مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد سولہویں صدی عیسوی میں فرانس کے انقلاب ہی سے دنیا کے اکثر ملکوں سے شاہی نظام یعنی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا اور عصرِ حاضر کی جمہوریت کی داغ بیل پڑی، اس نئی جمہوریت نے جاہلیت میں ڈوبی اور ظلم کی چکی میں […]
سولہویں صدی عیسوی میں فرانس کے انقلاب ہی سے دنیا کے اکثر ملکوں سے شاہی نظام یعنی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا اور عصرِ حاضر کی جمہوریت کی داغ بیل پڑی، اس نئی جمہوریت نے جاہلیت میں ڈوبی اور ظلم کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت کے لیے قدرے راحت کا سامان تو پیش کیا؛ لیکن امتِ مسلمہ کے لیے یہ جمہوریت اور سیکولرزم پر مبنی حکومت موت و زیست کا مسئلہ بن گیا، اس نے دین و سیاست میں جدائی پیدا کردی، نتیجتاً عالم اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، اور ۱۹۲۳ء میں امت اسلامیہ کا متحدہ پلیٹ فارم خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، اور فلسطین جیسے مقدس شہر پر اسلام کے کٹر دشمن یہودیوں کو قبضہ دلایا گیا۔
فلسطین کا مسئلہ عالمِ اسلام کا ایک رستاہوا ناسور ہے، تقریباً ایک صدی سے یہ کہانی جاری ہے، نومبر ۱۹۱۷ء میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ کے خارجہ امور کے سکریٹری بالفور (Mr. Bolfore) نے حکومت برطانیہ کی طرف سے ایک اعلان کیا، جو "اعلان بالفور" کہلاتا ہے، جو مسٹر روتھس چائلڈ (Roths Chiled) کے نام ایک خط کے ذریعہ منظر عام پر آیا، اس اعلان کے مطابق صیہونی لیڈروں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کو ایک علیحدہ وطن دیا جائے گا، کونسل آف لیگ آف نیشنز (اس وقت کی اقوام متحدہ) نے ۲۲/جولائی ۱۹۲۰ء کو فلسطین پر قانونی حکومت کا اختیار برطانیہ کو دے دیا، اسی اختیار کے ساتھ ہی یہودیوں نے دنیا کے مختلف گوشوں سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی، ۱۹۳۹ء میں برطانیہ نے یہودیوں کی اس نقل مکانی کو محدود کرنا چاہا؛ مگر اس سلسلہ میں اسے صیہونیوں کی دہشت گرد تنظیموں اور امریکہ کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، ۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل حکومت کا سوال اٹھایا، اور ۲۹/مئی ۱۹۴۷ء میں جنرل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کی قرارداد منظور کی گئی، ۱۵مئی۱۹۴۸ء میں برطانیہ نے مکمل طور پر فلسطین سے دستبرداری کا اعلان کردیا اور اسی تاریخ کو اسرائیلی ریاست کا بھی اعلان کردیا گیا، اس وقت سے آج تک اسرائیل اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، سرزمین فلسطین ایک ایک چپے پر دھیرے دھیرے غاصبانہ قبضہ کرتا جارہا ہے، وہاں کے باشندوں پر ان کی زمین تنگ کی جارہی ہے، ایک دن بھی انہیں چین وسکون کی زندگی نصیب نہیں ہورہی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے توسیع مملکت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے فلسطینی نہتے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، بچے، بوڑھے، عورتیں، جوان سبہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جھوٹے جھوٹے الزامات لگا کر ان پر بمباری کی جاتی ہے، میزائیل داغے جاتے ہیں، ان کی آبادیوں پر بلڈوزر چلا دیے جاتے ہیں، اپنے حقوق کے مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد اور جنگجو کہا جاتاہے، انہیں گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑایا جاتا ہے، اذیتیں دی جاتی ہیں، ایسی ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جن کے بیان سے انسانیت شرمسار ہوجائے۔ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو نیست ونابود کرنے، دیگر مسلم ممالک پر قابض ہونے اور انہیں غلام بنانے کے منصوبے پر پوری طرح عمل پیرا ہے، اسرائیل مشرق وسطیٰ کے پورے مسلم علاقوں کو اور اس پورے حصہ کو اپنی میراث سمجھتا ہے، جس کا اظہار اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر لکھا ہوا یہ جملہ کرتا ہے: "اے اسرائیل! تیری سرحد نیل سے فرات تک ہے"۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیلی حکومت یورپ و امریکہ کی ناجائز اولا د ہے، جسے مسلمانوں کے خلاف تیار کیا گیا ہے؛ لیکن یہ ایسی قوم ہے جو کبھی بھی کسی کی ہوئی ہے اور نہ ہوگی، اس کی اصل دشمنی تو اسلام اور مسلمانوں سے ہے؛ لیکن حقیقتاً بلا تفریق مذہب و ملت وہ سارے انسانوں کو اپنا غلام سمجھتی ہے، اپنے مفاد کی خاطر کسی سطح تک بھی وہ جاسکتی ہے، یہ وہ قوم ہے جس نے اپنے معصوم انبیا تک کو شہید کرڈالا، ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے اوران کے ساتھ ایسی نازیبا حرکتیں کیں جن کو بیان کرنے کی قلم میں بھی طاقت نہیں، لکھنے سے پہلے ہی اس کی روشنائی خشک ہوا چاہتی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان پر بہت سارے عذاب بھیجے۔ بے وفائی، دھوکا دہی، غداری، عہد شکنی ان کی سرشت میں داخل ہے، انہی کرتوتوں کی وجہ سے ہٹلر نے گیس کے چیمبر میں ڈال کر دس لاکھ یہودیوں کو مارڈالا تھا اور اس کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ: "میں کچھ یہودیوں کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دے رہا ہوں؛ تاکہ دنیا ان کو دیکھ کر یہ جان لے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا"۔ یہودیوں نے تواپنے سب سے بڑے آقا امریکی صدر کو بھی نہیں چھوڑا، ۱۹۶۰ء کے بعد جب امریکہ سے اسرائیل کے تعلقات کچھ خراب ہونے لگے تھے اور امریکی صدر جان ایف کنیڈی نے اسرائیل سے جوہری پروگرام کی تفصیل بتانے کا مطالبہ کیا تھا، تو اسرائیل نے جوہری اسلحوں کی تیاری کے سلسلے میں اس قدر بے لگام اور مغرور ہونے کا ثبوت پیش کیا کہ اس نے اپنے سب سے بڑے معاون اور سرپرست امریکہ کے صدر کنیڈی ہی کو اپنے جاسوسوں کے ذریعہ قتل کروادیا، اس کے بعد سے آج تک کسی امریکی صدر نے جوہری اسلحہ کے سلسلہ میں کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا (تفصیل کے لیے دیکھیے: ایک اسرائیلی مصنف کی کتاب "اسرائیل اینڈ دی بم")۔
ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ اسرائیل سب سے بڑا ظالم ہے، وہ تو ساری انسانیت کے لیے زہریلا سانپ ہے اور سانپ جب ڈسنے پر آتاہے تو سپیرا کو بھی ڈس لیتاہے، اسے بھی نہیں چھوڑتا۔ یہ اقوامِ متحدہ تو صرف کٹھ پتلی ہے، اس کے خاکوں میں رنگ بھرنے کا کام تو یہود اور ان کے پروردہ حضرات ہی کرتے ہیں۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ جب اللہ نے ہم مسلمانوں کو دنیا کے ایک بڑے رقبے کی حکومت سونپی، تو ہمیں اسلامی قوانین کو اپنی سرزمین میں نافذ کرکے، اتحاد کا ثبوت دے کر عمدہ مظاہرہ کرنا چاہیے تھا؛ لیکن صورتِ حال بالکل برعکس ہے، ہر مسلم حکمراں الگ الگ اپنی ڈفلی بجارہا ہے، اسے دنیا کے مختلف خطوں کے مظلوم مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں۔ نبی ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ: "اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم"، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں؛ لیکن اگر ظالم ہو تو مدد کرنے کا کیا مطلب ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "اس کو ظلم کرنے سے روکو، یہی اس کی مدد کرنا ہے"(بخاری:۶۹۵۲)۔ اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اول اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے، یعنی دل سے برا سمجھے اور دل میں یہ ارادہ رکھے کہ اللہ تعالی جب بھی قدرت دیں گے، وہ اسے روکنے کی کوشش کر ے گا‘‘(ابوداؤد: ۴۳۴)۔
اے میرے مسلم حکمرانو! اگر تم عام برائیوں اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز نہیں اٹھاسکتے ہو، تو کم از کم اپنے ان بھائیوں کی حمایت میں تو آواز اٹھاؤ، جنہیں نبی ﷺنے ایک کلمہ کی بنیاد پر جوڑا ہے اور قرآن نے بہترین امت (خیرِ امت)کا لقب دیا ہے، یوں تو ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، یا کم از کم برائی کو برائی سمجھنا، سماج کے ہر انسان کی ذمہ داری ہے؛ لیکن میں آپ حضرات سے اس وجہ سے مخاطِب ہوں کہ اللہ نے آپ کو مملکت وسلطنت دے کر آپ کی ذمہ دار ی دو بالا کردی ہے، وہ آپ حضرات سے پوچھے گا اور یقیناً پوچھے گا کہ فلسطین لہو لہو تھا، غزہ کو شہر خموشاں بنایا جارہا تھا، معصوم بچوں کے نرم و نازک جسم خون میں لت پت تھے، بوڑھوں کے بڑھاپے پر رحم و کرم نہیں کیا جارہا تھا، عورتوں کی عزت و ناموس نیلام کی جارہی تھی، ان کی عفت وعصمت کی چادریں تار تار ہورہی تھیں، ایک طرف فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یہ ہورہا تھا، تو دوسری طرف ملکِ افغانستان میں مسلمانوں کے ناحق خون بہائے جارہے تھے، عراق میں اپنوں کو آپس میں لڑایا جارہا تھا، خود کش حملوں کے ذریعہ عام شہریوں کو ہلاک کیا جارہا تھا، مصر میں ایک دیندار باغیرت وبا حمیت، صاحبِ ایمان کی منتخب حکومت کا تختہ چند بے دین وبے غیرت افراد کے ذریعہ پلٹ دیا گیا، اور اخوان المسلمون جیسی خالص اسلامی معتدل ومتوازن تحریک کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور ہائے افسوس تم سب تماشائی بنے رہے، ان ظلم وزیادتی کو دیکھ کر با غیرت مسلمان خون کے آنسو رو پڑتے ہیں، کلیجہ منھ کو آجاتا ہے؛ لیکن تم ہو کہ خوابِ خرگوش میں پڑے ہوئے ہو، اس بربریت کو دیکھ کر تمہارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، اتنے سنگ دل ہوگئے ہو کہ مظلوموں کی دردناکی و کرب ناکی دیکھنے پر بھی تمہارا دل نہیں پسیجتا، اگر کبھی بہت احسان کیا تو مگر مچھ کے دو آنسو بہالیے، کیا تمہیں قیامت کی یاد نہیں آتی؟ حساب و کتا ب کا کبھی خیال نہیں آتا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا حساب وکتاب ہونا ہے، اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے، ایسا نامۂ اعمال ہوگا جو چھوٹے بڑے کسی بھی عمل کو نہیں چھوڑے گا، انسان حیران وپریشان اس کتاب کو دیکھتا رہ جائے گا(الکہف:۴۹)۔
اے سربراہانِ عرب! عجم نے تو اپنی زبان کھولی، تحریر و تقریر کے ذریعہ حق کا اظہار کیا، ترکی کا مردِ آہن بول پڑا،؛ لیکن قطر کے علاوہ تم سب کی زبانوں پر تالے پڑے رہے، تمہاری زیادتی تو اس حد تک ہوگئی کہ جب قطر نے اخوان المسلمون کا ساتھ دیا، ا س کی حمایت میں بات کی ، تو تم پورے خلیجی ممالک نے یک جُٹ ہوکر اس کا بائیکاٹ کردیا، اس سے تعلقات توڑ دیے۔ ذرا سوچو تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟ تمہارے مالی امداد ، رفاہی کام اور صدقات وخیرات کے ذریعہ دنیا بھر کے لوگوں کا تعاون کرنے کا ہمیں انکار نہیں، ساری دنیا اسے مانتی اور تسلیم کرتی ہے، میں بھی بذاتِ خود اسے سراہتا ہوں؛ لیکن آخر یہ کونسی پارسائی ہے کہ گلستاں کو جب خون کی ضرورت پڑرہی ہے، تو آپ نظریں چرارہے ہیں، ایک کمزور و ناتواں انسان ظلم کی چکی میں پِس رہا ہے اور آپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، یہی نہیں؛ بلکہ آپ دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں،
سعودی عرب، کویت ، بحرین اور عرب امارات وغیرہ کی سخاوت و فیاضی کا انکار نہیں، ان سب نے مسلم ممالک و تنظیمات کا بہت تعاون کیا، بالخصوص سعودی حکومت نے مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمہ کی طباعت اور حاجیوں کی خدمت کا جو بیڑا اٹھایا ہے اور خدمت کی ہے وہ لاجواب ہے، اگر چہ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ اب سعودی نے حج کو بھی بہت مضبوط طریقہ سے اقتصاد سے مربوط کردیا ہے، جس کی وجہ سے حج وعمرہ کرنا عام لوگوں کے لیے بہت مہنگا ہوگیاہے؛ لیکن افسوس صد افسوس اس پر ہے کہ آج خونِ مسلم کی اس ارزانی پر یہ مسلم ممالک خاموش کیوں ہیں؟ مضبوط قدم کیوں نہیں اٹھا رہے ہیں؟ اسرائیلی حکومت، یوروپی ممالک ، امریکہ اور اقوام متحدہ پر یہ اپنا دباؤ کیوں نہیں ڈال رہے ہیں؟ حالیہ عرصہ میں اقوامِ متحدہ نے بیان کی حد تک ہی جب اسرائیل کی مذمت کردی ہے، تو اب اسے مزید ذمہ داری نبھانے پر مجبور کیوں نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ مستقل جنگ رکوائے، آئندہ اس طرح بے گناہوں کے قتل سے زمین کو پاک رکھا جائے، اور اسرائیل ہمیشہ کے لیے غزہ کو اپنے وجود سے پاک کردے ،کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں:
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اے مسلم حکمرانو! تم اتنے بے حس کیوں ہوگئے؟ ذرا غور تو کرو، کیا تمہارا یہ طور طریقہ اندازِ مسلمانی کا ترجمان ہے؟ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد تجھ میں احساسِ اتحاد کیوں نہیں پیدا ہوا؟ تم نے افغانستان پر امریکہ کے حملہ کو، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کو اور فلسطین میں خون کی ہولی کھیلنے کو کیسے برداشت کرلیا اور کر رہے ہو؟ کیا تم اپنی خاموشی کے ذریعہ یہود ونصاری کو خوش کرنا چاہتے ہو، اگر جواب اثبات میں ہے تو ذرا اللہ تعالی کے اس قول کو ٹھیک سے پڑھ لو : ’’اور نہ تو یہودی آپ سے راضی ہوں گے اور نہ نصاریٰ جب تک آپ ان ہی کے مذہب کی پیروی نہ کرلیجیے، آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصلی ہدایت ہے، اگر آپ اس علم کے آجانے کے بعد بھی ان کی خواہشوں پر چلیں، تو پھر اللہ کے غضب سے آپ کو بچانے والا نہ کوئی دوست ملے گا اور نہ ہی کوئی مددگار‘‘ (بقرہ:۱۲۰)۔ اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اہلِ کتا ب سے دوستی کرلینے سے ہماری بادشاہت و حکومت ہمیشہ رہے گی، تو یہ تمہاری خام خیالی ہے، کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں، حکومت دینا اور چھین لینا، یہ سب اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہے، ذرا قرآن کی اس آیت کو بھی پڑھ لو، نبی ﷺکے ذریعہ ساری امت کو تعلیم دی جارہی ہے: ’’(اے پیغمبر!آپ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیجیے) اور کہیے کہ اے سارے ملکوں کے مالک! آپ جسے چاہیں سلطنت دیں اور جس سے چاہیں سلطنت چھین لیں، آپ جسے چاہیں عزت دیں اور جسے چاہیں ذلیل کریں (ہر طرح کی) بھلائی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے، بے شک آپ ہر چیز پر قادر ہیں‘‘ (آل عمران:۲۶)۔
اے میرے حکمراں بھائیو! چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تو ازل سے ہی رہی ہے، ہمیں بہر صورت چراغِ مصطفوی کو روشن کرنا ہے، اسی میں جینا اور مرنا ہے، وہی ہماری کامیابی کا ضامن ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو زندہ رکھیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ضمیر مردہ ہوچکا ہے، اسی لیے تو ہم ہر زخم کو پھول سمجھ کر چوم لیتے ہیں، اگر یہی صورتِ حال رہی تو ہمارا انجام ادبار و نکبت کے قعر مذلت کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔بے باک داعیٔ وعالم، مفکرِ اسلام مولانا علی میاں ندویؒ نے عالمِ اسلام کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے بہت اہم بات کہی ہے، اسی اقتباس کو نقل کرکے اپنی بات مکمل کرتا ہوں، مولانا لکھتے ہیں:
’’اس وقت عرب قوم اپنی تاریخ کے انتہائی نازک اور اہم مرحلہ سے گزر رہی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ شکست کا مرحلہ ہے، یا مصیبت کا مقام ہے اور میں اس مصیبت سے خوف زدہ نہیں ہوں، دعوت اور پیغام کی حامل قومیں، طویل تاریخ رکھنے والی قومیں، زندہ ضمیر اور روشن اور زندگی سے بھرپور قلب رکھنے والی قومیں ان مراحل سے گزرتی ہی رہتی ہیں، ہم خود اس طرح کے بے شمار مراحل سے گزر چکے ہیں، ہمارے اوپر صلیبیوں نے یلغار کی، تاتاریوں کا طوفان ہمارے سروں پر سے گزر گیا، جب کہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں مسلمان کی آخری سانس بھی نہ رک جائے، پھر بھی وہ مایوسی اور بدشگونی کا مقام نہیں تھا؛ کیوں کہ مومن کا ضمیر زندہ تھا، مومن کی عقل باشعور تھی اور وہ خیر وشر، دوست و دشمن اور مفید و مضر کی تمیز کرسکتا تھا اور اس وقت مسلمان جری، صاف گو اور بہادر تھا۔
میں ان جیسے المیوں سے کوئی خطرہ نہیں محسوس کرتا؛ بلکہ مجھے اصل خطرہ اس ضمیر سے ہے، جس نے اپنا کام کرنا چھوڑدیا ہے، ضمیر کا کام ہے احتساب اور غلطیوں کی گرفت، خواہ وہ اپنے باپ اور بھائی سے سرزد ہوئی ہو، یا کسی ذی وقار پیشوا اور رہنما سے، اگر یہ ضمیر مردہ ہوجائے، اپنا فطری عمل چھوڑدے، اپنی افادیت کھو بیٹھے اور اس میں حقائق کے اعتراف کی صلاحیت باقی نہ رہ جائے، تو یہی سب سے بڑا خطرہ ہے، یہ انسانیت کی موت ہے، ایک انسان مرتا ہے تو ہزاروں انسان پیدا ہوجاتے ہیں؛ لیکن جب ضمیر مردہ ہوجائے، اجتماعی اور قومی ضمیر سے زندگی کے آثار ناپید ہوجائیں، جب قوم سے محاسبہ کی صلاحیت اور جرأت ختم ہوجائے، جب تنقید و احتساب کی جگہ شاباشی اور دادِ تحسین کے پھول برسنے لگیں تو یہ ایسا المیہ ہوگا جس کے بعد کسی المیہ کا تصور ہی ممکن نہیں‘‘۔
———- ——— ———- ———- ——
(مضمون نگار مشہور اسلامی اسکالر، صاحبِ قلم، دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد کے سنیئر استاذ اور متعدد تعلیمی و تربیتی اداروں کے سرپرست اور رکن ہیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں