تربیتِ اولاد سے غفلت پچھتاوے کا سبب بنے گی
جاویدہ بیگم ورنگلی
بچے کو صرف اچھا کھلانا پلانا اور پہنانا ہی والدین کی ذمہ داری نہیں ہوتی ، بچے کی تربیت اس کے چال چلن، طور طریقے، میل ملاپ اور دوست احباب پر بھی مسلسل نگاہ رکھنی ہوتی ہے۔ اس طرف سے غفلت کا نتیجہ بگاڑ ہی کی صورت میں سامنے آئے گا ۔
آدم اور حوا علیہم السلام نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور غلطی کا احساس ہوتے ہی انہوں نے اعترافِ گناہ کیا اور اللہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ یہ غلطی ہم نے خود سے نہیں کی ، شیطان نے کچھ اس طرح ہم کو ترغیب دی کہ ہم اس کی باتوں میں آگئے ، تیری نافرمانی ہم سے ہو گئی ۔ ہم انہی کی اولاد ہیں مگر ہم اپنی کسی غلطی کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہوتے، اپنی ہر غلطی کا الزام دوسروں کو دیتے رہتے ہیں ۔ آج کل نشانے پر نوجوان نسل ہے۔ بیٹھکوں اورمحفلوں میں یہ نوجوان نسل موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے کیوں کہ نوجوان نسل کا بگاڑ نہ صرف آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے بلکہ اس بگاڑ کا خمیازہ بڑوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ان کی بد تمیزی و بدسلوکی، بد اخلاقی اور زبان درازی گھر کا سکون تباہ کر کے رکھ دیتی ہے، جینا دو بھر ہو کر رہ جاتا ہے۔ بڑے آپس میں مل بیٹھ کر اولاد کے بگاڑ کا رونا روتے ہیں۔ جس اولاد کو آرام پہنچانے کے لیے دن رات کولہو کے بیل کی طرح کام کیا، دن کو دن سمجھا نہ رات کو رات، بس زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ آج وہی اولاد ایسی نا خلف نکلی کہ باپ کا وجود ہی بار خاطر نظر آرہا ہے۔ ہر ایک اپنی ان کوششوں کا، جو اولاد کو آرام پہنچانے کے سلسلے میں کیا تھا، اولاد کے طرز عمل پر اپنے رنج اور پریشانی کا اظہار کرتا ہے مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہی تو ہے کہ اولاد آرام طلب، عیش پسند ہو گئی ہے ۔ عیش پسند ، آرام طلب اولاد کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ان سے خدمت گزاری ہوگی ۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ صحت کے ہزاروں مسائل پیدا ہوتے ہیں جو محنت اور خدمت مانگتے ہیں۔ عیش و آرام میں پلی بڑھی اولاد جو عیش دنیا کو سب کچھ سمجھتی ہو وہ بھلا ماں باپ کی خدمت کرنا کیوں چاہے گی؟ یہ ہٹی کٹی عیش پسند اولاد ان کی ہی چاہتوں کا نتیجہ تو ہے۔
نیم کا بیج بو کر آم کی توقع تو نہیں کی جاسکتی ۔ جو بیج بویا جاتا ہے وہی پھل تو ملے گا۔ فصل حاصل کرنے والا کسان کسی وقت بھی اپنے فصل سے غافل نہیں رہتا۔ فصل کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو فوراً ہی اس کا تدارک کرتا ہے۔ واقعات میں پڑھنے میں آیا کہ حضرت عبدالعزیز بن مروان مصر کے گورنر تھے جب ان کے بیٹے عمر نے ہوش سنبھالا تو ان کو اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوئی تب انہوں نے اپنے بیٹے عمر کو مدینہ کے استاد صالح بن کیسان کے پاس بھیجا۔ حضرت صالح بن کیسان نے بڑی محنت و تو جہ سے ان کی تعلیم و تربیت کی۔ خاص کر نماز کی پابندی کی تاکید کرتے ۔ اس سلسلے میں کسی کوتاہی کو ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے۔ ایک دن اتفاق سے عمر نماز میں دیر سے پہنچے، نماز سے فراغت کے بعد حضرت صالح نے پوچھا کہ نماز میں دیر سے کیوں آئے؟ عمر نے جواب دیا حضرت! میں بال سنوار رہا تھا۔ صالح نے کہا اچھا اب بالوں کی طرف اتنی توجہ ہوگئی کہ نماز میں تاخیر ہونے لگی ۔ ایسے بال سر پر کیسے رکھے جاسکتے ہیں جو نمازوں میں تاخیر کا سبب بنیں؟ فوراً حضرت صالح نے گورنر مصر عبدالعزیز کو خط لکھ بھیجا ، واقعہ تفصیل کے ساتھ لکھا۔ عبدالعزیز نے فوراً ایک آدمی کو مدینہ بھیجا اور یہ تاکید کی کہ مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے عمر کے بال منڈواؤ۔ اس کے بعد کسی سے بات کرنا۔ اس حسن تربیت اور نمازوں کی پابندی کی برکت تھی کہ عمر شان بنے تاریخ کی ایک زندہ جاوید ہستی ۔ جب انہوں نے خلافت سنبھالی تو لوگوں نے پھر ایک بار آنکھوں سے خلافت راشدہ کا مبارک دور دیکھا۔
ایک قاتل کو جب سولی کی سزا دی جا رہی تھی اس وقت اس سے آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے اپنی ماں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ جب بیٹے سے ملنے ماں آئی تو اس نے ماں کو کان قریب لانے کا اشارہ کیا۔ ماں سمجھی کہ بیٹا اس سے کوئی خاص بات کہنا چاہتا ہے۔ کان قریب لائی تو بیٹے نے ماں کا کان کتر دیا۔ اس حرکت پر جب اس کو لعنت ملامت کیا گیا تو وہ کہنے لگا آج میں جو اس انجام کو پہنچا ہوں اس کی ذمہ دار یہ میری ماں ہے۔ میں جب پہلی بار چوری کیا تھا تو اس وقت مجھے برا بھلا کہا نہ مجھے کچھ نصیحت و ہدایت کی ۔ اس کے نتیجے میں میں چور ڈا کو قاتل بن گیا۔ ایک کسان صرف کھیت میں بیج بوکر کھیت کو پانی دے کر اطمینان سے بیٹھا نہیں رہتا وہ مسلسل اپنی ہونے والی فصل کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے۔ وہ صرف یہی نہیں دیکھتا کی فصل کو خاطر خواہ پانی مل رہا ہے بلکہ اس بات پر بھی خصوصی توجہ دیتا ہے کہ فصل کیڑا لگ جانے سے محفوظ ہے یا نہیں۔ اگر فصل کو کیڑا لگ جائے تو فورا ہی اس کا تدارک کرتا ہے ۔ یہ
کوشش اس وقت تک کرتا رہتا ہے جب تکہ فصل کیڑوں سے صاف نہ ہو جائے۔ انسان کا بچہ تو مسلسل نگہداشت چاہتا ہے۔ اس کے بگڑنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بچے کو صرف اچھا کھلانا پلانا اور پہنانا ہی والدین کی ذمہ داری نہیں ہوتی ، بچے کی تربیت اس کے چال چلن طور پر طریقے میل ملاپ دوست احباب پر بھی مسلسل نگاہ رکھنی ہوتی ہے۔ اس طرف سے غفلت کا نتیجہ بگاڑ ہی کی صورت میں سامنے آئے گا ۔ جو بگاڑ آج کل موضوع بحث بنا رہتا ہے- ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔
جواب دیں