قوم کے غم میں عید ملن کی دعوتیں

۔ بڑی تعداد میں صحافی اور قلم کار بھی ہوتے ہیں،نیز برادران وطن کو بھی مدعو کیا جاتا ہے مگر ہمارے لئے ان وجوہات سے یہ دعوت خاص نہیں ہوتی بلکہ اس کے خاص ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس میں انواع واقسام کے کھانوں کا انتظام ہوتا ہے۔ یوں تو اس موقع پر امیر جماعت کی تقریر بھی ہوتی ہے مگر دوران تقریر ’’برادران اسلام‘‘ کی نگاہیں بار بار گھڑی پر جاتی ہیں ،اس سے ان کی بے چینی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تقریر کے اختتام کے بعد کھانے کے ہال میں سب سے پہلے داخل ہونے والوں میں، میں بھی تھا اور یہ سوچ کر داخل ہوا کہ کسی میز پر پہلے قابض ہوجاؤں مگر وہاں تو پہلے ہی سے بڑے بڑے مہارتھیوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ ایسے مواقع پر فخر کا احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تو اپنی قوم آگے ہے۔ ہم علمی میدان میں اقوام عالم سے پیچھے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغرب کے دست نگر ہیں ۔ سرکاری جاب اور مقابلہ جاتی امتحانات میں پچھڑے ہوئے ہیں مگر کھانے کی میز وہ مقام ہے جہاں ہمارا پرچم سب سے سربلند ہوتا ہے۔یہی سبب ہے کہ جماعت اسلامی ہند ہمیں عید ملن و افطارپارٹی کے لئے بلائے یا آرایس ایس ہم سرپٹ دوڑے جاتے ہیں۔ ویسے بھی دونوں جگہوں کی دعوتوں میں فرق صرف ویج اور نان ویج کا ہوتا ہے۔ بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ اسلامی اور اسلام مخالف دونوں قسم کی جماعتیں عید ملن اور افطارپارٹیاں کر رہی ہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ جس قوم کا مقصد وجود ہی کھانا ہے، وہ ضرور دوڑی آئیگی۔ملی جماعتوں کی طرف سے بھی عید ملن اور افطار پارٹیاں ہونی چاہئیں۔ ، آل انڈیاملی کونسل، آل انڈیا مجلس مشاورت کو بھی افطار اور عید ملن کی دعوتیں کرنی چاہئیں۔ جہاں کچھ نہیں ہورہا ہے ،وہاں کم از کم افطار پارٹی اور عیدملن پارٹی ہی سہی۔ویسے بھی اگر کوئی جماعت کچھ کرنے کے لئے آگے بڑھے گی تو قوم کی دس تنقیدیں جھیلے گی اور دعوت میں صرف نمک کی کمی یا زیادتی پر تنقید ہوگی۔ بریانی کے ذائقے پر بحث ہوگی اور قورمہ کے شوربے کا ذکر ہوگا۔ جمعیۃ علما ء ہند کے دونوں گروہوں کو عید ملن جیسے پروگراموں کا اہتمام کرنا چاہئے بلکہ ملی جماعتوں کے دوچار ٹکرے اور ہوجائیں اورہر گروہ دعوت کرے تو اچھا ہے۔ کہیں نہ کہیں تو ملت متحرک نظر آئے گی۔ویسے بھی قوم متحد کہاں ہے؟ ہم مسجدوں اور مدرسوں تک کو بانٹ لیتے ہیں،وقف کی جائیدادوں کواپنے مفاد میں تقسیم کرلیتے ہیں، ایسے میں اگر ملی جماعتیں بھی تقسیم ہوجائیں تو کیا مضائقہ؟
آرایس ایس کی دعوتیں
ہمارے کھانے کی عادتوں کو دیکھتے ہوئے اس بار آرایس ایس نے جہاں اتر پردیش کی پیتل نگری مراد آباد میں عید ملن پروگرام منعقد کیا،وہیں اس نے رمضان کے دوران پارلیمنٹ انیکسی میں افطار پارٹی بھی کی۔آر ایس ایس کی افطار پارٹی اور جماعت اسلامی ہند کے عید ملن پروگرام مین جو قدر مشترک رہی وہ یہ کہ دونوں جگہوں پر پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط موجود تھے۔ ایک جگہ امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمر ی کا خطاب ہوا تو دوسری جگہ اندریش کمار نے تقریر کی۔باقی داڑھیاں اور ٹوپیاں دونوں جگہوں پر یکساں نظر آئیں بلکہ جماعت اسلامی ہند کے عید ملن کے مقابلے آرایس ایس کے عید ملن اور افطار پارٹی میں زیادہ لمبی لمبی داڑھیاں اور اونچی اونچی ٹوپیاں دکھائی دیں۔میڈیا نے بھی جماعت اسلامی سے زیادہ آرایس ایس کی پارٹیوں کی طرف توجہ کی۔ 
RSS کی مسلم ونگ راشٹریہ مسلم منچ کی طرف سے منعقد افطار کی دعوت میں 70 مسلم ممالک کے سفیروں کے ساتھ ہی بی جے پی کے وزراء اور کانگریس کے لیڈروں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ اس پروگرام کے ذریعہ سنگھ بھی وزیر اعظم مودی کی طرح مسلمانوں کو اپنے قریب لانے کی کوشش میں جٹا نظر آیا۔ RSS کے مسلم ونگ کے سربراہ اندریش کمار نے کہا، ہندو تنظیم کی مسلم ونگ کے ذریعہ لوگوں کے درمیان یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہمارے لئے تمام مذاہب اہمیت رکھتے ہیں۔جس وقت سنگھ کی جانب سے مرادآباد میں عید ملن پروگرام ہورہا تھا، اسی دوران آگرہ کے ایک اسکول میں سنگھ کی ایک ونگ سے تعلق رکھنے والے لوگ اسکولی لڑکیوں کے بیچ پرچے بانٹ کر انھیں خبردار کر رہے تھے کہ مسلمان لڑکوں سے ہوشیار رہنا،یہ ظالم بڑے خطرناک ہوتے ہیں،عشق کے جال میں پھنساکر دل ہی نہیں مذہب بھی لوٹ لیتے ہیں۔
افطار وں کی سیاست
رمضان کا مقدس مہینہ گزر گیا مگر اسے افطاروں کی سیاست کے لئے یاد رکھا جائے گا۔افطارپارٹیوں کی سیاست زوروں پر رہی اور اب عید ملن کی سیاست کا وقت ہے۔ کسی نے افطار پارٹی دے کر مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی اور اپنا سیاسی مفاد پختہ کیا تو کسی نے پارٹیوں سے دوری بناکر اپنے سیاسی فائدے کو یقینی بنایا۔بھارت سے لے کر امریکہ اور اسرائیل تک افطارپارٹیوں کی گرم بازاری رہی۔ یوں تو افطاروں کی سیاست بھارت سے شروع ہوئی تھی مگر اب یہ امریکہ تک پہنچ چکی ہے اور امریکی صدر کی طرف سے بھی پارٹی دی جانے لگی ہے۔ راجدھانی دلی میں سال در سال اس کی گرم بازاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات سامنے ہیں لہٰذا یہاں افطار پارٹیوں اور عید ملن کی سیاست کچھ خاص اہم ہوگئی ہے۔ یہ ضرور ہے سیاسی افطار پارٹیوں میں عبادت کے تقدس کا زوال نظر آتا ہے مگر ان باتوں کا خیال آج کسے رہا؟ دنیا کے ثمن قلیل کے بدلے آخرت فروشی ہمارا شیوہ ہے۔ اب اگر روزے کی حرمت کو سیاسی افطار پارٹیوں کی نذر کیا جارہا ہے تو ا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔جب جبہ ودستار سے سجے ہوئے ایمان ،مفاد پرستی کے شورومس میں For Saleکے بورڈ کے ساتھ خریداروں کے منتظر ہیں تو ایسے میں عام مسلمانوں کی توبات ہی کیا!
صدر کی افطار پارٹی اور وزیر اعظم کی غیر حاضری
کچھ لوگوں کو شکوہ وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ہے کہ وہ کھانے پینے کا اتنا اچھا موقع کیوں ہاتھ سے جانے دیتے ہیں مگر ان کے ساتھ بھی مجبوری ہے کہ وہ ’’ہندو ہردے سمراٹ ‘‘ کی امیج سے باہر نکلیں تو کیسے؟ آخر مسلمان ان کی پارٹی کو ووٹ دینے سے رہا اور ان کی چاپلوسی میں ان کے وہ ووٹر بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے جو انھیں ان کی موجودہ امیج کے ساتھ ہی پسند کرتے ہیں۔ شاید یہی سبب تھاکہ انھوں نے نہ افطار پارٹی دی اور نہ ہی کسی افطار پارٹی میں شریک ہوئے۔یہاں تک کہ انھوں نے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی طرف سے منعقد افطار پارٹی میں بھی شرکت نہیں کی۔جس وقت صدر کی افطار پارٹی چل رہی تھی وزیر اعظم مودی اس وقت وزرائے اعلی کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف تھے۔وزیر اعظم مودی نے گزشتہ سال بھی صدرجمہوریہ کی جانب سے دی گئی افطار پارٹی میں یہ کہتے ہوئے شرکت نہیں کی تھی کہ انہیں ممبئی میں ایک سرکاری میٹنگ میں شامل ہونے جانا ہے۔لیکن کانگریس ذرائع کے مطابق کانگریس حکومت والی پانچ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے وزیر اعظم مودی سے اپیل کی تھی کہ وہ اس میٹنگ کے شڈول کو تبدیل کردیں تاکہ وہ صدر کے ساتھ افطار پارٹی میں شامل ہو سکیں۔کانگریس کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وزیر اعظم مودی جان بوجھ کر ایسے پروگراموں میں حصہ لینا نہیں چاہتے جو اسلامی روایات سے جڑے ہوئے ہوں۔حالانکہ کانگریس ان پارٹیوں میں شامل رہی ہے جس نے اسلام اور مسلمانوں کی خوشامد کرتے ہوئے انھیں میٹھی چھری سے ذبح کیا ہے۔
سونیا کی افطار پارٹی میں اپوزیشن کی سیاست
کانگریس صدر سونیا گاندھی ہر سا ل افطار پارٹی دیتی ہیں مگر ان کی کانگریس پارٹی کو کبھی ان غریب مسلمانوں کا خیال نہیں آیا جن کے پیٹ پر لات مارنے کا کام ان کی سرکاروں نے کیا، جن کی گردنوں پر چھری چلانے کا کام کانگریس ہر دور میں کرتی رہی ہے۔آزادی کے بعد سے مسلمان جس مقام تک پہنچے اس کے لئے کانگریس کے علاوہ کونسی پارٹی ذمہ دار ہے؟ بہرحال سونیا گاندھی کی پارٹی میں ، راہل گاندھی اور کانگریس کے سینئر لیڈران سمیت بی ایس پی کے ستیش چندر مشرا۔ سی پی ایم لیڈر محمد سلیم، بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار،این سی پی صدر شرد پوار اور ترنمول کانگریس لیڈر ڈیریک اوبرائن موجود تھے۔یہاں سب کچھ تھا بس روزہ داروں کی کمی تھی۔حالانکہ یہ صرف اسی افطار پارٹی کی بات نہیں ہے بلکہ سبھی سیاسی افطار پارٹیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
کشمیر کی سیاست افطار سے عید ملن تک
افطار اور عید ملن پر پاکستان اور کشمیر کی سیاست بھی حاوی رہی۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان کوجھٹکا دیتے ہوئے حریت کانفرنس کے سخت گیر دھڑے کے رہنما سید علی شاہ گیلانی نے 21 جولائی کو دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی طرف سے منعقدہ عید ملن تقریب کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ پہلا موقع ہے جب گیلانی نے اس طرح کی دعوت ٹھکرائی ہے۔ گیلانی نے گزشتہ ہفتے روس کے اوفامیں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے درمیان بات چیت میں کشمیر مسئلہ شامل نہیں کئے جانے کی مخالفت میں اس پروگرام کے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔حالانکہ حریت کا دوسرا دھڑا جو کہ میر واعظ کی قیادت والا ہے اس نے پارٹی میں شرکت کی۔ 
پُراثر دعوتیں
بہرحال افطار اور عید ملن کی سیاست عہد حاضر میں بے حد مقبول ہے۔ انٹرنیشنل سطح پر اس کی پذیرائی ہورہی ہے۔بھارت کے راشٹرپتی بھون سے لے کر امریکہ کے وائٹ ہاؤس تک اس کا چلن ہے۔ برادران اسلام بھی دعوتیں کھاکر خوش ہوجاتے ہیں اور یہ مان لیتے ہیں کہ جس نے افطار پارٹی دی ہے، وہ سچا سیکولر لیڈر ہے اور مسلمانوں کا حقیقی ہمدرد ہے۔ کھانے اور مشروبات کے ذائقوں میں ہمیں نہ عراق وشام کی خونریزیاں یاد رہتی ہیں اور نہ افغانستان کی تباہی وبربادی کی داستانیں۔نہ ہمیں قبلہ اول یاد رہتا ہے اور نہ فلسطینیوں کی آہیں اور سسکیاں۔ نہ ہم برما کے خانماں برباد روہنگیا مسلمانوں کو یاد رکھتے ہیں اور نہ ہی ہمیں بھارت کے ان فساد زدہ بھائیوں کے درد کا خیال آتا ہے جن کا دنگوں کی آگ میں سب کچھ جل جاتا ہے۔ واقعی کتنی پر اثر ہوتی ہیں یہ عیدملن اور افطار کی دعوتیں! کیا ایسا نشہ دنیا کی کسی شراب میں ہے؟

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے