قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

اس فساد کو فرقہ وارانہ فساد کے بجائے ایک سیاسی فساد کہا جائے تو غلط نہیں ہوگاکیونکہ روز اول سے اس کو سیاسی رنگ دیکر اس پر تمام پارٹیوں نے خوب سیاست کی اور اپنے مفاد کیلئے ایک دوسرے کوذمہ دار قراردیا لیکن ان مظلومین کو ان الزام تراشی سے کیا فائدہ ہوا یہ سوال سب سے اہم ہے؟۔اس فساد میں سینکڑوں ہلاک اور لک بھگ 60ہزار سے زائد مسلمان بے گھر ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد آج بھی مختلف مقامات پر قائم عارضی پناہ گزیں کیمپوں میں ناقابل بیان حالات میں رہنے پر مجبور ہے اوران لوگوں کا کا کوئی پرسان حال نہیں ۔
ان عارضی کیمپوں میں جانے کے بعد یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ فسادات کو دس ماہ گزرگئے کیونکہ وہاں کی زندگیاں جوں کی توں ہیں ،وہی ہنگامی حالات، وہی پریشانی اور تکلیف، جس کا لفظوں میں اظہارکرنا ناممکن ہے ۔پناہ گزینوں کے پاس آج بھی نہ سرچھپانے کیلئے جگہ ہے اور نہ ایک وقت کے کھانے کا انتظام ،نہ تن ڈھکنے کیلئے کپڑے ،نہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی اسکول یا مدرسہ ،ہر طرف افراتفری کا ماحول ،جس خوف اور ڈر کی وجہ سے ان کیمپوں میں پناہ لیا تھا وہی گھبراہٹ اور دہشت آج بھی ان کے دلوں میں ہے، کل تک وہ جاٹ سے ڈرتے تھے اور آج سرکاری افسران سے، کیونکہ آئے دن سرکاری زمین خالی کرانے کے بہانے ضلع انتظامیہ کی دھمکی اور سختی نے ان مظلوموں کا جینا دوبھرکردیا ہے ۔ابھی حال ہی میں کاندھلہ عیدگاہ کیمپ کے بعد روٹن کیمپ پر محکمہ جنگلات کے افسران نے اچانک بغیر کسی اطلاع کے بلڈوزر چلوا دیا اورمتاثرین پناہ گزینوں کو سامان تک نکالنے کا موقع نہیں دیاگیا ۔یہاں رہ رہے 42خاندان پر مشتمل تمام متاثرین اب درختوں کے سایے یا پھر کھلے آسمان کے نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبورہیں ۔
فسادکے بعد جس طرح سے دنیا بھر کے انسانی ہمددری رکھنے والے لوگوں نے ان مستحقین کی مدد کی اس کی مثال نہیں ملتی ہے لیکن اس وقتی مدد سے ان کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ وہ آج بھی پر یشانی اور لاچاری میں زندگی گزاررہے ہیں۔ہر طرف سے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے ،سرکاری امداد کے نام پر اب تک ان میں سے بہتوں کو کچھ بھی نہیں ملا بلکہ یوپی حکومت نے جس امداد کوبانٹنے کی کوشش کی اسے اونٹ کے منھ میں زیرہ کہاجائے تو بہتر ہوگا ۔ان کیمپوں میں رہ رہے لوگوں سے ملنے اور بات چیت کرنے کے بعد یہی اندازہ ہوتاہے کہ وہ آج بھی امیدوں کی زندگی جی رہے ہیں ۔سرکاری یقین دہانی کے باوجود اپنے گھر لوٹنے پر راضی نہیں ہیں کیونکہ اس علاقے میں جس نفرت انگیز ماحول کو عام کردیا گیاہے، اسے ختم ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں ۔یوپی میں برسراقتدار اکھلیش سرکار نے جس سوتیلے پن کے ساتھ ان مظلوموں کو نظر انداز کیا اس کا خمیازہ وہ بھگت رہی ہے، اوراسے آنے والے وقتوں میں مزید بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہیے ۔
ملائم سنگھ کی پارٹی نے مظفرنگر فساد پرجورویہ اپنا ہے وہ صرف متاثرین کے ساتھ دھوکہ نہیں بلکہ پوری قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے اور اسی دھوکہ اور مذاق نے اسے پارلیمانی الیکشن میں ناکامی کاسیاہ دن دیکھنے پر مجبور کیا ہے ۔یوپی سرکار آج بھی ان کیمپوں میں پناہ گزیں ہزاروں متاثرین کو فساد متاثرین ماننے سے انکار کررہی ہے ، یہ سراسر زیادتی اور ناانصانی نہیں تو اور کیا ہے ۔مظفرنگر فساد پر بہت سارے سرکاری احکامات جاری کئے گئے لیکن آج بھی مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے شرپسندعناصر کھلے عام گھوم رہے ۔ریاستی حکومت کی نا اہلی نے اس فساد کے بعد کئی ایسے سوالات کھڑے کردئے ہیں ،جن کا جواب دینا سرکار کیلئے مشکل ہی نہیں،ناممکن ہے ۔اگر اخلاقی طور پر گجرات فساد کیلئے نریندر مودی کو ذمہ دار قراردیا جاسکتا ہے، تو پھر مظفرنگر فساد کیلئے اکھلیش کو کیوں نہیں ؟
مگرمسئلہ صرف الزام تراشی کا نہیں، بلکہ ان مظلومین کے مسائل حل کرنے کا ہے ،سرکار چاہے جس کی ہو، لیکن ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے ،زمینی حقیقت سے اوپر اٹھ کر اکھلیش سرکار نے جو فیصلے لئے انھیں بچکانہ فیصلے کے علاوہ کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔یوپی میں امن کے دشمن جس سوچ وفکر سے کام کررہے ہیں وہ انتہائی افسوس ناک اور تسویش ناک ہے اس کے خلاف جب تک سخت قانونی کاروائی نہیں کی جائی گی اس وقت تک حالات پر قابو پانا بہت مشکل ہے ۔آج بھی مغربی اترپر دیش کے اکثر اضلاع میں جانے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کبھی بھی ،کسی بھی وقت فساد ات ہوسکتے ہیں ،کیونکہ فسادی کے حوصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انھیں قابو میں کرنا سرکارکیلئے آسان نہیں ہے ۔
ان حالات میں سرکار سے زیادہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پہلو پر غوروفکرکریں کہ آخر ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟جو لوگ متاثرین اور مظلومین ہیں اس کی کس طرح مدد کی جائے تاکہ وہ چین وسکون کی زندگی جی سکیں ۔رمضان المبارک جیسا خیر وبرکت کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، لیکن ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں میں بہت سے ایسے بھی ہیں ،جن کے پاس افطار تک کیلئے کچھ نہیں ہے ،فاقہ کشی پر مجبور ہیں،ہمارا دینی ، مذہبی،اخلاقی و انسانی فریضہ ہے کہ ہم ان مظلومین کی مدد کرکے انسانی ہمددری کا ثبوت پیش کریں ۔ 
ہماری ملی تنظیموں میں سے، چندایک کو چھوڑ کر، اکثریت نے مظفرنگر فساد متاثرین کیلئے اخباری بیانات کے علاوہ کچھ نہیں کیاہے، ان تنظیموں کے ذمے داران اوردیگران تمام اہلِ خیر اور ملی دردمندی و فکرمندی سے سرشار مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ ان مظلومین کے مسائل کے حل کیلئے آگے آئیں، نہیں تو وہ آئندہ اس سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے ،کیونکہ بظاہر ان کے حالات بہتر ہونے کی توقع کرنا فضول ہے ،اگرہم نے اپنی قوم اس زخم خوردہ عضو کی صحت یابی کا بیڑہ خود نہیں اٹھایا،تومستقبل میں ان کے سروں سے گزرنے والی کسی بھی آفت کے ذمے دار سرکار سے زیادہ ہم سب خود ہوں گے۔

«
»

بے قصوروں کو پھنسانے والوں کوسزا کب ملے گی؟

عرب بہار پر خزاں لانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے