مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
اعزواقارب کے ساتھ تعلقات کی استواری اور نا ہمواری کے بارے میںقرآن واحادیث میں قطع رحمی اور صلہ رحمی کا ذکر آیا ہے،صلہ رحمی سے مراد قریبی رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا ہے، قطع رحمی اس کی ضد ہے، یعنی قرابت داروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور ان سے بُرائی سے پیش آنا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ النساء میں قریبی رشتہ داروں کے بارے میں با خبر رہنے کی تلقین کی ہے اور اسے اپنے سے ڈرتے رہنے کے ساتھ جوڑا ہے، سورۃ محمد کی آیت نمبر ۲۳؍ میں قریبی رشتہ داروں سے قطع تعلق کو رحمت الٰہی سے دور ہونے ، کانوں کے بہرے اور آنکھوں سے اندھے ہونے کی بات کہی گئی ہے ، سورہ بقرہ کی آیت ستائیس(۲۷)میں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو خدائی معاہدہ کو میثاق کے بعد توڑ دیتے ہیں، ایسے تعلقات کو توڑتے ہیں، جن کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ، وہ ملک میں فساد مچاتے ہیں۔ وہی لوگ گھاٹے میں ہیں۔
قطع رحمی کے مقابل صلہ رحمی ہے، صلہ رحمی کرنے والوں کو اللہ رب العزت نے سورۃ رعد آیت نمبر ۲۱؍ میں تعریف کی ہے کہ جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرتے ہیں، عہد کو نہیں توڑتے ہیں، ان لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں، جن کے ساتھ اللہ نے صلہ رحمی کا حکم دیا۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز واقرباء کے ساتھ صلہ رحمی کرنا باعث اجر وثواب ودخول جنت ہے اس کے بر عکس جو لوگ تھوڑی تھوڑی باتوں پر قطع تعلق کرتے ہیں ان کا یہ عمل اللہ رب العزت کے نزدیک انتہائی مذموم ہے، مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے قطع تعلق کر لیتا ہے جو رشتے ناطے توڑنے کا کام کرتے ہیں، بخاری شریف کی ایک روایت میں کامل صلہ رحمی کرنے والا اس شخص کو قرار دیاگیا ہے جو قرابت توڑنے والے سے تعلق جوڑ کر قائم اور دائم رکھے، مسلم شریف میں ایسے شخص کے لیے جو حسن سلوک کے بدلے تکلیفیں جھیلتا ہے اللہ کی مدد ونصرت کا وعدہ کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ قطع تعلق کرنے والے کو دخول جنت سے روک دیا جائے گا، بخاری ومسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ (لایخل الجنۃ قاطع رحم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ایک مجلس میں رشتہ ناطہ توڑنے والے کو بیٹھنے سے منع کیا اور ارشاد فرمایا : ان الرحمۃ لا تنزل علی قوم فیھم قاطع رحم) اس شخص پر فرشتے رحمت بھی نازل نہیں کرتے جو قطع رحمی کرتا ہے، ایک روایت میں ہے کہ قطع رحمی کرنے والے تک جنت کی خوشبو نہیں پہونچے گی ، حالاں کہ جنت کی خوشبو تو ایک ہزار برس کی دوری تک پہونچتی ہے، قطع رحم کرنے والا کے اعمال بھی بار گاہ ایزدی میں مقبول نہیں ہوتے۔
قطع رحمی کا عذاب دنیا میں بھی ملتا ہے، اور آخرت میں بھی ، آخرت میں دخول جنت سے محرومی کی روایت اوپر گذر چکی ہے، دنیاوی عذاب یہ ہے کہ قطع رحمی کی وجہ سے اعز واقرباانتہائی دور ہوجاتے ہیں، آپس میں عداوت ودشمنی پیدا ہوجاتی ہے، جس سے روحانی اذیت ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ روحانی اذیت آگے بڑھ کر جسمانی ایذا رسانی کا بھی سبب بن جاتی ہے، جس سے زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ۔
اسی لیے جو لوگ قطع تعلق کریں ان سے جڑنے کا حکم دیا گیا اور جو ظلم کرے اس کو معاف کرنے کی تلقین کی گئی اور صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ،اگر کچھ ممکن نہ ہو تو سلام کی حد تک ہی تعلق کو باقی رکھا جائے، حضرت انس ؓ کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص رزق میں وسعت اور کشادگی کا خواہاں ہو اسے اپنے اعز واقرباء کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے، جو لوگ صلہ رحمی کے بجائے قطع تعلق کرتے ہیں اگر وہ کسی مجلس میں شریک ہوں تو حضرت امام زین العابدین کے بقول ان کی شرکت لعنت خدا وندی سے خالی نہیں، جولوگ صلہ رحمی کرتے ہیں وہ فورا ثواب کے مستحق ہوتے ہیں اور قطع رحمی کرنے والا جلد ہی عقوبت میں گرفتار ہوتا ہے۔
آج کے اس مادی دور میں جو چیز ہمارے اندر سے ختم ہوتی جا رہی ہے وہ صلہ رحمی ہے، قطع تعلق کی وبا عام ہے اور سماج اعز واقربا کے ساتھ صلہ رحمی کے فوائد اور قطع رحمی کے مضرات اور نقصانات کو سجھ نہیں پارہا ہے یا پھر سمجھ کرکے تجاہل عارفانہ برت رہا ہے، حسن سلوک تو بہت آگے کی چیز ہے،ا ن کے واجبی حقوق اور شریعت کی جانب سے مقررہ ترکہ دینے میں بھی لیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرابت داروں کے ما بین الفت ومحبت اور انسیت وغم خواری کا فقدان ہوتا جا رہا ہے، اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ ’’لگے ہے آگ تو ہمسایہ ہوا دے ہے‘‘
اس معاملہ میں اپنے والد ماسٹر محمد نور الہدیٰ مرحوم کو میں نے بڑا حساس پایا ، ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ صلہ رحمی میں جاتا تھا، دور دور کے رشتہ دار جن کے بارے میں صحیح رشتہ داری کا پتہ نہیں، وہ ان کی مدد بھی کرتے، غریب بچیوں کی شادی کراتے مجھے کوئی بہن نہیں ، لیکن ا ن کے حسن سلوک اور صلہ رحمی کے نتیجے میں ہمارے کئی بہنوئی ہیں، انہوں نے پوری زندگی ان کو اسی طرح برتا جیسا کوئی اپنی بیٹی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، ان کے جانے کے بعد ہم لوگ بھی اس کی کوشش کرتے ہیں، والد صاحب اس معاملہ میں اتنے سخت تھے کہ اگر کوئی رشتہ دار میرے گھر سے آگے دوسرے رشتہ دار کے یہاں بڑھ جاتا تو انتہائی خفا ہوتے کہ تم میرا گھر چھوڑ کر آگے کیسے بڑھ گیے، ان کی سوچ یہ تھی کہ پہلے میرا گھر پڑتا ہے اس لیے تمہیں پہلے میرے گھر آنا چاہیے،و الد صاحب کے اس صلہ رحی کا نتیجہ ہم لوگوں نے کھلی آنکھوں دیکھا کہ رزق میں وسعت بھی ہوئی اور عمر بھی والد صاحب نے اچھی خاصی پائی ۔ اس طرح صلہ رحمی کرنے والوں کے لیے احادیث میں جو بشارتیں دی گئی ہیں، وہ میرے لیے مشاہدہ ہے اور میں نے کھلی آنکھوں اس کے فوائد دیکھے ہیں۔
اس موقع سے ہمیں حضرت مسطح ؓجو مؤمن کامل تھے اور واقعہ افک میں منافقوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے تھے کہ واقعہ کو نہیںبھولنا چاہیے، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کا روزینہ مقرر کر رکھا تھا، جب ا نہیں اس کی خبر ہوئی کہ حضرت مسطح ؓ بھی ان کے ساتھ ہیں ہاں میں ہاں ملا رتے رہے ہیں ،تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کا روزینہ بند کر دیا، جو وہ مسطح بن اثاثہؓ کو قرابت داری اور غربت کی وجہ سے دیا کرتے تھے ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے قسم کھا لیا کہ چوں کہ مسطح نے عائشہ ؓ کے متعلق اس طرح کی تہمت تراشی میں حصہ لیا ہے تو میں اس پر اب کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا ، اس پر اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی وَلَا یَاتَلِ اُوْلُوْ الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ ۔ الخ یعنی تم میں سے جو صاحب فضل اور وسعت والے ہیں، انہیں اپنے قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہیں کھانی چاہیے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کردے اللہ قصوروں کو معاف کرنے والا مہربان ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ ہاں میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کر دے اور حضرت مسطح ؓ کو جو وہ دیا کرتے تھے پھر سے دینے لگے ۔
اس واقعہ میں ہمارے لیے بڑی عبرت ہے اگر ہم اللہ رب العزت سے عفو ودر گذر کی توقع رکھتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے اعز واقربا سے پہونچنے والی تکلیفوں کو در گذر کرکے حسن سلوک کو اپنی زندگی کا شیوہ بنانا چاہیے اور اپنی وسعت کے بقدر ان پر خرچ کرنا چاہیے، اگر مال ودولت نہیں ہے تو مختلف موقعوں سے ان کے کام آنا چاہیے، ان کی مذہبی زندگی کو درست اوران کے ایمان واخلاق کی اصلاح کے لیے خندہ پیشانی سے ملنا چاہیے اور حدیث میں کم از کم حسن سلوک ’’سلام‘‘ کو قرار دیا گیا ہے اس لیے سلام وکلام جاری رکھنی چاہیے، اگر اللہ نے وسعت دی ہے اور آپ کے لیے اعز واقرباء کی خبر گیری اور ان کے خورد ونوش کا انتظا م ممکن ہے تو انہیں کھلا ئیے ، ان پر خوب خرچ کیجئے، کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ رزق کس کی قسمت سے ملتا ہے، بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایک آدمی خاندان سے گذر گیا تو رزق میں تنگی پیدا ہو گئی، میں نے تو خاندان کے بعض شخص کے گذر جانے کے بعد مفلسی اور تنگ دستی کو تیز قدم آتے ہوئے بھی دیکھا ہے، دوکان اور کاروبار کو بند ہوتے دیکھا ہے، اس کا مطلب ہے کہ رزق میں وسعت اس خاص شخص کی وجہ سے تھی وہ گیا تو اپنے ساتھ وسعت بھی لے گیا۔
قطع رحمی کا بہت بُرا اثر بچوں کے دل ودماغ پر پڑتا ہے، ان کی ذہنی نشوونما میں یہ مرکزی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، پہلے یہ سلوک بچے دورکے رشتہ داروں سے کرتے ہیں اور جوان ہونے کے بعد والدین بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں اور ان کی زندگی دو بھر ہوجاتی ہے، بیت الضعفاء میں والدین کو بھیج دینا در اصل قطع رحمی کا نتیجہ ہے، اس لیے جو کوئی بھی بڑھاپے میں خوش گوار زندگی گذارنا چاہتا ہے اسے صلہ رحمی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا نا چاہیے اور قطع رحمی سے دور بھاگنا چاہیے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
جواب دیں