قصہ محض کرسی کا

اب سونیا گاندھی کی گاڑی گھسیٹنے کے لئے پوار تیار نہیں ہیں اس لئے وہ زیادہ سیٹیں جیت کر وزیر اعلیٰ اپنے بھتیجے کو بنانا چاہتے ہیں لیکن کانگریس یا سونیا گاندھی پدرم سلطان بود کے نشہ میں چور ہیں وہ آج بھی نیشنل کانگریس کو اپنی معاون پارٹی سے زیادہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ شرد پوار کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں کانگریس کو صرف دو سیٹیں ملی ہیں اور شردپوار کو چار یہ حساب لگایا جائے تو 288 میں سے ایک چوتھائی کانگریس کو ملنا چاہئیں لیکن پوار صاحب انہیں 144 دے رہے ہیں اس کے باوجود ان کا منھ سیدھا نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر راج ٹھاکرے جو اُن کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں اور شاید انہوں نے راج بابو کو اودھو ٹھاکرے کے مقابلہ میں وزیر اعلیٰ بنانے کا اشارہ دے دیا ہے۔ اس کے بعد وہ سمجھتی ہیں کہ ان کا پورا الیکشن راج لڑیں گے اور باقی سیٹوں پر وہ کانگریس کو لڑائیں گے۔ ہماری سمجھ میں اس کے علاوہ تو کوئی بات آتی نہیں اور اگر ہو تو اُسے خدا ہی بہتر جان سکتا ہے؟
کانگریس اور این سی پی محاذ کی وزیر اعلیٰ کی کرسی اور زیادہ سیٹوں کی جنگ کی حقیقت بظاہر لوگوں کے لئے مذاق کا موضوع ہے۔ لوک سبھا میں 44 سیٹیں جیت کر آنا اور پورے اُترپردیش میں ماں بیٹے کے علاوہ سب کا ہارنا اتنا بڑا سانحہ تھا کہ سال دو سال کانگریس کو دوسرے درجہ کی پارٹی بن گذر کرنا چاہئے تھا ضمنی انتخابات میں راجستھان میں چار میں سے تین اور گجرات میں 9 میں سے تین سیٹیں جیتنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پارٹی میں جان آنے لگی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کانگریس کے علاوہ کوئی اور تھا ہی نہیں جسے ناراض ووٹر ووٹ دیتے۔ ضمنی الیکشن سب سے زیادہ معرکہ کا اُترپردیش میں ہوا وہاں کانگریس نے سہارن پور میں اپنا اُمیدوار اُتارکر سماجوادی پارٹی کو ہروا دیا ورنہ اس کی 9 سیٹیں ہوجاتیں کانگریس کے ہاتھ نہ کچھ آنا تھا نہ آیا۔ اس لئے خوش فہمی میں نہ رہیں اور پوار صاحب سے آدھی آدھی سیٹوں پر معاملہ کرکے ختم کردیں۔
اس سے زیادہ بڑی جنگ شیوسینا اور بی جے پی میں چھڑی ہوئی ہے۔ بی جے پی اپنے کو پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت لاکر حکومت بنانے کے بعد اس کی توقع کررہی ہے کہ اس کی معاون پارٹیاں اس کے اشاروں پر ناچیں گی مزید اسے یہ فخر ہے کہ ان کی پشت پر مودی جی کا ہاتھ ہے جو اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ ایک غلطی جو کانگریس 20 برس سے کررہی ہے کہ آنجہانی بال ٹھاکرے ثابت کرتے رہے اور دعویٰ کرتے رہے کہ مہاراشٹر میں حکومت چاہے جس کی ہو یہ صوبہ مرہٹوں کا ہے اور ٹھاکرے خاندان کی میراث ہے۔ بڑے ٹھاکرے کے بعد اودھو ٹھاکرے اُن کے بھتیجے راج ٹھاکرے اور اُن کے پوتے سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ مہاراشٹر ہماری مملکت ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کانگریس حکومت تو وہاں کرتی رہی لیکن ڈرتی بھی رہی اور کبھی مقابلہ پر آنے کی ہمت نہیں کی۔ اودھو ٹھاکرے نے قانون کو بار بار اپنی مٹھی میں لیا اور راج ٹھاکرے نے درجنوں بار قانون کو ٹھوکروں سے مارا اور ایک بار نہیں بار بار کہا کہ حکومت میں ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرکے دکھائے اور حکومت ہمت نہیں کرسکی۔
یہی وہ طاقت ہے جو امت شاہ کو کسی گنتی میں نہیں لانے دیتی اور جب انہیں شری نریندر مودی سے لڑوانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اودھو ٹھاکرے یاد دلاتے ہیں کہ جب 2002 ء میں سب کہہ رہے تھے کہ مودی ہٹاؤ تو صرف میرے باپ بال ٹھاکرے کی آواز گونجی تھی کہ مودی نہیں ہٹیں گے یعنی یہ احسان ہے مودی پر۔ دوسری بات یہ کہ شیوسینا سمجھ رہی ہے کہ اگر اس بار وزیر اعلیٰ کی کرسی نہیں ملی تو کبھی نہیں ملے گی اور اگر اس بار مل گئی تو مہاراشٹر واقعی خاندان کی جاگیر بن جائے گا۔
ہمارے دستور نے ہمارے نزدیک ایک بہت بڑی غلطی کی ہے کہ مرکز میں وزیر اعظم اور صوبوں میں وزیر اعلیٰ کو اتنے اختیارات اور اتنی طاقت دے دی ہے کہ وزیر اعظم اپنے کو شہنشاہ سمجھنے لگتے ہیں اور وزیر اعلیٰ خودمختار صوبہ دار۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے وزیر جو اُتنے ہی محترم ہونا چاہئے تھے ذاتی ملازم بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے اندرا جی کا زمانہ بھی دیکھا ہے اور اب برسوں کے بعد پھر وہی لوٹ کر آگیا ہے کہ وزیر کو کار، بنگلہ، عیش آرام، شان و شوکت سب کچھ ملے گا بس اختیار نہیں ملے گا۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ہر سکریٹری سے کہہ دیا کہ کسی وزیر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اگر وہ غلط کام کرائے تو مجھ سے اس کی شکایت کردینا۔ اس کے بعد مرکزی وزیر کتنے کام کھلے ہاتھ سے کرسکیں گے یہ سب سمجھ سکتے ہیں۔ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے پارلیمانی الیکشن سے پہلے چار مسلمانوں کو کابینہ کا درجہ دیا پھر کئی مہینے کے بعد انہیں محکمہ دیا پھر انہیں حکم دیا کہ اب پارلیمنٹ کا الیکشن جتاؤ۔ نتیجہ کے طور پر جب سب ہار گئے تو اُن سے معقول محکمے واپس لے لئے ایک صاحب کے پاس بیسک تعلیم تھی کسی نے ان کی شکایت کردی کہ انہوں نے پارٹی کے اُمیدوار کو کوشش کرکے ہروایا تو اُنہیں ذاتی ملازم کی طرح سزا دی گئی اور مچھلی پالن کا محکمہ دے دیا وہ شاید مچھلی کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ دستور کی اس نوازش کی بناء پر وزیر اعلیٰ کی کرسی کی لڑائی عروج پر ہے اور ہڈی ایک ہے دانتوں سے اُٹھانے کے دعویدار چار۔

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے