قصرسفیدکی اسلام دوستی؟

نائجیریا،شام،فلسطین،لیبیا،مالی،صومالیہ میں کئی لاکھ مارے جاچکے ،گویامارے جانے والے دہشتگردوں کی تعدادملینزمیں ہے۔پائپ لائن میں توکروڑوں ہوں گے اورابھی تویہ جنگ شروع ہوئی ہے ،نجانے کتنے ملین دہشتگرد(جنہیں امریکا دہشتگردقراردیتاہے) مزید مارے جانے ہیں۔سوال اوباماسے یہ ہے کہ ساری دنیاکے دہشتگردصرف مسلمان ہی کیوں ہیں اوراتنے زیادہ کیوں ہیں؟
دنیامیں اتنے سارے مذاہب ہیں توکیاباقی سب کے سب دہشتگردوں اوردہشتگردی سے پاک ہیں،کچھ انوکھاماجرانہیں ہے؟اوبامانے دوتین باتیں کیں لیکن اصل میں ایک ہی بات ہے ۔ دو باتیں یوں کیں کہ ایک توداعش کوختم کریں گے اوردوسری یہ کہ یوکرائن پرروسی جارحیت ناکام بنائیں گے اورایک ہی بات اس کی کہ امریکاکچھ کرسکتاہے توصرف داعش کے خلاف کچھ کرسکتا ہے ۔ روس کے خلاف صرف اعلان کیاہے اوراعلان ہی کرے گا۔داعش کے پاس نہ توجہازہیں نہ جہازگرانے والی توپیں،اسے ’’بہادرانہ بمباری‘‘ کرکے تہس نہس کردینابہت آسان ہے(اوردفاعی جنگ کانام دیکرجوازبھی فراہم کرلیاجائے گا)یہ الگ بات ہے کہ القاعدہ ابھی تہس نہس نہیں ہوئی لیکن اس کے اندرسے داعش نکل آئی اورداعش تہس نہس کردی جائے گی توکل کچھ اور نکل آئے گا۔ 
داعش پربڑے حملے میں بہت سے شہری مارے گئے ۔یہ بات مغربی ایجنسیوں کے توسط سے پہنچی ہے لیکن پاکستان میں رہنے والے توان شہریوں کوبھی دہشتگردہی مانیں کے وگرنہ ’’ہماری جنگ ‘‘ ناراض ہوجائے گی۔خیر،امریکاکے ایک نیاتباہ کن اورناقابل تسخیربے حدقیمتی جہازایف ۲۲/اے ریپٹربنایاہے جواتناقیمتی ہے کہ امریکااپنے کسی اتحادی کوبھی دینے کوتیارنہیں ہے۔مسلمان اپنے 
نصیب پرجتنابھی نازکریں کم ہے کہ آزمائش انہی پرہوئی۔داعش کے خلاف یہی طیارہ استعمال ہورہاہے۔افغانستان اورعراق جنگ میں بھی بہت سے نئے اسلحے کی آزمائش ہوئی ۔ایف ۲۲/اے ریپٹربہت ہی کام کاجہازہے لیکن کیاروس کے خلاف بھی اس سے کام لیاجائے گا؟مشکل ہے!یوکرائن ،امریکا اورنیٹوکیلئے وہ بن گیاہے جسے مرحوم جنرل ضیاء الحق’’ مخمصہ‘‘ کہاکرتے تھے ۔ روس ، یوکرائن پرحملہ نہیں کرے گا،وہ دھرنے دلوائے گا اورباغیوں سے لانگ مارچ کروائے گا،کروائے گانہیں وہ تو کروارہاہے،ہرروزباغی اورانقلابی کوئی نہ کوئی یوکرائنی علاقہ قبضے میں لے لیتے ہیں اورروس کے میزائلوں سے یوکرائنی جہازاڑادیتے ہیںیہاں تک ایک مسافرطیارہ بھی مارگرایا اوراوباماکچھ بھی نہ کرسکے۔
ذراخیال کیجئے!کوئی مسافر طیارہ کسی مسلمان ملک نے گرایاہوتاتواب تک اسے افغانستان یاعراق بنادیاگیاہوتا۔امریکاروس کوروکتاہے توجنگ چھڑجائے گی اورنہیں روکتا تو یوکرائن کے بیشتر علاقے ’’آزاد‘‘کرالے گا،پھرامریکاکیاکرے گا؟یہ بات امریکاکی سمجھ میں نہیں آرہی۔یوکرائن کے حصے بخرے ہونے کامطلب یہ ہوگاکہ نیٹوکی دفاعی دیوار کو سیلاب لے گیا۔امریکاکوفی الحال صرف ایک بات سمجھ میں آرہی ہے اوروہ یہ ہے کہ مسلمانوں کومارنابہت آسان ہے اور’’ہماری جنگ ‘‘والوں کوایک امریکاسے بھی زیادہ سمجھ نہیں آ رہی ہے اوروہ یہ کہ امریکاکی جنگ اسلام کے خلاف نہیں،ہرگزنہیں!
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مغربی مفکرین کے نزدیک مسلمان انسان کہلانے کے ہی مستحق نہیں۔مسئلہ فلسطین کوآسانی سے سمجھنے کیلئے تین فریق بنالیتے ہیں اوران تینوں سے ماضی کی مدد سے تین سوال پوچھتے ہیں۔فریق اوّل امریکا،جودنیامیں واحد’’سپرپاور‘‘ہے ،فریق دوم،اسرائیل جوظالم ہے اورفریق سوم ،اقوام متحدہ کہ جوانسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکااوراقوام متحدہ کیوں اسرائیل کونہیں روک رہے؟دوسراسوال یہ ہے کہ اسرائیل ظلم کیوں کررہاہے اورتیسراسوال یہ ہے دنیابھرمیں قائم انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں خاموش ہیں؟
پہلے سوال کاجواب یہ ہے کہ امریکاکی تاریخ خود۹کروڑ ریڈانڈینزکے خون سے رنگین ہے۔اس تاریخ کے اوراق سے آج بھی ۹کروڑریڈانڈینزکے لہوکی بوآتی ہے۔وہ بھلا آج اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام سے روک سکتاہے؟ None Killing Global political Scienceکے مقالہ نگارڈاکٹرسکندرمہدی کے مطابق:یورپین باشندوں نے کولمبس کے امریکا پہنچنے کے صرف ۲۱سال کے اندراندر۸۰لاکھ کوقتل کرایاتھا۔کیمبرج یونیورسٹی سے شائع ہونے والی امریکی مورخ ’’مائیکل مین ‘‘کی کتاب The dark side of Democracyمیں بھی امریکی قتل عام کی تعدادنوکروڑبتائی گئی ہے۔
انسائیکلوپیڈیاآف وائلنس ،پیس کنکٹ(جلدسوم۔اکیڈیمک پریس ۱۹۹۹ء ص۶۰کے مطابق براعظم امریکامیں یورپین باشندوں کی آمدسے لیکر ۱۹ویں صدی کے اختتام تک قریباً دس کروڑ افراد کو قتل کیاگیا۔یہ بات حیرت انگیزہے کہ ایک ہزارسال کی معلوم تاریخ میں جتنے لوگ پوری دنیامیں ہلاک یاقتل کئے گئے اس سے زیادہ امریکاکے یورپین آبادگاروں کے ہاتھوں صرف ایک صدی میں قتل کردیئے گئے اوریہ قتل دنیاکے مہذب ترین انسانوں کے ہاتھوں ہوئے ،جونئی روشن،رومانی تحریک ،عقلیت،علم،بنیادی حقوق ،لبرل ازم، انسانیت ،آزادی اورانسان کی خدائی کے دعوے کر رہے تھے۔ان کے ہاتھوں صرف ایک صدی میں ۹کروڑریڈانڈینزکے نشیمنوں پربجلیوں کاکارواں گزرگیا۔
امریکی ریڈانڈینزکوملحد،ناپاک،کیڑے مکوڑے،گنوار،کتے،بھیڑیئے،سانپ،سؤراوربے عقل گوریلے کے نام سے پکارتے ہیں(مائیکل مین کی کتاب صفحہ۸۵)۔ان ریڈانڈینز پرمظالم کے وہ پہاڑگرائے گئے کہ آپ اس کاتصورکریں توآپ کی روح کانپ جائے ۔ان کوشادی کی اجازت نہیں تھی،ان کے بچوں سے جبری مزدوری کروائی جاتی تھی ، ان کی عورتوں کوطوائف بننے کیلئے چھوڑ دیاجاتاتھا،پھرجن عورتوں کوایڈزلاحق ہوجاتی ،انہیں ریڈانڈینزمردوں کوراحت پہنچانے کی اجازت دی جاتی۔مائیکل مین اپنی کتاب میں لکھتا ہے: ۱۸۴۸ء میں کیلی فورنیاکومیکسیکوسے کاٹ کر ریاست ہائے متحدہ امریکاکی ایک ریاست بنادیاگیاجس کے نتیجے میں ریڈانڈینزکے بالارادہ قتل میں حیرت انگیزاضافہ ہوا۔اس قتل عام کی بڑی وجہ جبری امراض(ایڈز)بھوک اورافلاس تھی ۔ بھوک کی وجہ سے ریڈانڈینزمیں بیماریوں کے خلاف قوت مزاحمت ختم ہوگئی،لہنداموت ان کامقدربنادی گئی ۔ صرف ۱۰فیصد ریڈانڈینزبراہِ راست قتل کئے گئے جبکہ ۶۰سے ۷۰فیصدمقامی آبادی کو بھوک،قحط،نسل کشی،عورتوں مردوں کی شادیوں پرقدغن اورخطرناک بیماریوں کے ذریعے سے جو محض اتفاقی اورحادثاتی نہیں تھیں ،قسطوں میں ہلاک کیاگیا۔باقاعدہ زمینی رقبے پرقبضے کیلئے ریڈانڈینزکوبھی جنہوں نے موت سے بچنے کیلئے عیسائیت قبول کرلی،ماراگیااوریہ قتل مہذبانہ قتل قراردیاگیا۔
آج اسرائیل جوظلم فلسطینیوں پرڈھارہاہے،ماضی میں یہ سب بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت مظالم امریکا’’بہادر‘‘نے ڈھائے ہیں چنانچہ کہاجاسکتاہے کہ آج کے اسرائیل نے یہ مظالم امریکاکی تاریخ پڑھ کر سیکھے ہوں گے۔ریڈانڈینزکیلئے مختلف علاقے متعین تھے اوراعلان کیاگیاتھاکہ اگرکوئی ریڈانڈینزان علاقوں سے باہرنظرآئے تواس کوبھگادوورنہ مار دو ۔آج اسرائیلی وزیراعظم کی پریس کانفرنس پرسب ہی حیران ہیں جبکہ اس پریس کانفرنس سے زیادہ سخت زبان امریکی صدورنے ریڈانڈینزکے قتل عام کیلئے استعمال کی تھی۔ اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہاتھا:جہاں تک اس الزام کاتعلق ہے کہ اسرائیل نے اپنے ایک حملے میں اقوام متحدہ کے ایک اسکول کونشانہ بنایاتواس پراقوام متحدہ کے ترجمان نے صاف الفاظ میں کہاکہ اسرائیل نے جان بوجھ کراس اسکول کونشانہ بنایا۔ہم نے متعددباراس اسکول کے حوالے سے آگاہ کیاتھا۔اس سوال پرکہ اسرائیل ایساکیوں کررہاہے؟اسرائیلی وزیراعظم کاکہناتھا:میں جانتاہوں کہ آپ شہری ہلاکتوں کے بارے میں فکرمندہیں لیکن ہمیں اس حوالے سے آپ کی فکرمندی کی کوئی پرواہ نہیں۔درحقیقت ہم اسکولوں،مسجدوں،اسپتالوں،یونیورسٹیوں اوربچوں پرحملے نہیں کررہے ہیں اورخاص بات جس کیلئے ہم کوشش کرہے ہیں وہ یہ کہ شہری ہلاکتیں زیادہ سے زیادہ ہوں،یہ ہماری ترجیح ہے۔میں جانتاہوں کہ آپ ہمارے اس اقدام کی حقیقت کوسمجھیں گے اور اگرآپ ہمارے دفاع کی عقلیت کوسمجھنے سے معذورہیں توپھرمجھے آپ کو (ہلیری کلنٹن کومخاطب کرتے ہوئے)امریکیوں ،صدراوباماکواقوامِ عالم کے سامنے وضاحت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ماضی میں امریکی صدرجارج واشنگٹن کااپنے جنرل کواحکام دیتے ہوئے کہنا تھا:’’ان کی آبادیوں کوتباہ وبربادکردیں ۔ان تمام باقیات کے خاتمے تک امن کاکوئی نغمہ سننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ریڈ انڈینزبھیڑبکریوں کی طرح ہیں،دونوں وحشی(انسان نہیں)ہیں،صرف شکلوں کافرق ہے‘‘۔یہ سب جان لینے کے بعدیہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ نیتن یاہونے یہ ’’روشنی‘‘ اسی سے لی ہوگی۔وہ کہتا ہے:دشمن قبیلوں کی جڑیں کاٹ دویا پھر انہیں (دریائے)مسی سپی کے پاردھکیل دو۔ان وحشی قبائل کے مکمل خاتمے کے سواکوئی اہم بات نہیں۔ان کی وحشیانہ حرکتیں قتل عام کاجوازہیں۔وہ اگر ہمارے چندآدمی ماریں گے توہم ان کے تمام افرادکوقتل کریں گے‘‘۔
امریکاکے پانچویں عظیم صدرروزویلٹ نے کہاتھا:تمام جنگوں میں سب سے عظیم جنگ وہ ہے جووحشیوں کے خلاف ہے۔میرے خیال میں ریڈانڈینزوہ ہیں جومرچکے ہیں اورمیراخیال ہے کہ دس میں سے نوہلاک ہوچکے ہیں اوردسویں کے بارے میں مجھے کوئی جستجونہیں ہے۔پانچ امریکی صدرواشنگٹن ،چیزسن،روزویلٹ،لنکن اورجیکسن کے بیانات چیخ چیخ کرکہہ رہے ہیں کہ ہم نے اسرائیل کووہ راہ دکھائی ہے جس پرآج وہ نہتے فلسطینیوں کاقتل عام بغیرکسی ندامت اورجھجھک کے کررہاہے۔
جدیدیت اورفلسفہ انسان پرستی کاسب سے بڑافلسفی کانٹ لکھتاہے:وہ شخص جوکسی کتاب یعنی وحی الہٰی سے ہدائت لیتاہے وہ روشن خیال نہیں بلکہ وہ انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں۔مغربی دانشور وں اورفلاسفرزکی تقلیدکی تازہ ترین مثال برطانوی وزیراعظم کے اس جواب میں ملتی ہے جس میں اس نے سعیدہ وارثی کے استعفیٰ کاجواب دیا۔سعیدہ وارثی کا استعفیٰ دیناہمارے لئے مسئلہ ہے مگرہم اسرائیل کے دفاع کے حق کوتسلیم کرتے ہیں۔ان اقوال اورتشریحات کی روشنی میں فلسطین میں حماس،افغانستان میں طالبان،الجزائرمیں اسلامک فرنٹ اورمصرمیں اخوان المسلمون کو دیکھیں کہ مغرب ان کادشمن کیوں ہے؟انہی فلسفیوں کی تشریحات بتاتی ہیں کہ راسخ العقیدہ مسلمان ان کے ہاں انسان کی تعریف پر پورا نہیں اترتے،لہنداان مسلمانوں کاقتل جائزہے اور اوباما کا طاغوت اسلام کے خلاف نہیں،مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہاہے جس میں بہنے والاخون ’’جائز‘‘ہے۔جس وقت طاغوتی طاقتیں ظلم وستم کے نت نئے حربے اختیارکررہی ہیں باقی دنیازبانی جمع خرچ سے آگے کچھ نہیں کررہی۔ مغرب سے گلہ کیساجب مسلم امہّ ہی امریکاکواپناملجاوماویٰ سمجھے اورانہیں کے بینکوں میں اپنے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کومحفوظ سمجھے!!!

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے