قومی بجٹ میں مسلمانوں کے ساتھ وشواس گھات

ڈاکٹر سلیم خان

 بجٹ  سے پہلے ہر خاص و عام  بخار کی کیفیت میں  مبتلا ہوجاتا ہے۔ ان کو طرح طرح کے اندیشے ستانے لگاتے ہیں کہ نہ جانے کس سمت سے کون سی آفت وارد ہوجائے اور چین وسکون کو غارت کردے لیکن  بجٹ  کے بعد یہ بخار   ٹایئفائیڈ میں بدل جاتا  ہے۔اس لیے کہ مصائب ایسے راستوں سے آتے ہیں جن کا انہیں  وہم و گمان بھی نہیں  ہوتا۔ اس سال سرخ  ساڑی میں ملبوس  وزیر خزانہ نے جب لال کپڑے میں لپٹا ہوا اپنا بہی کھاتہ کھولا  نہایت   خوشگوار ماحول بن گیا۔ میڈیا چہار جانب خوشی کے شادیانے بجا نے لگااور بالکل شادی خانہ آبادی کی فضا عالم ِ وجود میں آ گئی لیکن  نکاح  کی   مانند بجٹ کی  سراب نما خوشی بھی بہت جلد اسی طرح  تلخ  حقیقت میں تبدیل ہوگئی جیسے شب عروسی کے اگلے دن شوہر نامدار کو اپنی بغیر میک اپ کی بیوی کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔
 اس بار بجٹ کیدوسرے دن  یہی منظر نظر آیا۔ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کرنے والی سرکار نے سب کا وشواس پراپت کرنے کے لیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بھاری اضافہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں  دہلی کے اندر  پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں  بالترتیب 2.45 روپے اور 2.36 روپے بڑھ گئیں۔ اس طرح  پہلے ہی دن پٹرول کی قیمت 72.96 روپے فی لیٹراور ڈیزل کی قیمت 66.69 روپے فی لیٹر ہو گئی۔دہلی تو خیر سرکاری سسرال  ہے اس لیے اس  پر خصوصی نظر کرم ہوتی ہے مگر عروس البلاد  ممبئی میں ایک لیٹرپٹرول 78.57روپئے اورڈیزل 69.09 روپئے پر پہنچ گیا۔ ایندھن کی قیمت  میں اضافہ سے  ضروری اشیاء  کے بھاو کس طرح بڑھتے ہیں یہ بتانے کے عام لوگوں کو کسی ماہر معاشیات کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ وہ اس  کڑوے پھل کا مزہ برسوں سے چکھتے ہیں۔ ووٹ دینے تک یہ پھل میٹھا ہوتا ہے اور اس کے فوراً بعد اچانک کڑوا ہوجاتا ہے۔ 
امسال  میں فروری میں سابق  وزیرخزانہ پیوش گوئل نے عبوری بجٹ پیش کیا تھا جس میں کسانوں اورمتوسط طبقے کے لوگوں کو لبھانے کے لیے بہت سارے  وعدے کئے گئے تھے یہاں تک کہ امیت شاہ نے تو اسے کسانوں اور غریبوں کے لیے وقف بجٹ  قرار دیا تھالیکن  اس وقت   مسلمان پوری طرح نظر انداز کردیئے گئے تھے۔ اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لئے مختص بجٹ میں اضافہ کرنے کے بجائے  مولانا آزاد فاونڈیشن جیسے اداروں کے بجٹ میں تخفیف کرکے اسے 134 کروڑ روپئے سے  گھٹا کر 81 کروڑروپئے کردیا گیا   تھا۔  وزارت برائے اقلیتی امور کا بجٹ بھی  بڑھایا  نہیں گیا۔  یہ رویہ توقع کے مطابق تھا۔ مسلمان چونکہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے اس لیے  انتخاب سے قبل ان کو خوش کرنے میں کوئی فائدہ نہیں تھاالٹا بی جے پی کے شدت پسند رائے دہندگان کے  زخموں پر اس بے رخی  نے  مرہم کا کام کیا۔ ان بھکتوں نے پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر مودی جی کو ووٹ دیا۔ انتخابی کامیابی کے بعد مودی جی ان حامیوں  کو یہ کہہ کر صدمہ پہنچایا کہ نئی حکومت سب کی ہے۔ یہ ان لوگوں  کا بھی وکاس کرکے وشواس حاصل کرے  گی جنہوں نے اس کو ووٹ نہیں دیا ہے۔   مسلمان اس بیان کو سن کر خوش ہوگئے اور کئی رہنماوں نے اس کا خیر مقدم بھی کیا۔
ملک میں اقلیتوں کی آبادی25کروڑ ہے۔اس میں سے 14.2فیصد یعنی  18کروڑ مسلمان ہیں۔ مودی حکومت نے اقتدارمیں آنے کے بعد 5 سال میں اقلیتی بجٹ کے اندر صرف سات فیصد کا معمولی  اضافہ کیا تھا۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں زبردست کامیابی  کے بعد وزارت اقلیتی امور نے بڑی بڑی اسکیموں کا اعلان کردیامثلاً ہر سال  ایک کروڑطلباء  وطالبات کو اسکالرشپ اور گریجویشن مکمل کرنے والی اقلیتی طالبات کوشادی کے موقع پر51ہزار روپئے کاعطیہ وغیرہ۔ ایک اندازے کے مطابق ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کم ازکم 8ہزارکروڑ روپئے  کا بجٹ درکار تھا جو کوئی بہت بڑی بات نہیں تھی کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں پسماندہ طبقات کا بجٹ چھ ہزار دوسوتیرہ کروڑ سے بڑھا کرسات ہزار آٹھ سوکروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ ان امیدوں  پر پانی پھیرتے ہوینرملا سیتا رامن نے اس بجٹ میں  اقلیتی امورکی وزارت اورمدرسہ ٹیچرس اسکیم کے بجٹ میں ایک روپیہ کا اضافہ  نہیں کیا گیا الٹا مولانا آزاد فاونڈیشن اور اسکالرشپ کے بجٹ میں کٹوتی کردی۔
اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو یہ ایک مایوس کن صورتحال نظر آتی ہے۔ مولانا آزاد فاونڈیشن کا بجٹ 123 کروڑ سے گھٹا کر90 کروڑ کردیا گیا ہے۔ مولانا آزاد فیلو شپ کا بجٹ 155 کروڑ سے 153 کروڑکردیا گیا۔ پری میٹرک اسکالرشپ کا بجٹ 1269 کروڑ سے 1220 کروڑ کیا گیا۔ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کا بجٹ گھٹا کر500 کروڑ سے 496 کروڑ کیا گیا ہے۔ میرٹ کم مینس اسکالرشپ کا بجٹ 402 کروڑ سے 366 کروڑکیا گیا ہے۔  اس فہرست میں واحد استثنیٰ پردھان منتری جن وکاس پروگرام  ہے جس کے تحت گزشتہ سال کے 1319 کروڑ روپئے کے مقابلے میں اس سال 1469 کروڑ روپئے خرچ کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر اقلیتی امورکے وزیر مختار عباس رضوی نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی  وزرات کے مجموعی  بجٹ 4700 کروڑ میں کوئی کمی نہیں کی گئی اس لیے کہ اگر ایسا ہوجاتا تب  بھی  وہ کیا کرلیتے؟  
عام بجٹ 2019 کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ وزارت برائے انسانی وسائل کی ترقی کے تحت چلنے والی مدرسہ ٹیچرس اسکیم کا بجٹ اس بار بھی  نہیں بڑھایا گیا۔ مدرسوں  کی سنگین صورتحال کا اندازہ  اس بات  سے لگایا جاسکتا ہے صرف اترپردیش کے 30

«
»

عشق مجازی کی تباہی،اسباب وعلاج اور نقصانات،

سیاسی ناٹک: مطلق العنانیت تھوپنے کی سیاست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے