مگرمحترم عالم نقوی نے اپنی تحریر میں قوم سے جو توقعات وابستہ کی ہے اندیشہ ہے کہ وہ بھی خوش فہمی ہی ثابت ہوں گی۔کیونکہ وہ اس سے پہلے ایسا ہی کچھ بلکہ اس سے زیادہ اردو بک ریویو او رجناب محمد عارف اقبال کے تعلق سے بھی لکھ چکے ہیں۔اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔
ملی گزٹ تو بہرحال(بخدا ہم ملی گزٹ کی اہمیت کم نہیں کر رہے ہیں)اپنی نوعیت کا واحد پرچہ نہیں ہے۔خود نقوی صاحب نے لکھا ہے کہ ریڈئنس جماعت اسلامی کا انگریزی ہفت روزہ ہے اور ابھی زندہ ہے ۔مسلمانوں کے اور بھی انگریزی اخبارات و رسائل ہیں مگر اردو بک ریویو تو پوری اردو دنیا کا اپنی نوعیت کا واحد رسالہ ہے جسے عارف اقبال جیسا مرد میداں اپنی جان کی قیمت پر زندہ رکھے ہوئے ہے۔اس طرح کا اردو رسالہ کہیں اور تو کیا پاکستان میں بھی نہیں ہے۔حیرت ہے کہ وہاں بھی اس شعبے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اردو کے چاہنے والے گھبراتے ہیں۔اور وہاں کی کتابی دنیا کے لوگوں نے ہمارے ایک دوست کے سامنے برسوں پہلے عارف اقبال صاحب کے اس احسان کا اعتراف بھی کیا تھا ۔ان حالات میں بھی اردو بک ریویواور عارف اقبال دونوں برسوں سے دم توڑتے ہوئے جی رہے ہیں۔خدا کرے کہ ہماری قوم ان کے لئے کسی Bail Out Package کا انتظام کردے۔آمین۔
قرآن کے مطابق ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اللہ نے یہودیوں کے چہرے مسخ کر دئے تھے مگر آج ایسا لگتا ہے جیسے مسلمانوں کے دماغ مسخ ہو گئے ہوں۔مسلمان من حیث القوم مساجد یا مساجد یا مدارس کے لئے چندہ دینے میں تو بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے نزدیک دخول جنت کا واحد راستہ مدارس و مساجد کی تعمیر رہ گیا ہے۔ اس سے زائد کچھ کرنا ہو تو نفل عمرہ و حج بڑ ے ثواب کا کام ہے اور یہ اس کے باوجود کیا جا تا ہے کہ حج و عمرے کے ثواب کے لئے قبولیت بھی ایک شرط ہے بس ان کے علاوہ و ثواب کمانے کے نیک کام کے دوسرے شعبے مسلمان بھول چکے ہیں۔شاہنواز فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان کے تناظر میں(مگر وہ پورے برصغیر پر فٹ ہے)میں لکھا تھا کہ آپ کسی مسجد یا مدرسے کے لئے دو منٹ میں دو کروڑ جمع کر سکتے ہیں مگر اخبار نکالنے کے لئے کوئی آپ کو پھوٹی کوڑی نہیں دے گاکیونکہ مسلمانوں کا ذہنی سانچہ اسے ایک نیک کام یا مذہبی کام نہیں سمجھتا۔رہنمایان قوم کو سوچنا چاہئے کہ مسلمانوں کی یہ ذہنیت بنانے کا ذمے دار کون ہے ؟آج مسلمانوں کے دشمن میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔صدام حسین کے خلاف میڈیا کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ وہ رضا کا رانہ طور پر ہر قسم کے ہتھیار سے خود ہی دست بردار ہو گیا۔پھر اس کا شکار کرنا کیا مشکل تھا۔طالبان کو طالبان بنانے والے امریکی تھے۔پھر ضرورت پڑی تو ۱۱؍۹ تصنیف کرکے میڈیا کے بل پر سارا کریڈٹ ان کے سر تھوپ دیا گیا۔اسامہ بن لادن کو میڈیا کے بل پر ہی ہیرو بنایا گیا ۔مرنے کے بعد بھی میڈیا کے بل پر اسے زندہ رکھا گیااور اپنی ضرورت کے مطابق میڈیا کے ذریعے ہی اسے مار دیا گیا ۔اب وہی کھیل داعش کے ساتھ کھیلا جا رہاہے۔ اور مسلمان ’’مفلس‘‘ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
یہ حقیقت نا قابل تردید ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو اپنی ہر طرح کی نعمتوں سے خوب نوازا ہے۔اس میں عقل بھی شامل ہے۔یہ تو ہمارے علماء کرام ہیں جنھوں نے اپنی اغراض کی خاطر قوم کی عقل مسخ کرکے رکھ دی ہے۔ہم نے کبھی نہیں سنا کے کسی عالم ،کسی واعظ یا کسی خطیب نے روزہ نماز حج زکوٰۃ کے علاوہ کبھی ذرائع ابلاغ کو کتب خانوں کو تعلیم گاہوں کو بھی ثواب کا ذریعہ بتایا ہو۔صحافت کا وجود ہی صحیفے سے ہوا ہے مگر ہماری قوم اس سے نا بلد ہے ۔ سال ڈیڑھ سال پہلے تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ عقل صرف ان کی مسخ ہوئی ہے جو مشرک ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ موحد تو مشرکوں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں ورنہ قدرتی پیٹرول سے حاصل ہونے والی دولت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال نہ ہوتی۔چلئے!مان لیا امریکہ کے ڈر سے آپ ہتھیار نہ بنا سکتے تھے مگر الجزیرہ(جسے اب خود ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے)کی طرح بین الاقوامی سطح کے چینل اور اخبارات تو کھڑے کئے جا سکتے تھے۔بہرحال سارا مسئلہ ترجیحات بلکہ غلط ترجیحات کا ہے۔ہر وہ مسلمان جو حج کرکے آتا ہے سعودی شاہوں کی مہمان نوازی کے تعلق سے زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے یہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ مہمان نوازی تو پیٹرول کی دولت کے طفیل ہے۔حجاج کرام کی خدمت تو ایام جاہلیت میں وہ عرب بھی کرتے تھے جنھیں خود کھانے کو میسر نہ تھا۔ہم شرعاً weapons of mass destruction نہیں بنا سکتے مگر ایسے ذرائع ابلاغ تو پیدا کر سکتے ہیں جوweapons of mass conversionکا کام کر سکیں۔کاش ہماری قوم کو عقل آئے۔
جواب دیں