قیادت کا شعور

عرب تاریخ میں بعاث کو سب سے زیادہ تباہ کن لڑائیوں میں شمار کیا جاتا ہے.اس کے باوجود یہ جنگ بھی بے نتیجہ رہی تھی. اس میں کوئی بھی فاتح بن کر نہیں ابھرا تھا.دونوں طرف کے سارے بڑے،اہم اور آزمودہ کارسردار مارے جا چکے تھے اور دونوں قبیلوں کی قیادت مجبوراًنوجوان نسل کے ہاتھوں میں آگئی تھی.نئی قیادت ناتجربہ کارتھی مگر ذہین، فعال اورمستقبل بیں ثابت ہوئی.اس کے پاس مثبت عمل کا ایک تصور تھا. گزشتہ نسل کی رد عمل کی تفاعلی اورخشمناک سیاست کی جگہ نئی نسل کی سوچ تعمیری تھی.اس نئی قیادت کو ایک سنگین صورت حال کا سامنا تھا.مستقبل قریب میں انصار کا لقب پانے والے دونوں عرب قبیلے یثرب میں اپنی تاریخ کے ایک نہایت نازک دور سے گزر رہے تھے.
سماجی گروہوں کی اجتماعی زندگی میں تاریخ ساز لمحہ اکثراس وقت نمودار ہوتا ہے جب وقت کا منتخب کیا ہواایک گروہ شعور کی بلندی سے کوئی ایسا قدم اٹھا لیتا ہے جومستقبل کا دھارا موڑ دے.یثرب کے خزرجی اور اوسی جوانوں کو بھی ایسا ہی ایک لمحہ آ واز دے رہا تھا. اہم بات یہ تھی ان جوانوں نے اس آواز کو سنا بھی، اس کامثبت جواب بھی دیا اور اس سے فائدہ بھی اٹھایا.کربناک ماضی کی اگلی تکلیفوں کو یاد کرکر کے مستقل نفسیاتی ہیجان میں مبتلارہنے والی قومیں اپنے ہی قلم سے اپنے وجود کی نفی کا فرمان لکھ دیتی ہیں . وہ کبھی معدوم ہوجاتی ہیں اور کبھی ہمیشہ کے لئے مغضوب.انسانی تاریخ کو نمرود، فرعون منفتاح، سکندر،ہلاکو، تیمور، نادر، چرچل ، سٹالن کی سب سے بڑی دین یہی ہے کہ ان کی موجودگی میں ان کی قوموں نے دنیا میں کوئی مثبت تہذیبی کردار ادا نہیں کیا ا وران کے بعد وہ کھاد بن گئیں.
اوس و خزرج کے نوجوان نہایت ذکی و ذہین تھے. جنگ بعاث کے فوراً بعد انہوں نے بہت تیزی سے حالات کا جائزہ لے لیا تھا اور اتنی ہی تیزی سے یقینی اور خوش نتیجہ اقدامات بھی کر رہے تھے.ان کے سامنے حالیہ ماضی بھی تھا، معدوم قیادت بھی تھی، اس معدوم قیادت کے اقدامات کے نتائج بھی تھے اور بہتر نتائج دینے والے ایک مستقبل کا تصور بھی تھا. انہوں نے اپنے بڑوں کے غلط فیصلوں اور غلط اقدامات کی دن رات مذمت اور حالات کے مستقل ماتم اور ان حالات کا سبب بننے والے اندرونی اور بیرونی سازشی عناصر کے خلاف انتقامی منصوبہ سازی، اور برادر کشی کے پیدا کئے ہوئے زخموں کی نمائش میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا. ان حالات میں جب ان کی قیادت ختم ہوگئی تھی ، ان کی معیشت برباد ہوچکی تھی، ان کا انسانی تشخص موت کے دہانے پر آلگا تھا ان کا سب سے بڑا سرمایہ ان کا وقت ہی تھا. انہوں نے اس دولت کا درست استعمال کرنے کی ٹھانی اور زندگی کو نتیجہ خیز ہی نہیں دنیا کے لئے سبق آموز بھی بنادیا.
جنگ کے خاتمہ کے بعد ان کا پہلا قدم ایک مشترکہ قیادت کی تلاش تھی.یہ تلاش اسباب جنگ کے درست تجزیہ کا نتیجہ تھی. بعاث اور اس سے پہلے کی چار برادر کش جنگوں کا ایک بنیادی سبب دونوں قبائل کی الگ الگ امتیازی قیادت تھی جسے برقرار رکھنے کے لئے قبائلی منافرت کو ہوا دیتے رہنا ضروری تھا. جاہلیت کا یہ مزاج آج بھی دنیا کی حریف قوموں اور قبیلوں کی قیادتوں میں صاف دیکھا جاسکتا ہے.اوس وخزرج کے نوجوان قائدین نے قیادت کی اس تفریق کی جڑ پر پہلی ضرب لگائی تھی.یثرب میں صدیوں کی زیر دستی کے بعد ایک مختلف مگر مشترکہ قیادت کے لئے فیصلہ ان نوجوانوں کی سیاسی زیرکی اور فراست کا پہلا ثبوت تھی.
نئی قیادت کے لئے ان کا اتفاق رائے اسلام کے حق میں بہتر ہوا. اگر ابو الَحیسراور ابو اُسید جیسے قبائلی رہنما زندہ اور قبیلوں پرمؤثر ہوتے تو یثرب میں بھی وہی معاشرتی کیفیت پیدا ہوتی جو مکہ کی بوڑھی قیادت نے اسلام کی راہ میں پیدا کررکھی تھی.یہاں بھی پرانی نسل کو اپنے اجداد کا مشرکانہ دین ترک کرنے میں وہی تکلیف ہوتی جو ابو لہب، ابو جہل، عتبہ ابن ربیعہ اور امیہ ابن خلف جیسے لوگوں کو مکہ میں ہورہی تھی.ان یثربی لوگوں کے بھی دماغ گرم اور دل سرد ہوتے جس کا اظہار مکہ کی بوڑھی قیادت نے اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ کرکے اور بعد میں بار بار میدان جنگ میں اتر کر کر کیا تھا.ان کے بر خلاف یثرب کے نوجوان زود فہم اور زیرک تھے. وہ انقلاب و تبدیلی سے خوفزدہ نہ تھے. وہ خود انقلابی تھے. ان کے دل بیمار نہیں ، نورانی تھے جن کے لشکاروں نے ان کی خاموش بستی کو روشنیوں کا مدینہ بنا دیا تھا .ان کے اورمکہ میں۴۰ سال سے کم عمر والے جوانوں کے مابین یہی قدر مشترک تھی.مکہ میں گزشتہ دس سال میں جو ایک نئی تاریخ لکھی جا چکی تھی یثرب میں اب اس کا مقدمہ لکھا جارہا تھا.اس نئی تاریخ میں وقت کے ایک کنارہ پر معمر ابو الحیسراورعبداللہ ابن ابئی کھڑا تھا اور دوسرے کنارہ پر نوجوان ایاس ابن معاذ اور اسعد ابن زرارہ.
جنگ بعاث کے بعداسعد ابن زرارہ رضی اللہ عنہ اس وقت انصارمدینہ کی نئی قیادت میں سب سے معمر شخص تھے. ان کی عمر فقط ۲۱ سال تھی. اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا تو ان کی عمر صرف ۱۶ سال کی تھی!

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے