ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججس کے تقررات کے 20 سال پرانے رائج العمل طریقہ کار میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی اور اس کے برخلاف ایک بالکل نئے طریقہ انتخاب کو متعارف کیا جانا ایک ایسا عمل ہے جس نے اْن لو گوں کو چوکنا کر دیا ہے جو متفکر ہیں کہ کہیں مقننہ عدلیہ پر غالب نہ آجائے۔ عدلیاتی نظام سے وابستہ ایک طبقہ اس تبدیلی کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے برخلاف بھی تصور کرتاہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہی تشویش اور فکر ان لوگوں کو بھی ستا رہی ہے جوخود لگ بھگ اسی نوعیت کی تبدیلی کے خواہاں اور اس کے نفاذ کے لیے سرگرم ومتحرک تھے۔
آئین کی دفعہ 50 کے مطابق ’’مملکت اپنی سرکاری ملازمتوں میں عدلیہ کو عاملہ سے علیحدہ کرنے کے لیے اقدامات کرے گی‘‘ نیزدفعہ 124(2) اور دفعہ 217 میں صراحت ہے کہ صدر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججس کے تقرارت، سپریم کورٹ کے یا ریاستوں کی عدالت ہائے عالیہ کے ججوں کی صلاح سے کرے گا جنھیں وہ اس غرض سے ضروری تصور کرے۔ 26 جنوری 1950کو نفاذ آئین کے بعد سے 1993 تک اسی طریقہ کار پر عمل درآمد ہوتا رہا۔ حکومتِ وقت کی جانب سے صدر کے پاس ناموں کی سفارش کی جاتی اور صدر تقررات پر اپنی مہر ثبت کرتے رہے۔ بعد ازاں 1993 میں تین عدالتی فیصلوں کے ذریعے جنھیں مشترکہ طور پر ’ تھری ججس کیس‘ کہا جاتا ہے ،عدلیہ نے تقررات کا یہ اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نئے طریقہ انتخاب کو ’کولجیم سسٹم‘ کہا گیا جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر4 اعلیٰ ججوں کے ایک گروپ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے ہم منصب ججوں کا تقرر اور تبادلہ کریں۔
’کولجیم سسٹم ‘کے نفاذ کے بعد سے آج تک اس نظام کے تحت کیے گئے تقرات پر کئی بار سوال بھی اٹھتے رہے اور اس کے طریقہ کار میں شفافیت کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی۔کئی قابل اور مستحق ججوں کو بغیر کوئی وجہ بتائے ترقی سے محروم رکھا گیا۔اور کئی غیر مستحق امیدوارو ں کو فائدہ بھی پہنچایا گیا۔کئی قابل ججوں کو کافی دیر کے بعد سپریم کورٹ میں داخلہ ملا جبکہ وہ اس بات کے مستحق تھے کہ یہ موقع انھیں بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا۔کولجیم سسٹم کی اسی طرح کی اور بھی بہت سی خامیوں کے تذکرے حالیہ دنوں میں کھلے عام کیے جا رہے تھے۔اور مختلف وکلا اور وظیفہ یاب ججوں کی جانب سے اس سسٹم کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا تھا۔ اسی کولجیم سسٹم کو بدلنے کی غرض سے پارلیمنٹ او ر راجیہ سبھا میں ’نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹس کمیشن‘ بل او ر ’ 121ویں آئین ترمیمی بل دو ہزار چودہ‘ کو منظور کیا گیا۔
زیر بحث بل میں وضاحت ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججس کے تقررات کے لئے موجودہ ’ کولجیم نظام ‘ کو ختم کر کے
ایک نئے نظام’قومی کمیشن برائے عدلیاتی تقرارت‘ کے تحت کر دیا گیا ہے۔ اس کمیشن کے6ممبران میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بطور چیرمین، سپریم کورٹ کے دیگر2 سنیئر ججس، مرکزی وزیر قانون،اور دیگر 2 ایسے ’ نمایاں اورممتاز‘ افرد شامل ہونگے جن کے انتخاب کا اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،وزیراعظم او ر قائد حزب اختلاف کو ہے۔ کمیشن کا یہ کام ہو گا کہ وہ منتخب کیے گئے ناموں کی چھان بین کرے اورناموں کو قطعیت دینے کے بعد صدر کی منظوری کے لیے روانہ کرے۔ اوراگر صدر دوبارہ غور کرنے کے مشورے کیلئے واپس کردے تو کمیشن دوبارہ یہ نام صدر کو منظوری کے لیے روانہ کرسکے گا اور اس بار صدر انھیں منظور کر لے گا۔کوئی بھی دو ممبر اگر کسی بھی تقرر پر اعتراض کریں تو یہ تقرر نہیں ہو سکے گا۔
موجوہ بل میں’قومی کمیشن برائے عدلیاتی تقرارت‘ کے دو ’معروف اور ممتاز اشخاص ‘کے بطور ارکان ا نتخاب کی کوئی واضح صراحت موجود نہیں ہے۔ اور یہ سوالات بھی وضاحت طلب ہیں کہ دوران انتخاب ، وزیر اعظم ، چیف جسٹس اور حزب اختلاف کے قائد کے درمیان تال میل کی کیا صورت ہوگی؟ اگر وہ کسی ایک ممبر کے انتخاب پر متفق نہ ہو سکیں تو کیا ہوگا؟ کن بنیادوں پر ان معزز ارکان کا انتخاب ہو گا؟ انکی فہم و فراست کے معیارات کیا ہونگے اور ان کو کن بنیادوں پر جانچا جائے گا؟یہ نہایت اہمیت کے حامل نکات ہیں ، کیونکہ ان ممبران کی صوابدید پر اعلیٰ ترین عدالتوں کے ججوں کے تقررات منحصر ہیں۔
اصل نکتہ اور بحث کا مرکزی موضوع بھی یہی ویٹو پاور ہے۔ کانگریس کے سابقہ مرکزی وزیر قانون کپیل سبل جنھوں نے اگست 2013 میں لگ بھگ یہی بل پارلیمنٹ میں متعارف کیا تھا، اسی شِق پر معترض ہیں۔ موجودہ بل میں کمیشن کے ممبران کو ویٹو پاور دیے جانے کی بنا ء پر کپیل سبل اسے عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرنے والا قرار دے رہے ہیں۔ اْنکا کہنا ہے کہ عاملہ اِس کا غلط استعمال کرے گی۔ اور کسی بھی انفرادی تقرر کو اس وقت تک ویٹو کیا جاتا رہے گا جب تک حکومت کی مرضی کے کسی شخص کا تقرر نہ ہوجائے۔ اس کے علاوہ بعض تجزیہ نگاروں کا بھی یہ ماننا ہے کہ یہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہے اور یہ عدلیہ کی فعالیت کو بتدریج متاثر اور کمزور کرے گا۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں اور اصلاحات کی بناء پر عدلیہ مزید فعال بنے گی۔ ’قومی کمیشن برائے عدلیاتی تقرارت‘کے قیام کے پیش نظر حکومت کا مقصد یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کی صرف مستحسن، با صلاحیت اور اہل افراد کو ہی بطور ججس منتخب کیا جا سکے۔
نظام عدل میں اصلاحات کی بنیاد کن امور کی ترجیحات پر رکھی جانی چاہئے یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ صورت حال تشویشناک حد تک خراب اور فوری اصلاحات کی متقاضی ہے۔سپریم کورٹ کے 65970 مقدمات کے بشمول ملک کی عدالتوں میں 2کروڑ 68 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں۔بد قسمتی سے سیاستدانوں کے متعصبانہ و آمرانہ اور مفاد پرستانہ رویوں نیز عاملہ کی بد عنوانی، نا اہلی اور بے حسی نے ملک میں ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس کے نتیجہ میں عوام نے اپنی تمام امیدوں کا بوجھ عدلیہ کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ اور کوئی توقع اگر بچی بھی ہے تو صرف عدلیہ سے۔ایک ایسی صور ت حال میں جہاں انصاف کے حصول کا واحد اور آخری درواز ہ صرف کمرے عدالت میں کھلتا ہو، اس طرح کی کسی بھی بنیادی نوعیت کی تبدیلوں کو اچھی طرح سے جانچنا اور پرکھنا ضروری ہے۔چونکہ مستقبل قریب میں صدر کی منظوری کے بعد اس بل کے قانون بن جانے کے بعد 257ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کی جانی ہے اس لحاظ سے بھی یہ امر نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
’قومی کمیشن برائے عدلیاتی تقرارت ‘ کی جانب سے جن ناموں کومنتخب کیاجائیگا ، انھیں تعلیمی لیاقت اورتجربہ کے ماسوا عادات و اطوار ، اخلاق و کردار اور افکار و نظریات کے کن پیمانوں پر جانچا اور پرکھا گیا۔ یا کن بد اطواریوں کے سبب کچھ لوگ منتخب نہیں ہو سکے،اسکی تفصیلات شائع کی جانی چاہئے۔کیونکہ عوام کو یہ جانے کا حق ہے کہ جو لوگ اتنے اہم اور جلیل القدر عہدوں پر فائز ہونے جا رہے ہیں، انھیں کن بنیادو ں پر منتخب کیاگیا۔ اور اگر عوام کے پاس منتخب ہونے والے کسی شخص کے بارے میں منفی یا مثبت نوعیت کی کوئی ایسی اطلاعات ہیں جس کے باعث ا ن کا منتخب ہونا یا نا ہونا، مناسب نہیں ہو تو ایسی اطلاعات اور معلومات کو کمیشن تک پہنچانے کے لیے کوئی مناسب انتظام کیا جانا چاہئے، اور اگروہ صداقت پر مبنی ہوں تو ان پر غور کیاجانا چاہئے۔ طریقہ کار میں اگر شفافیت اورکھلے پن کو نمایاں اہمیت دی جاتی ہے تو ’ کولجیم نظام‘ کے مقابلہ یہ قانون زیادہ کارگر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے اور اس بل کے متعلق جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ محض خام خیالی ثابت ہو سکتے ہیں۔
بصورت دیگرجن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ’قومی کمیشن برائے عدلیاتی تقرارت‘ کا قیام دراصل اعلیٰ ترین عدالتوں کے باوقار اور جلیل القدر عہدوں پر ایسے افرا د کے انتخابات کو ممکن بنانے کے لیے راہیں ہموار کرنے کا عمل ہے جو اپنے سیاسی آقاوں کے اشارہ ابرو سے بے نیاز نہ رہ سکیں ،اگر درست ثابت ہوتے ہیں اورایسی مفسدانہ سوچ روبہ عمل لا ئی جاتی ہے تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتاہے؟
جواب دیں