کاغذات مال میں قلعہ کا کل رقبہ چونسٹھ کنال تیرہ مرلہ ہے وقت کے ساتھ ساتھ قلعہ کو سطح بہ سطح آنے والے حکمران وسیع کرتے رہے۔ قلعہ کا بیرونی دروازہ نہ تو مزین ہے اور نہ ہی مرصح البتہ مضبوطی و پائیداری میں اپنی مثال آپ ہے کبھی اس پر نقش و نگار رہے ہوں گے لیکن اب ناپید ہیں دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ڈیوڑھی کے دونوں جانب برج ہیں جس کے نیچے تہے خانے اور دو منزلہ ہیں۔ مشرقی جانب کی کھڑکیوں میں پتھر کی جالی لگی ہوئی ہے ڈیوڑھی سے اندر جانے کے لیے دو دروازے ہیں ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔ بائیں جانب چند قدم چلنے کے بعد ایک کنواں موجود ہے جو شاہی قافلوں اور تھکے ماندے گھوڑوں کی پیاس بجھانے کے لیے بنایا گیا تھا اس کنوئیں کا قطر آٹھ فٹ اور گہرائی اٹھاون فٹ ہے یہ کنواں ابھی تک اصل حالت میں موجود اس کا ڈھلوان راستہ جنوبی دیوار کے ساتھ ساتھ دوسری منزل کی طرف جاتا ہے اس راستے ہم بآسانی جنوب مغربی برج پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس برج کے ساتھ محافظوں اور سپاہیوں کے کمرے تھے جو آج ناپید ہیں تاہم ان کی دیواروں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں جن پر چھت قائم ہے۔ تہہ خانوں کی چھتیں ڈاٹ دار اور گنبد نما ہیں جو اچھی حالت میں ہیں باہر سے ہوا اور روشنی کے لیے جنوبی دیوار میں گیارہ کھڑکیاں کھلتی ہیں تہہ خانوں کی چوڑائی 10 فٹ ہے۔1950ء میں جب پنجاب کانسٹیبلری نے یہاں قیام کیا تھا تو یہاں ایک مزار دریافت ہوا یہ سفید پتھر سے بنی ہوئی قبر ہے جس کے کنارے پر فارسی زبان میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے اس پر سخی شاہ شرف معصوم بادشاہ لکھا ہوا ہے چھت کے ساتھ ایک خوبصورت شمع دان بھی لٹکتا ہوا دیکھا گیا وہاں سے ایک قلمی مسودہ بھی ملا جو فارسی میں تھا۔ ڈیوڑھی سے آگے بڑھیں تو چودہ فٹ چوڑا راستہ ملتا ہے جس پر چھوٹی چھوٹی اینٹوں کی سولنگ لگی ہوئی ہے اس راستے کے مغربی کنارے پر نصف درجن تک ملازمین کے کمرے ہیں۔ قصر شاہی صدیوں کے گرم سرد، زلزلوں کے صدمات اور تباہ کاریوں کی دست برد سے کسی حد تک محفوظ ہے تاہم کچھ حصے گر چکے ہیں لیکن جلال اور عظمت اس حصے کو اب بھی حاصل ہے جو اس دور میں کبھی رہی ہوگی دیواروں پر حسین و منقش تصاویر جا بجا نظر آتی ہیں ان پر فارسی زبان میں اشعار کی خطاطی دل کو بہت بھاتی ہے دیواروں پر ان نفیس و نازک نقوش کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے صدیوں گزر جانے کے باوجود اس کے حسن و رعنائی میں نمایاں فرق نظر نہیں آتا۔ جہانگیر محل سے ملحقہ ایک زنان خانہ ہے جسے ملکہ محل کہا جاتا ہے یہ حصہ نصف سے زیادہ گر چکا ہے لیکن اس میں داخل ہونے کا راستہ موجود ہے وہاں پر مغل اور سکھ دور کی نادر تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں ملکہ کے محل کے اوپر ایک شیش محل تھا ابھی تک وہ چھت تو کسی حد تک موجود ہے لیکن اوپر جانے کا راستہ محدود ہے۔ ایک روایت کے مطابق قلعہ کے شمال مغربی برج کے اندر سے ایک سرنگ ہرن مینار تک جاتی بیان ہوتی ہے اگرچہ صحیح مقام کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا مگر اتنا ضرور ہے کہ جب وارڈ نمبر 6 میں آبادی کا کام ہو رہا تھا چند ایک بنیادیں کھودتے وقت ایسے آثار ملے جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ نیچے کوئی دیوار ہے۔ جس کا رخ ہرن مینار کی جانب ہے۔ مغلوں کے زوال کے بعد اس قلعے کی تاریخ گمنام سی ہوگئی اور برصغیر میں بدامنی روزمرہ کا معمول بن گئی یہ سلسلہ برسر پیکار حاکموں کی پناہ گاہ بن کے رہ گیا اور قلعہ شیخوپورہ کی بنیاد تقریباً دو سو سال بعد 1806ء میں اوبل سنگھ اور امیر سنگھ کے قبضے میں آگیا۔ اوبل سنگھ اور امیر سنگھ اس علاقے میں بدامنی کا سبب بنتے رہے اور رنجیت سنگھ، حاکم پنجاب ہوا تو اوبل سنگھ کو اس قلعے میں اپنا دفاع کرنا پڑا۔ قلعے کی تسخیر کا یہ کام آخر کار امرتسر کے بھنگی قبیلے کی حاصل کردہ احمد شاہ ابدالی کی بھنگیوں کی اسی توپ نے کر دکھایا۔ بیرونی دروازے توڑ کر مہاراجے کا لشکر قلعے میں داخل ہوا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے قلعہ کی تسخیر کے بعد اسے اپنے سپوت کھڑک سنگھ کے حوالے کر دیا۔ کھڑک سنگھ کی والدہ یہاں قیام پذیر ہوئی وہ ایک ذہین ملکہ تھی اور مہاراجہ کی نظروں میں ہمیشہ بلند رہی عقل مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس نے زمینوں کو جو بھیٹوں اور ورکوں کے جھگڑوں میں غیر آباد رہیں کسانوں میں بانٹ کر ان کی وفاداریوں کو موہ لیا۔ رانی نائکہ پنجاب کے ناکائی سردار کی بہن تھی جب یہ رانی قلعہ میں قیام پذیر ہوئی تو قلعہ کی تعمیرات خاک ہو چکی تھیں اس کی بنیادوں کو اس نے اونچا کروا کے اپنے لیے محل بنوایا۔
جواب دیں