آخر کار اللہ نے ان کی سن لی اور بارہ سال بعد ہی سہی ان کی رہائی ہوگئی۔ وہ اپنے بال بچوں اور دوست و اھباب سے سے ملنے میں کامیاب ہوئے۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا اللہ ہوتا ہے ، یہ بات دوسروں کے لئے محض ایک کہاوت جیسی ہو مگر انھیں اب اس کا یقین کامل ہوچکا ہے۔ ان کی بے گناہی کا گواہ کوئی نہیں تھا،سوائے اللہ کے، اور اب آخر کار اسی اللہ نے بچالیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو وقت ان کا جیل کی کال کاٹھری میں گزرا ہے اس کا حساب کون دے گا؟ کون لوٹائے گا ان کے بیتے ہوئے دن؟ کو ن واپس کرے گا زندگی کے وہ لمحات جوجرم بے گناہی کی سزا میں بیتے ہیں؟ وہ آج بھی یہی سوچتے ہیں کہ ان کا جرم کیا تھا کہ جو بارہ برس تک انھیں قید بند کی مشقتیں جھیلنی پڑیں۔ جس ملک میں بڑے بڑے جرائم پیشہ منتری بن جاتے ہیں وہاں ان کا گنہنگار نہ ہوناہی جرم تھا کیا؟ آج اسی احساس کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں اکشر دھام مندر پر حملے کے ملزم۔ ۲۰۰۲ء کا وہ منحوس دن یہ کبھی ننہیں بھول سکتے جب مندر پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا ۔ اس حملے کی خبر انھیں بھی اسی طرح میڈیا سے ملی تھی جس طرح باقی دنیا کو ملی تھی مگر انھیں کیا پتہ تھا کہ یہ گناہ ان لوگوں کے سر منڈھ دیا جائے۔مفتی عبدالقیوم منصوری، آدم اجمیری، سلیم شیخ، الطاف ملک، چاندخان اور مولاناعبدالقادر وہ بے گناہ ہیں جن کی بے گناہی کا اعتراف سپریم کورٹ بھی کرچکا ہے مگر وہ آج بھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل پائے ہیں جو ان پر گزرا ہے۔ ان پر جو جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے اور جس طرح سے انھیں دہشت گرد و ملک دشمن کہہ کر بے عزت کیا گیا، اس کا تصور ہی ان کے لئے سوہانِ روح ہے۔آج وہ اس احساس کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں جو ان کے دل کو اندر تک گھائل کردیتا ہے۔ ان کا سب کچھ برباد ہوچکا ہے مگر پھر بھی وہ اپنے ٹکڑا ٹکڑا وجود کو سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔
کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن
گجرات کے اکشر دھام مندرپر ہونے والا دہشت گردانہ حملہ ان مسلمانوں کے خاندانوں پر قیامت بن کر ٹوٹا تھا جنھیں پولس نے خواہ مخواہ ملزم بنا دیاتھا۔ ان لوگوں پر الگ الگ طرح کے الزمات ڈال دیئے گئے اور پورے گجرات میں یہ تشہیر کی کوشش کی گئی کہ یہ مسلمان ملک کء امن ومان کے دشمن ہیں۔ میڈیا نے اس بات کی خوب تشہیر کی اور طرح طرح کی کہانیاں ان لوگوں کے خلاف میڈیا میں چلائی گئیں۔ ٹی وی چینلوں نے اپنی ٹی آر پی بڑھائی اور اخباروں نے سنسنی پھیلاکر اپنی اشاعت بڑھائی مگر جب انھیں سپریم کورٹ کے حکم پر بری کیا گیا تو کسی چینل یا اخبار سے اس خبر کو اہمیت نہ دی۔ کیا صحافتی دیانتداری اسی کا نام ہے؟ یہ بے گناہ لوگ دلی میں آئے اور جمعیہ علماء ہند نے ایک پریس کانفرنس میں انھیں پیش کیا جہاں انھوں نے اپنی روئداد سنائی مگر اس کا کوریج کسی ٹی وی چینل نے نہیں کیا۔ اسے صرف اردو کے چند اخباروں نے اپنے یہاں شائع کیا۔ ان لوگوں کے مقدمے کی پیروی جمعیۃ نے ہی کی تھی اور اس کا خرچ اسی نے اٹھایا تھا۔ آدم اجمیری نے نچلی عدالت نے عمرقید کی سزا سنادی تھی مگر سپریم کورٹ نے انھیں بری کردیا۔ آج وہ جیل میں نہیں مگر پولس کی دہشت آج بھی قائم ہے جو کسی بھی طرح ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب میں دلی پریس کانفرنس کے لئے نکلا تو میرے بیٹے کو پولس نے تھانے بلایا اور اس سے میرے بارے میں دریافت کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مجھے پولس نے تھانہ بلایا اور مجھ سے بہت سے سوالات پوچھے۔ گویا سپریم کورٹ نے خواہ انھیں بری کردیا ہو مگر پولس ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ آج بھی پولس کی دہشت کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں۔ ان سے دہشت گردوں سے تعلق رکھنے کے معاملے میں پوچھ تاچھ کی گئی تھی۔ پولس اس بارے میں کہتی ہے کہ ہاں ہم نے سوالات پوچھے ہیں۔ آدم اجمیری کا کہنا ہے کہ کئی بار پولس نے بلایا اور ان سے سوالات پوچھے۔ یہاں تک کہ ان کی بیوی کو بھی بلایا گیا اور ان سے بھی پولس نے ڈھیر سارے سوالات پوچھ ڈالے۔ جن میں یہ بھی شامل تھا کہ میں کیا کرتا ہوں اور کہاں جاتا ہوں، وغیرہ وغیرہ۔
وہ خط کہاں سے آیا تھا؟
مفتی عبدالقیوم منصوری، خود عالم دین ہیں اور دوسروں کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کو تشدد اور دہشت گردی کا سبق نہیں سکھایا۔ وہ ہمیشہ اس قسم کی باتوں کی مخالفت کرتے رہے مگر انھیں بھی پولس نے گرفتار کرلیا۔ الزام تھا کہ اکشردھام مندر میں مرنے والے ایک دہشت گرد کی جیب میں خط پایا گیا تھا جو ان کے نام لکھا تھا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے پایا کہ مرنے والے دہشت گردوں کے جسم گولیوں سے چھلنی تھے اوران کے کپڑے خون سے تر تھے ایسے میں خط کا بالکل بے داغ ہونا اپنے آپ میں کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ کورٹ نے محسوس کیا کہ یہ خط الگ سے لکھ کر رکھا گی اتھا جس کا مقصد انھیں پھنسانے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس پورے معاملے میں پولس والوں نے اسی طرح کہانی تیار کی تھی جس طرح فرضی انکاؤنٹرس کے معاملے میں انھوں نے کیا تھا؟ جس طرح عشرت جہاں، تلسی رام پرجا پتی، سہراب الدین شیخ وغیرہ کے قتل کی سازش خود پولس کے ااعلیٰ افسران نے حکومت گجرات کے شہہ پر تیار کی تھی اسی طرح ان لوگوں کو بھی پھنسانے کی سازش رچی گئی تھی۔ یہ خط زبان ھال سے بہت کچھ بیان کرتا ہے، مگر اس ملک میں مسلمان کی کون سنتا ہے؟ مفتی عبدالقیوم نے اسی خط کی وجہ سے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔ آج وہ دوبارہ امید کرتے ہیں کہ وہ پھر بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا شروع کرسکیں گے اور ان کی زندگی دوبارہ پٹری پر لوٹ آئے گی۔ انھوں نے پوچھ تاچھ کرنے والے پولس والوں کو کہہ دیا ہے کہ میرے کلاس میں آؤ اور میں کیا پڑھاتا ہوں سنو۔ان سے پولس سوال کرتی ہے کہ کیا تمہارا انڈین مجاہدین سے تعلق ہے؟ پچھلے دنوں یہ رہاشدہ لوگ ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کے لئے گئے تھے تب بھی ان کے گھر والوں کو پولس نے بلایا تھا اور ان سے ان کی غیر حاضری کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے انھیں کلین چٹ دے دی ہے تو پولس کیوں پریشان کر رہی ہے؟ کیا وہ خود کو عدالت سے بھی اوپر کا مانتی ہے؟
سہاگن کے ارمانوں کی قیمت؟
جن بے گناہوں کو ایک مدت تک جیل میں رکھا گیا ان میں الطاف ملک کی کہانی دوسروں سے الگ ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر دینے والی ہے۔ان کی شادی کو ابھی محض تین دن ہوئے تھے کہ اکشر دھام مندر کا حادثہ پیش آیا اور وہ ۶ اگست۲۰۰۳ء کو گرفتار کر لئے گئے۔ابھی ان کی بیوی کے ہاتھوں کی مہندی کے رنگ بھی پھیکا نہیں ہوا تھا کہ انھیں جدائی کا صدمہ سہنا پڑا۔ جب ان کا پہلا بچہ پیدا ہوتو وہ جیل میں تھے ااور بہہت خواہشوں کے باوجود اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے۔ ان کی بیوی انتہائی درد انگیز لہجے میں بتاتی ہیں کہ ایک بار ان کے میکے میں انھیں پولس لے کر آئی ۔ پولس والوں کے ہاتھ میں اے کے ۴۷ تھے۔ چار پولس والے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے، جن میں سے دو ہمارے پلنگ پر بیٹھ گئے اور ہمیں ایک لمحہ بھی تنہائی میں نہیں چھوڑا۔
زندگی کو سمیٹنے کی کوشش
جو لوگ بھی دہشت گردی کے الزام میں پکرے گئے تھے وہ آج بھی پولس کء راڈر پر ہین۔ انھیں طرح طرح سے پولس پریشان کرتی ہے۔ کورٹ نے انھیں بے گناہ مان لیا ہے مگر پولس آج بھی انھیں بے گناہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن ان کے ساتھ سب سے برا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سماج میں بدنام ہوچکے ہیں اور لوگ ان سے درو بھاگتے ہیں۔ جو لوگ انھیں جانتے ہیں اب پاس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ کام دھندے سب کے ختم ہوچکے ہیں اور اب نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنا انھیں ایک مشکل کام لگتا ہے۔ انھیں سمجھ نہیں اتا کہ کیاکریں اور کیا نہ کریں۔ زندگی بکھر سی گئی ہے مگر اب وہ کسی طرح سے اسے سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو ایام انھون نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے ہیں انھیں اب کوئی نہیں لوٹا سکتا۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان پولس والوں کے خلاف کوئی کارروائینہیں ہوگی جنھوں نے انھیں جھوٹے کیسوں میں پھنسایا تھا مگر انھیں اللہ کی ذات پر پکا بھروسہ ہے کہ وہ ضرور انصاف کرے گا۔
جواب دیں