ہو ایہ تھا کہ کئی برسوں سے پنجاب میں ویران پڑی مساجد کو وہاں کے سکھوں نے مسلمانوں کے حوالے کرنا اور اس کی آبادکاری کے لئے سرگرمی دکھانا شروع کیاہے۔ایسی ہی ایک مسجد کی ا?بادکاری کی خبر میڈیا میں اپنی جگہ نہیں بنا پایا۔جس سے وہ بہت ناراض تھے۔انہوں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ان کا سینہ آج فخر سے چوڑا (مودی کی طرح ۶۵ انچ کا نہیں) ہو گیا ہے کہ ان کی قوم کے لوگوں نے مسلمانوں کو ان کی مسجد لوٹائی ہے۔لیکن کیا خوشونت سنگھ اس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ کتا ا?دمی کو کاٹے تو خبر نہیں بنتی خبر جب بنتی ہے جب آدمی کتا کو کاٹے۔یہی اب موجودہ دور میں میڈیا کا کردار رہ گیا ہے۔اس لئے سکھوں کے اس طرح کے رواداری والے کاموں کو میڈیا میں پذیرائی نہیں ملی۔ہاں اب سے کوئی تین دہائی قبل انہیں بھی دہشت گردی کے نام پر خوب بدنام کیا گیا۔
حالانکہ کرنل وی کے سنگھ کے پریسٹی ٹیوٹ والی بات سے میں بھی بہت حد تک متفق ہوں۔لیکن سنگھ صاحب سے یہ پوچھنا تو میرا حق بنتا ہے کہ اسی پریسٹی ٹیوٹ میڈیا کے سہاریہی تو ان کی حکومت آئی ہے اور تقریباً ایک سال سے مرکز میں حکمراں ہے جس کے وہ ایک وزیر ہیں۔اس وقت ان کی زبان کیوں گنگ تھی جب یہی میڈیا مودی کی جھوٹی تشہیر میں سرگرم تھااور آج بھی وہ اس میں سرگرم ہے۔مودی کی جھوٹی اور ہوائی باتوں پر وہ کوئی سوال نہیں اٹھاتا اور سنگھ صاحب خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔اب جبکہ سنگھ صاحب کو یوم پاکستان تقریب میں شرکت کے لئے میڈیا نے نشانہ بنایا تو وہ چراغ پا ہو گئے۔جبکہ یہاں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ جھوٹی دیش بھکتی اور ملک کے دشمن کو ملک کا نجات دہندہ اور نجات دہندہ کو ملک کا دشمن بنانے والا یہی میڈیا ہے۔ یہی میڈیا ہے جو پاکستان کے خلاف ملک میں نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کوملک کے دیگر باشندوں کی نظر میں مشکوک بنانے کا کام مسلسل کررہاہے۔یہ میڈیا ہمیں یہ تو بتاتا ہے کہ پاکستان میں ملک عزیز کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے سازش کرکے ممبئی حملے جیسی کارروائی کے لئے منصوبہ بندی ہو تی رہتی ہے۔ہمارے یہاں کے کسی بھی حادثہ یا دھماکہ کے پیچھے پاکستان اور ٓائی ایس آئی کے ہاتھ تلاشے جاتے ہیں۔پاکستان میں ہندو اقلیت بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ان کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے۔ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشمیر تنازعہ ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کو میڈیا نے لاینحل مسئلہ بنادیا ہے۔اسی ایک مسئلہ کی ا?ڑ لے کر پورے بر صغیر میں ہیجانی کیفیت اور غیر یقینی صورتحال صرف اور صرف میڈیا اور سیاست دانوں کی کارستانیاں ہیں اور ان دونوں کو سامنے رکھ کر خفیہ ایجنسیاں پردے کے پیچھے سے اپنا کھیل کھیلتی ہیں۔
بر صغیر کے ایک بڑے صحافی کلدیپ نیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ہم پاکستان کو خواہ کچھ بھی کہہ لیں لیکن وہاں وہاں میڈیا اور عدلیہ آزاد ہیں۔۱۷ اپریل کے اخبارات میں ایک خبر پاکستان کے سپریم کورٹ کے تعلق سے ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک ہندو مندر کو دوبارہ تعمیر کرنے اور ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جسے ۱۹۹۷ میں تباہ کردیا گیا تھا اور بعد میں اس پر قبضہ کرلیا گیا تھا۔اس مندر کو تباہ کرنیسے صرف پانچ سال قبل ۱۹۹۲ میں ملک عزیز میں بابری مسجد شہید کردی گئی اس کے باوجود کے عدالت عظمیٰ نے اس کی صورتحال جوں کی توں برقرار رکھنے کا ا?رڈر دیا تھا اور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ دونوں نے مسجد کی حفاظت کا تیقن دلایا تھا۔اس کی ملکیت کا بھی مقدمہ ۱۹۹۴ سے چل رہا ہے۔الہٰ آباد عدالت عالیہ نے اس کی ملکیت کا فیصلہ بھی ایسا سنایا کہ غالبا ملک کی تاریخ میں پہلی بار عدالت عالیہ کا مضحکہ اڑایا گیا۔اب وہ مقدمہ عدالت عظمیٰ میں ہے اور مسلمان انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ عدالت کب انصاف کرتی ہے۔لیکن ڈر بھی لگتا ہے کہ انصاف مل پائے گا کہ نہیں کیوں کہ اب ملک عزیز میں انصاف بھی ملک کے اجتماعی ضمیر اور عقیدہ کی بنیاد پر ہوا کرتا ہے۔پاکستان سے ا?نے والی خبریں جس کا اوپر ذکر آیا ہے وہ عام طور پر منفی شبیہ اور ہندوستانی عوام کو اشتعال دلانے والی ہوتی ہیں۔لیکن یہاں کی میڈیا نے اس خبر کو اہمیت نہیں دی کہ پاکستانی عدالت عظمیٰ نے وہاں کی اقلیت کے دلوں میں امید کے چراغ جلائے۔اگر میڈیائی خبروں کے مطابق وہاں کی اقلیت پارلیمان اور انتظامیہ سے مایوس ہو جائے تو اس کے لئے امید کا ایک در عدلیہ موجود ہے جو بہر حال انہیں انصاف دلائے گی۔
مذکورہ خبر کی تلاش میں ایک اور خبر پر نظر پڑی جو کہ ۵?مارچ کے ڈان میں شائع ہوئی تھی۔یہ کہانی ایک پاکستانی گاؤں میٹھی کی ہے جہاں کے بارے میں ڈان کے رپورٹر حسن رضا نے لکھاہے کہ اس گاؤں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔دو دوستوں نے جس میں ایک ہندو(ماما ویشن) اور ایک مسلمان(نظام) ہیں نے ایک فلاحی تنظیم بنا ئی ہے جس کے تحت وہ بلڈ بینک اور ایمبولینس سروس چلاتے ہیں۔ وہاں ہندو رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور مسلمان ان کے احترام میں گائے کا ذبیحہ نہیں کرتے۔ چونکہ مجھے یہاں صرف میڈیا کی شر انگیزی بتانا مقصود ہے اس لئے اس گاؤں کی مزید تفصیلات میں جائے بغیر یہ عرض کردوں کہ اس کی بھی خبر ہمیں میڈیا نے کبھی نہیں دی کہ اس گاؤں میں کبھی کوئی ہندو مسلم کشیدگی دیکھنے کو نہیں ملی اور وہاں کا جرائم کا گراف بھی کافی کم ہے جو یقیناً وہاں کے باشندوں کے اعلیٰ ظرفی کا غماز ہے۔ اس اسٹوری کے ا?خر میں حسن رضا نے لکھا ہے کہ’’ اگر ا?پ سوچتے ہیں کہ پاکستان صرف اس کا نام ہے کہ وہاں چرچوں پر بم پھینکے جاتے ہیں ،مندروں کو برباد کیا جاتا ہے ،طالبانی طریقہ کار حاوی ہے ،مذہبی اقلیتوں کا قتل عام ہوتا ہے اور بالجبر تبدیلی مذہب ہوتا ہے تو میں ا?پ سے اپیل کروں گا کہ آپ کم از کم ایک بار میٹھی تشریف لائیں ‘‘۔
ایک بار اسمٰعیل ہانیہ نے تقریباً چار سال قبل کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب جنگیں میڈیا کے ذریعہ لڑی اور جیتی جارہی ہیں۔ا?پ دیکھ لیں کہ میڈیا کے ذریعہ ہی اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑی جارہی ہے اور پوری دنیا کو یہ یقین دلا دیا گیا کہ صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔اس معاملے میں دائیں بائیں بازو والے ہوں یا نام نہاد سیکولرسٹ سب ہی ایک رٹ لگاتے ہیں کہ دہشت گردی اور شر انگیزی صرف مسلمانوں کے ذریعہ ہی پھیلائی جارہی ہے۔انہی کے ذریعہ دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔بس نام نہاد بائیں بازو اور سیکولرسٹوں کا ذرا انداز جدا گانہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو گالیاں بھی دے دیتے ہیں اور مسلمانوں کے ہمدرد بھی کہلاتے ہیں۔انہیں بھی میڈیا خوب کوریج دیتا ہے اور اس کی واحد وجہ ہے اسلام پسندوں، شعائر اسلام کی سختی کے ساتھ پابندی کرنے والوں کو منفی طور پر پیش کرنا۔اگر آپ یمن ،شام ،لیبیا ،اخوان اور حالیہ دور میں منظر عام پر آنے والی تنظیم داعش وغیرہ کے تعلق سے ان کے بیانوں کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کریں تو آپ پائیں گے کہ کس طرح میڈیا جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے اور یہ اس جھوٹ کو بلا تحقیق مان کر اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں جس سے اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں چھپا بغض باہر آجاتا ہے۔کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے خلاف نہیں ہیں ہم تو ایسے شدت پسندوں کے خلاف ہیں جو دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔لیکن یہ اس بات کو حذف کر جاتے ہیں کہ یہ تنظیمیں اگر کچھ کررہی ہیں تو یہ ان انصافیوں کا رد عمل ہے جو نام نہاد سیکولرزم اور جمہوریت کے علمبرداروں نے ان کے ساتھ کئے ہیں یا ان کی سر پرستی میں ہوئے ہیں۔دوسری بات یہ کہ جو خبریں مسلم تنظیموں کے تعلق سے ا?رہی ہیں اس کی صداقت پر کس قدر یقین کیا جاسکتا ہے ؟لیکن انہیں تو صرف بہانہ چاہئے کہ کس طرح با عمل مسلمانوں کو فرضی جرائم سے منسلک کرکے اسلام کو بد نام کیا جاسکے۔
میڈیا کی شر انگیزی کا رونا تو ہم روتے ہیں اور رونا بھی چاہئے لیکن کیا ہم خود بھی اس کے لئے تیار ہیں کہ میڈیا کی کہانی کے پس منظر میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اس حقیقت کو جانیں اور اس کی سچائی عوام کے سامنے لائیں کہ بھائی جو کچھ آپ کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ،جن لوگوں کو جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بتایا جارہا ہے اس کے پیچھے کی سچائی کیا ہے۔آج یہی میڈیا ہمیں مودی کو ملک عزیز کا واحد نجات دہندہ بنا کر پیش کررہا ہے اب یہ تو آنے
والا انتخاب ہی بتائے گا کہ میڈیا کے اس جھوٹ اور فریب کو عوام نے کتنا ہضم کیا۔شکر ہے کہ آج سوشل میڈیا کا ایک ہتھیار ہمارے ہاتھ آگیا ہے جہاں کسی کی مرضی نہیں چلے گی یہاں کچھ چلے گا تو آپ کیا سوچتے ہیں وہ۔اگر ا?پ کو دل کی بھڑاس نکالنی ہے تو یہ نعم البدل میڈیا موجود ہے۔کوئی اخبار یا کوئی ٹی وی نیوز چینل آپ کی خبر نہیں لیتا آپ کی بات عوام کے سامنے نہیں رکھتا یا سچائی کو چھپا کر سیاسی مافیاؤں اور خفیہ ایجنسیوں کی دلالی کررہا ہے۔تو ا?پ اپنی بات یہاں رکھ سکتے ہیں۔یہ ایک بہتر متبادل ہے۔ہم اس کا استعمال کربھی رہے ہیں۔لیکن میڈیا کا مافیا اسے بھی برداشت کرنے کو راضی نہیں وہ ا?پ کی ا?زادی کو ہضم نہیں کر پارہا ہے۔کیوں کہ اس سے ان کی مونو پولی یا ان کی من مانی کو زبردست چیلنج ہے۔اگر سوشل میڈیا مضبوط ہو گیا اور وہ ہر ا?دمی کی دسترس میں ا?گیا تو (حالانکہ کچھ حد تک سوشل میڈیا عام آدمی کے ہی ہاتھ میں ہے)پھر الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی چودھراہٹ ان کی مونو پولی ختم ہو جائے گی۔بہرحال ا?نے والا وقت سوشل میڈیا کا ہی ہے۔لیکن ہماری بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کا استعمال افواہ پھیلانے نفرت کی کاشتکاری کرنے کے لئے ہر گز نہ ہونے دیں۔اگر کوئی ایسا کرے تو اسے بے نقاب کریں اپنے اکاؤنٹ سے اسے حذف کردیں اور فیس بک ٹوئٹر اور بلا گ کا مثبت استعمال کریں تاکہ وہ باتیں جس کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پردہ اخفا میں رکھتا ہے اور منظر عام پر نہیں آنے دیتا اسے عوام کے سامنے لائیں تاکہ عوام کے مختلف طبقات میں جھوٹ افواہ اور شرانگیزی کی وجہ سے جو دوری پیدا ہو گئی ہے اسے سچائی اور حقیقت پسندی سے دور کیاجاسکے۔یہ کام صرف نئی نسل ہی کرسکتی ہے اگر اسے صحیح اور مثبت رہنمائی ملے۔ورنہ میڈیا ایٹم بم سے بھی زیادہ تباہی مچائے گا اور پوری دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دے گا۔آپ دیکھ بھی رہے ہوں گے کہ اشتعال انگیز خبروں کے تسلسل سے کئی ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔پورا مشرق وسطیٰ اسی شر انگیزی کی آگ میں دہک رہا ہے۔بہت سی تصاویر ایسی مشتہر کی جاتی ہیں جس سے مسلمانوں کے ہی دو طبقات میں دوریا ں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔میں یہاں پر کسی تفصیل میں جائے بغیر ہی یہ کہوں گا کہ ماضی قریب میں ایسی حرکت ہو چکی ہے۔خاس طور سے شام اور عراق میں حریت پسندوں اور داعش کے تعلق سے۔اس کو ایک خاص ملک کی سر پرستی بھی حاصل رہی اور اس کا میڈیا بھی یہ کار شر انجام دینے میں کسی سے پیچھے نہیں رہا۔اس لئے ہمیں میڈیا کے ذریعہ مشتہر کی جارہی خبروں کے بیں السطور کو بھی پڑھنا اور نتائج نکالنا سیکھنا ہو گا۔یہ کام زیادہ مشکل نہیں۔بس مختلف خبروں کا تجزیہ کرنے سے آپ کو صحیح صورتحال کی معلومات مل جائے گی۔ہمیں اس کے لئے ذہن و دل کشادہ کرنے اور آنکھیں کھلی رکھنے کے ساتھ مومنانہ بصیرت کی بھی ضرورت ہیکیونکہ ’پریسٹی ٹیو‘ میڈیاکا مقابلہ مومنانہ بصیرت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہیاور یہ پریسٹی ٹیوٹ میڈیا صرف ہندوستان میں ہی نہیں اور بھی ملک میں پایا جاتا ہے اور صہیونی میڈیا اور برہمن میڈیا کے علاوہ ایک اور بھی ہے جس ذکر میں نے اپنے پچھلے کسی مضمون میں کیا ہے اور آگے اس پر پھر کبھی لکھوں گا۔
جواب دیں