عارف عزیز سچرکمیٹی کی رپورٹ میں وقفیہ املاک کی مجموعی تعداد کو پانچ لاکھ کے قریب بتایا گیا ہے، یہ چھ لاکھ ایکڑ آراضی پر ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جن کا مناسب تحفظ کرکے واقفین کی منشا کے مطابق کارگر استعمال ہوتو مسلم قوم کے تعلیمی، سماجی، اور اقتصادی مسائل کا […]
سچرکمیٹی کی رپورٹ میں وقفیہ املاک کی مجموعی تعداد کو پانچ لاکھ کے قریب بتایا گیا ہے، یہ چھ لاکھ ایکڑ آراضی پر ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جن کا مناسب تحفظ کرکے واقفین کی منشا کے مطابق کارگر استعمال ہوتو مسلم قوم کے تعلیمی، سماجی، اور اقتصادی مسائل کا حل برآمد ہوسکتا ہے اور وہ ایک خود کفیل قوم بن کر اُبھر سکتی ہے، لیکن ہندوستانی مسلمان دوسرے معنوں میں بڑے بدنصیب ہیں کہ ایک لاکھ ۰۲ ہزار کروڑ روپے مالیت کی مذکورہ املاک میں سے بیشتر ناجائز قبضوں کی گرفت میں ہیں یا اُن سے ہونے والی آمدنی نہایت حقیر ہے، لہٰذا نہ تو ملت کے لئے اُن کا صحیح استعمال ہورہا ہے، نہ جتنی آمدنی اُن سے ہونا چاہئے، وہ ہو رہی ہے۔ ایسے معاملات بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ وقفیہ آراضی کا درست اندراج نہیں ہوا ہے، نہ اُن کی دیکھ بھال کا معقول بندوبست ہے۔ ریاستی وقف بورڈ جن کے ذمہ وقفیہ املاک کے انتظام و انصرام کا کام ہے، اُن میں بھی ایسے عناصر اثر و نفوذ پاگئے ہیں جو خود بدعنوان ہوتے ہیں یا ذاتی مفادات کے لئے بدعنوانوں کی پشت پناہی کا کام انجام دیتے ہیں، وقف پراپرٹی کے بے جا استعمال سے خود مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں بلکہ اغیار کے ساتھ وہ بھی اُنہیں تباہ و برباد کرنے میں پیش پیش ہیں، وقفیہ املاک کے سب سے زیادہ بے جا استعمال کی ایک صورت اُن پر سرکاری قبضے میں، جس میں ریاستی اور مرکزی حکومتیں دونوں مساوی طور پر شریک ہیں کہ اُنہوں نے مرے ہوؤں کا مال سمجھ کر ان پر اپنے دفاتر، عمارات اور سڑکیں تعمیر کر لی ہیں، اِس کے بعد جو اراضی باقی بچی اُسے اُونے پونے نجی کمپنیوں کو الاٹ کر دیا ہے، وقت کے ساتھ جس رفتار سے زمینوں کی قیمتوں کا نرخ بڑھ رہا ہے، اُسی تیزی کے ساتھ بیجا استعمال میں بھی اضافہ ہورہا ہے، ممبئی، حیدرآباد، جے پور، کلکتہ، بھوپال، لکھنؤ، بنگلور اور پنجاب و ہریانہ میں اِس نوع کے معاملات کافی بڑھ رہے ہیں، جن پر اعتراض بھی ہوئے اور احتجاج بھی لیکن تمام غیر مؤثر ثابت ہوچکے ہیں۔ دارالحکومت دہلی پر نظر ڈالیں تو یہاں کی وقفیہ جائیدادیں آزادی کے پہلے سے حکومت کے قبضے میں ہیں، اِن متروکہ جائیدادوں کو جو اگر لوٹا دی جائیں تو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے درجنوں اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم ہوسکتے ہیں، مسلم طلباء کے لئے بڑی تعداد میں ہوسٹل بن سکتے ہیں، کئی مسافر خانے تعمیر ہوسکتے ہیں، ٹیکنیکل اور پروفیشنل انسٹی ٹیوٹ شروع ہوسکتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک فیکٹریاں کھڑی ہوسکتی ہیں، ایک اندازہ کے مطابق صرف نئی دہلی کی ستر فیصد اراضی حکومت کے قبضہ میں ہے یہانتک کہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ مسلم وقف بورڈ کی زمین پر بنی ہے، نیشنل میوزیم کی تعمیر وقف کی آراضی پر ہوئی ہے اور نہ جانے کتنی تاریخی عمارتیں پہلے مسلم وقف کے نام درج تھیں، نئی دہلی کی تاریخی سرائے کالے خاں کے قریب سابق وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشت نے پانچ سال پہلے شہر کا سب سے بڑا ملینیم پارک بنوایا تھا، وہ مسلم قبرستان پر بنا ہے، اِسی طرح دہلی میں اولیاء کرام کی درگاہوں کے ارد گرد متعدد زمینیں، درگاہوں سے وابستہ افراد کے زیرِ تصرف ہونے کی وجہ سے وقف تھیں لیکن آج اُن پر قبضے ہوچکے ہیں، ہندو اتنہا پسند تنظیموں ہندو مہاسبھا اور وشو ہندو پریشد نے بھی مسلم وقف کی اربوں روپے مالیت کی املاک پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں، دوسری طرف مسلمان بے چارگی اور بے بسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ اُن کے اندر نہ تو حکومت سے لڑنے کی طاقت ہے، نہ فسطائی طاقتوں سے مقابلہ کی سکت ہے، صورتِ حال اِتنی سنگین ہوچکی ہے کہ دارالحکومت کے بیشتر مقامات پر مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے لیکن اُن کے لئے اپنے مُردے دفنانے کی جگہ نہیں، شاہین باغ، ابوالفضل انکلیو اور مالویہ نگر کے مسلم علاقوں کے مسلمانوں کو مردوں کی تدفین کے لئے دور دور تک جانا پڑتا ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں