قوم کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی ضرورت

ذوالقرنین احمد

محترم حضرات امید ہے کہ آپ حضرات اللہ کے فضل سے  بخیر و عافیت ہونگے۔ عرض گزارش ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے خوف سے حکومت کے غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن کی وجہ سے عام عوام ہی نہیں غیر نوکری پیشہ افراد پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے اسی طرح غریب یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور پیشہ افراد کورونا وائرس سے متاثر تو نہیں ہوئیے اور نہ ہوگے انشاء اللہ لیکن جیسے جیسے لاک ڈاؤن بڑھ رہا ہے ہر دن بھوک و افلاس سے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ جس میں مسلم آبادی اکثر یومیہ اجرت پر کام کرنے والا طبقہ ہے۔ اس سے پہلے کے حالات ناسازگار ہو ہمیں انتظار کیے بغیر پوری ملت کی فکر کے ساتھ مسلمانوں کیلے پالیسی بنانی چاہیے۔ اللہ نہ کریں ایسا ہو کہ آئیندہ مستقبل میں حالات تشویشناک صورتحال اختیار کر جائے اور‌ ملت کا غریب طبقہ جو علم دین اور مالی طور پر بھی کمزور ہے کہی ارتداد کی زد میں نہ آجائیں کیونکہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔

مختلف علاقوں میں ملی تنظیمیں اور نوجوان اپنے طور پر غریب ضرورت مند مستحقین کی ممکن امداد کر رہے ہیں۔ لیکن کسی کے پاس اتنا فنڈ نہیں ہے کہ وہ زیادہ دیر تک امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے جیسے کہ آپ حکومت کے ناپاک عزائم سے باخوبی واقف ہے کہ حکومت ہندو راشٹر کے قیام کیلے ہمہ وقت سرگرم عمل ہے۔ اور دوسری بار آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایسے بہت سارے قانون کو ختم کیا یا اس‌ میں ترمیم کی ہے جو انسانی آزادی حقوق مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ اب یہ ان کیلے آخری موقع کی طرح ہے وہ آئیندہ انتخابات سے قبل ملک کے جمہوری نظام کو اپنے طور پر ترمیم کرکے جمہوری انداز میں ظالمانہ قانون سازی کرکے اسے اپنے حق میں استعمال کر ہندو راشٹر کے قیام کی آخری حد تک کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں حکومت ایک ایسے آرڈیننس کو پاس کرنے والی ہے جو فوج سے متعلق ہے جس میں عام شہریوں کی ۳ سال کیلے فوج میں بھرتی ہونے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ فوج کی خدمات کے نام پر آر ایس ایس کے کارکنوں کو بھرتی کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ تاکہ مسلمان دفاع کی کوشش بھی نہ کرسکے کیونکہ ان ڈیوٹی  اگر کوئی ہم پر بے وجہ ظلم بھی کرتا ہے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں میری بات کو آپ سمجھ رہے ہوگے۔ میں خوف زدہ کرنے کیلے نہیں بلکہ ہوشیار کرنے کیلئے یہ سب آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

اس لیے ایسے حالات میں ملت کو ہر محاذ پر مضبوط کرنا بے حد ضروری ہے صرف ہمارے ضلعی سطح پر نہیں بلکہ پوری ملکی سطح پر مسلمانوں کو مستحکم کرنا ہر مشکل حالات کے‌مقابلے کیلے تیار کرنا بے حد ضروری ہے چاہے وہ وبائی امراض ہو، یا بھر معاشی تنزلی ہو، یا فرقہ پرستوں سے مقابلہ کی بات ہو، جس طرح سے اس کورونا وائرس کا الزام مسلمانوں پر لگا کر ملک میں جو نفرت میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ہے اسکا مداوا کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے ہر طرف سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور زہر گھول دیا گیا ہے۔ میری چند گزارشات یہ ہے کہ ان حالات سے مقابلہ کیلے لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس پر فوراً عملی اقدامات کیے جائیں۔ ۱)  سب سے پہلے مسلمانوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے اور اللہ کی مدد حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے، اپنے دینی تشخص پر پوری طرح قائم رہے ۲) معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلے انکی ہر ممکن مدد کی جائے، ۳) مسلمانوں کو روزگار سے جوڑنے کیلے مخیر حضرات کے تعاون سے نوجوانوں کو قدموں پر کھڑا کیا جائے، ۴) مالی مدد سے صرف وقتی مدد ہوسکتی ہے اس لیے مسلمانوں کو مستقل طور پر روزگار سے جوڑنے کیلے نوجوانوں کو خواتین کو بچوں کو ہنر مند بنایا جائے، ۵) صحافت کے پیشے سے وابستہ افراد نوجوانوں کو جرنلزم سے جوڑے، انہیں الکٹرانک پرنٹ میڈیا سے جوڑنے کیلے تیار کریں ۶) چاہے انکے پاس تعلیمی ڈگریاں نہ ہو لیکن ہنر سکھایا جائے، ۷) ہماری کمیونٹی میں لیڈیز ڈاکٹر کی کمی ہے جس کی وجہ سے مجبوراً ڈلیوری وغیرہ کیلے مسلم خواتین کو غیر محرم ڈاکٹر کے پاس علاج کیلئے جانا پڑتا ہے اس لیے ہمارے درمیان جو لیڈی ڈاکٹرز ہے وہ اپنے محلہ کی سلیقہ مند تعلیم یافتہ سائنس فیلڈ سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو دائیہ کا ہنر سکھائے نارمل بیماریوں کا ٹریٹمنٹ سکھائے۔ اسی طرح مرد ڈاکٹر حضرات نوجوان مردوں کو ایمرجنسی حالات میں ضروری ٹریٹمنٹ سکھائے جس طرح ایک کمپائونڈر ڈاکٹر کے اکثر کام سنبھال لیتا ہے۔ ۸) ٹیچر حضرات جس مضمون کے ماہر ہے اپنے محلہ کے بچوں کیلے ایک آدھا گھنٹہ وقف کرکے انہیں اس مضمون میں ماہر بنائے۔ ۹) پولس محکمہ سے تعلق رکھنے والے مخلص تحریکی افراد اپنے علاقے کے نوجوانوں کو فٹنیس اور دفاع  کی تربیت دے۔ ۱۰) مسجدوں میں امامت کرنے والے علمائکرام حفاظ بچوں کے مدرسہ کے نظام کو منظم طریقے سے چلائے صرف قرآن ختم کرانے کی ذمہ داری نہ سمجھے بلکہ عربی زبان سے بھی آراستہ کریں۔ خواتین کیلے اپنی بستیوں میں دینی تعلیم وتربیت کیلے جگہ جگہ مدرسے ہفتہ واری درس اجتماعات کا اہتمام کریں۔ ۱۱) گیرج، ٹیلرنگ، ویلڈر الکٹریشن، مستری، پینٹر، اے سی، فریج، کولر ٹیکنیشین، جیسے روزمرہ کے کام کرنے والے ماہرین اپنے علاقوں کے نوجوانوں بچوں کو جو جس کام میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں ہنر مند بنائیں۔ یہ چند گزارشات ہے اسکے علاوہ بھی بہت سارے شعبہ ہے۔
یہ سب باتیں ملک کی موجودہ صورتحال اور آئندہ کے مستقبل کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ گئی ہے۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں اس کورونا وائرس کی وجہ سے مسلمانوں کو کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہسپتال میں مسلمانوں کا علاج نہیں کیا جا رہا ہے۔ کمپنیوں میں مسلم مزدوری کو کام پر نہیں رکھا جارہا ہے۔ سبزی بیچنے والے مزدوری کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ مسلم اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سوشل ایکٹویسٹ، اور قوم کے ہمدرد انصاف پسند سیاسی سماجی لیڈران کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے۔ دن پر نیشنل سیکیورٹی ایکٹ، یو اے پی اے جیسے خطرناک قانون کا اطلاق استعمال کرکے قوم کے حق کیلے آواز اٹھانے والے افراد کو چن چن کر ختم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ یہ آج سے نہین میں گزشتہ آزادی کے بعد سے ہوتا آرہا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کورونا وائرس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت اب اسلامی شریعت تشخص پر حملے کرنے کی تیاری میں ہے۔ مسجدوں میں اذان دینے پر پابندی لگائی جارہی ہے آج بھی ملک کے اکثر علاقوں میں اذان دینے پر پولس اور انتظامیہ کی طرف سے پابندی عائد کردی گئی ہیں۔ اب یہ وقت حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اقدامات کرنے کا ہے ملی تنظیموں کے قائدین اور سیاست دانوں کو ملت کے اجتماعی مفاد کیلے لائحہ عمل تیار کر اقدامات کرنے چاہیے۔ ورنہ یہ خاموشی حکومت کیلے بہت فائدے مند ثابت ہورہی ہے۔ جبکہ مذہبی تشخص پر حملے جاری ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

20مئی 2020 فکروخبر

«
»

مجتبی حسین ، ایک تاثر ایک احساس

نکمی حکومت اورمرتے ہوئے مزدور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے