلیل و ثبوت کی مضبوط بنیاد چاہئے۔ وہ ہر ایسی بات کو مسترد کردیتا ہے جس کے لئے دلیل موجود نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو جن چیزوں کی سائنسی بنیادیں نہ ہوں وہ انسانی عقل کو اپیل نہیں کرتی ہیں۔ ایسے میں وہ مذہب جس کی سائنسی بنیادیں ہیں وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ یہاں کوئی بات بغیر دلیل نہیں کہی جاتی اور وہ کتاب جو بار بار تدبر و تفکر کی دعوت دیتی ہے وہ قرآن کریم ہے۔ نئے دور میں آپ دیکھیں گے کہ تمام ایسے نظریات ،جن کی علمی اور سائنسی بنیادیں نہیں ہونگی خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا سماج سے دم توڑ دیں گے ۔ یہاں ایسے مذہب کا سکہ چلے گا جو علمی بنیاد پر استوار ہوگا اور وہ صرف قرآنی مذہب ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ انسان کے عقل کی اختراع نہیں ہے بلکہ اللہ کا بھیجا ہوا پیغام ہے جو دلیل و ثبوت کی سے لیس ہے اور جس کی عقلی بنیاد ہے۔آج اگر قرآن دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ اس میں نئے دور کے ساتھ چلنے کی قوت موجود ہے۔ سائنس جس مذہب کی برتری کو تسلیم کرے گی وہی انسانیت کا مذہب ہوگا اور یہ صلاحیت اسلام میں موجود ہے۔ ہمارے اس دعوے کی کچھ دلیلیں اس مضمون میں بھی آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
تخلیقِ کائنات کے راز اور قرآن
تخلیق کائنات کے سربستہ راز اور اس کی وسعت ابھی تحقیق کا موضوع ہیں مگر اس کی پیدائش میں جو حکمت و دانائی ہے اور جو تناسب ہے وہ عقل کو حیران کرنے والا ہے۔ جب ایک معمولی سی چیز بغیر اپنے صانع اور خالق کی مرضی کے متناسب نہیں بن سکتی تو اتنی بڑی کائنات اور اس کی مخلوقات کی تخلیق بغیر کسی حکمت و دانائی کے کیسے ہوسکتی ہے؟ وہی صاحبِ حکمت خالق اور پالنہار، اللہ ہے،جس کے عرفان کی قرآن دعوت دیتا ہے اور اس کی ذات و صفات اور عبادت میں کسی اور کو شریک کرنے سے روکتا ہے۔ اسی مالک کے بارے میں بتانے کے لئے لاکھوں ابنیاء، اولیاء، صلحاء اس دنیا میں تشریف لائے۔ ماڈرن سائنس ہر مذہبی نظریے سے اوپر اٹھ کر کائنات اور تخلیق کی حکمتوں میں غور کر رہی ہے۔ آج جو بھی سائنسداں ہیں ان میں برائے نام ہی مسلمان ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ وہ قرآنی تعلیمات سے متاثر ہوکر کسی موضوع پر غور وفکر کرتے ہیں اور تحقیق کا کام کرتے ہیں بالکل غلط ہوگا۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جدید سائنس کی تحقیقات قرآن کے بیانات کو درست ثابت کرتی ہیں۔گویا سائنس اور قرآن دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ہیں۔قرآن میں جوکچھ بھی بیان ہوا ہے، سائنس اس کی تصدیق کرتی ہے اور اگر کوئی بات ایسی ہے جسے سائنس داں سائنس کی رائے سے الگ مانتے ہیں تو اس کے بارے میں ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں جب سائنس اور آگے بڑھے گی تو اس کی بھی تصدیق کرے گی اور قرآن کے آگے اسے سرجھکانا پڑے گا،کیونکہ سائنس دانوں کا دماغ محدود ہے اور قرآن اس خالق کی کتاب ہے جوحکیمِ مطلق ہے اور حکمت و دانائی کا خالق ہے۔وہ سب کو عقل و شعور بخشتاہے اور علم ہنر کی روشنی بھی اسی کی پیدا کردہ ہے لہٰذا اس کی دانائی کا محدود ہے۔
عبادت کا نفسیاتی پہلو
قرآن کی آیات ،ماڈرن سائنس اور عقل و وجدان کے معیار پر بار بارکھری اتری ہیں۔یہاں جو باتیں چودہ سو سال قبل بیان کی گئی تھیں آج ان کی تصدیق سائنس اور علم و عقل کے ذریعے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’’دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے‘‘اس لئے قرآن بار بار عبادت کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہاں عبادت کا تصورصرف نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے بلکہ خدمت خلق،پڑسیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ، انسانوں کے ساتھ حسن سلوک، سبھی مخلوقات پر رحم، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ نرم خوئی بھی عبادت کا ہی حصہ مانا جاتا ہے اور اس میں سکونِ قلب ملنے کی بات کہی گئی۔ ظاہر ہے کہ آج کے ماہرین نفسیات بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کو جو سکون کسی اور کام میں نہیں ملتا وہ اسے عبادت میں ملتا ہے۔
قرآن اور سائنس کی مطابقت
طہارت کو قرآن میں نماز کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی۔طہارت کا مطلب ہے پاکیزگی، جس کے لئے کبھی غسل کا حکم ہے اور کہیں وضو کا۔ وضو بہ ظاہر ایک ایسا عمل ہے جس میں ہاتھ ،منہ دھویا جاتا ہے، سر کا مسح کیا جاتا ہے اور پیر دھوئے جاتے ہیں مگر اسی کے ساتھ جسم کی صفائی ہوجاتی ہے، جو انسان کو بہت سی بیماریوں سے دور رکھتی ہے۔ قرآن کے اس حکم کی افادیت کو آج کی میڈیکل سائنس بھی مسترد نہیں کرسکتی۔ یونہی قرآن میں ایک مہینے کا روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جس میں آدمی صبح صادق سے شام تک بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ بھوک اور پیاس ایک طرف تو انسان کو فکر ونظر پر مجبور کرتے ہیں تو دوسری طرف اسے دوسروں کی بھوک اور پیاس کا احساس دلاتے ہیں۔ ویسے جدید سائنس کی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کم کھانے والے لوگ زیادہ دن زندہ رہتے ہیں۔ گویا کم کھانا صحت مند زندگی جینے کے لئے ضروری ہے ۔قرآن مجید نے شراب،مردار، سور کا گوشت،جوا،سود جیسی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اور عقل و تجربہ کی روشنی میں بھی یہ تمام باتیں مہلک اور انسانیت کی دشمن ثابت ہوچکی ہیں۔ قرآن میں صرف آسٹروسائنس، بایولوجی اور میڈیکل سائنس ہی نہیں بلکہ سماجی علوم بھی ہیں۔ حالانکہ قرآن کامقصد سائنس کا بیان نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ہدایت ہے جس کا مقصد انسان کو بہترزندگی جینے اور دنیا کا نظام چلانے کے لئے گائیڈ کرنا ہے مگر اسی کے ساتھ سائنس کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ انسان کی فکری رہنمائی اس کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ جب تک کائنات اور اس کی اشیاء کی ماہیت پر غور نہیں کرتا وہ اللہ کی حکمت کے راز نہیں پاسکتا۔اسلام میں جو صوفیہ کا طبقہ پیدا ہوا وہ اسی لئے کہ یہ حضرات اللہ کی ذات و صفات پر غور کرتے تھے اور اس کا عرفان حاصل کرتے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جنھیں غور وفکر کے بعد اللہ کا عرفان حاصل ہوتا تھا۔گویا یہ وہ سائنسداں تھے جن کا مقصد مادیت کا حصول نہیں بلکہ حقیقت تک پہنچنا مقصود تھا۔ جابربن حیان جنھیں ساری دنیا میں ماہر کیمیا کے طور پر جانا جاتا ہے،ایسے پہلے شخص تھے جو ’’صوفی‘‘ کے لقب سے پکارے گئے۔ حاصل کلام کہ انسان جب تک سائنس کو نہیں سمجھ پاتا وہ صحیح معنوں میں اللہ کا عرفان نہیں پاسکتااور نہ ہی صحت مند زندگی پاسکتاہے۔ وہ سائنس کے ذریعے ہی اللہ کی کائنات اور اس کی تخلیقات کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔
جواب دیں