اگر تمام وکیل اپنی جوان بیٹیوں کے جذبات کی خاطر مقدمہ ہاتھ میں لینے سے انکار کردیں تو حکومت قانون کو اس کا فرض ادا کرانے کے لئے اپنی طرف سے وکیل فراہم کرے گی تاکہ وہ ڈرامہ جسے بی بی سی کے ایک فلم ساز نے ایک گھنٹہ کی فلم بناکر دکھایا ہے وہ رُک رُک کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا رہے اور پورے ملک کے ٹی وی اور اخبارات قوم کو دکھاتے رہیں۔
ہمارے ملک کا قانون آسمان سے نازل ہونے والی کتابوں کا قانون نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں نے بنایا ہے جو ایسے کسی جرم کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اور اس زمانہ میں بنایا ہے جب انسان انسان ہوتے تھے شیطان نہیں ہوتے تھے۔ اب یہ قانون ایسا ہے کہ یہ اس حرکت سے بھی زیادہ شرمناک ہے جو تین سال پہلے دہلی میں ہوئی تھی اور جو اس کو دھرم اور ایمان سمجھے بیٹھے ہیں وہ ان سے بھی بڑے مجرم ہیں جنہوں نے ایک شریف لڑکی کے ساتھ وہ کیا جسے کرتے ہوئے شاید شیطان کو بھی بعد میں شرم آجائے۔ یہ اسی ناپاک قانون کا انعام ہے جو ایک 17 برس کے لڑکے کو اس لئے صرف تین سال کی جیل کی تفریح دی کیونکہ پیدائش کے رجسٹر میں اس کی عمر 17 سال ہے۔ حالانکہ یہ ججوں کو بھی معلوم ہے اور حاکموں کو بھی کہ اس نے سب سے زیادہ وہ کیا جو دوسروں نے اس لڑکی کے ساتھ کیا اور اس نے ہی لوہے کے ایک اوزار سے یہ کہتے ہوئے کہ ’’مرسالی‘‘ وہ چوٹ پہونچائی جو اس کی موت کا سبب بنی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صرف اس ذلیل کو بچانے والے قانون کو اسی وقت جلا دیا جاتا جب اسے پھانسی کے بجائے تین سال تفریح کرنے کی خوشخبری سنائی تھی۔ یہ وہی قانون ہے جیسے کرناٹک کے بنگلور میں حکومت کرنے والے ویرپن کے ساتھیوں کو سات برس پہلے پھانسی کی سزا سناکر اور وکیلوں کے ہر پینترے کو ردّ کرکے پھانسی کی تاریخ بھی مقرر کردی تھی۔ مگر اس کو بھی ایک سال ہوگیا اور پھانسی نہیں دی جاسکی۔ یہ وہی قانون ہے کہ جس نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار بینت سنگھ کی کار کو بم سے اُڑا دیا اور ثابت ہوگیا کہ یہ حرکت کس نے کی ہے پھر بھی اس کا مقدمہ دس سال چلا اور رہائی کی ہر کوشش جب ناکام ہوگئی تو موجودہ وزیر اعلیٰ سردار بادل آئے اور سردار وزیر اعظم کو دھمکی دے کر چلے گئے اس کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے لہٰذا پھانسی کے بجائے عمرقید دی جاتی ہے۔ اور یہ وہی قانون ہے جس نے اس آدم خور کی پھانسی کی سزا کو بھی قید میں بدل دیا جس نے نہ جانے کتنی جوان لڑکیوں اور بچوں سے اپنی ہوس پوری کی پھر ان میں سے نہ جانے کتنوں کو کاٹ کر پکاکر کھالیا جن کی ہڈیاں مکان سے تھوڑی دور ملیں اس کی پھانسی کی بھی ہفتوں دھوم رہی پھر وہ بھی عمرقید کے انعام سے نواز دیا گیا۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ ’’کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘‘ حضرت زر ہیں یا کوئی وزیر و سفیر۔
ہریانہ، راجستھان اور یوپی میں کھاپ پنچایت نام کی ایک جاہلوں اور گنواروں کی عدالت ہے وہی ہائی کورٹ ہے وہی سپریم کورٹ اور وہی صدر جمہوریہ ان کا قانون ہے کہ ایک ہی برادری کا لڑکا اپنی برادری کی لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا وہ کہتے ہیں کہ یہ بہن بھائی ہیں۔ جو اس کی مخالفت کرتا ہے اسے سزائے موت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی کہیں اپیل نہیں ہے۔ وہ دونوں جب بھی ملیں جہاں بھی ملیں انہیں موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔ ہم نے نہ جانے کتنی بار اس کی مخالفت میں لکھا ہے۔ لیکن آج کہنا پڑرہا ہے کہ اگر یہ فیصلہ اور عمل غلط ہے تو یہ فیصلے بھی غلط ہیں کہ دہلی کے گینگ ریپ کا تیسرا سال چل رہا ہے اور اس کا ایک مجرم جیل کے اندر رہتے ہوئے بی بی سی کے لئے فلم بنانے والوں سے پوری بے شرمی کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ اگر وہ لڑکی زور زبردستی نہ کرتی اور ہم لوگ اس کے ساتھ جو بھی کرتے وہ چپ چاپ کراتی تو ہم نہ اسے مارتے نہ گراتے صرف اس کے ساتھی کو سزا دیتے۔ یہ حرام زادے وہ ہیں جو سماج میں سب سے نچلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے متعلق کہہ رہے ہیں جو اعلیٰ طبقہ کے افراد ہیں۔
اس خبر کے عام ہونے کے بعد وزیر داخلہ بے وجہ تیور دکھا رہے ہیں۔ انہیں بی بی سی کو نوٹس بھیجنے کے بجائے جیل کے تمام افسروں کو ملک دشمنی اور ملک سے غداری کے الزام میں جیل میں ڈال کر بھول جانا چاہئے تھا لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ سب کے سب ہندو ہیں۔ وہ اگر مسلمان ہوتے تو سب کو انڈین مجاہدین کے کارندے کہہ کر این. ایس. اے. کے تحت جیل میں ڈالا جاتا اور اس وقت انہیں نکالا جاتا جب وہ صرف قبر میں رہنے کے قابل ہوجاتے۔ وزیر داخلہ کو کوئی بھی بیان دینے سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے تھا کہ یہ فلم بنانے والے ایک بڑے کیمرے اور ایک وزیروں جیسا لباس پہنے ہوئے جیل کے اندر کیسے آئے؟ معلوم نہیں شری مودی اور راج ناتھ سنگھ کبھی جیل گئے ہیں یا نہیں۔ جیل میں بند کسی قیدی یا حوالاتی سے ملاقات صرف جیل کے بیرونی احاطہ میں وہ بھی ہفتہ میں ایک بار ملاقات کے دن ہوسکتی ہے۔ اگر ہم جیسے یا ہم سے بھی زیادہ اہمیت والے ہوں تو جیلر کے کمرے میں ان کی موجودگی میں ہوگی۔ ہماری گرفتاری کے چند دنوں کے بعد ہی سپرنٹنڈنٹ اور جیلر کا رویہ اس لئے شریفانہ ہوگیا تھا کہ اخباری برادری نے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا اس کے باوجود کسی کو ہم سے ملنے کے لئے جیلر کے دفتر سے آگے نہیں آنے دیا پھر یہ فلم ساز کیسے پہونچے؟
’’ہندوستان کی بیٹی‘‘ فلم تو بن گئی اور 7 مارچ کو میرے چھوٹے بیٹے نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر انہوں نے دیکھی بھی ہے اور بتایا کہ کوئی فحش سین نہیں ہے بس وہی کچھ ہے جو خبروں میں سنایا جارہا ہے اور چھاپا جارہا ہے۔ بیشک یہ حکومت کے لئے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ اس کے نوکر ایسی من مانی کریں جیسی مفتی سعید کررہے ہیں۔ لیکن اگر اندھے بہرے لولے لنگڑے قانون کو پھلانگتے ہوئے ملک مں رہ رہ کر انصاف انصاف کے شور کو وزیر داخلہ بند کرنا چاہتے ہیں تو صرف مکیش سنگھ کے اس بیان کو جو اس نے فلم بنانے والوں کو دیا ہے آخری ثبوت مان کر پھانسی کا فیصلہ کریں اور پھانسی کی سزا دے کر ہمارے جیسوں کا بھی منھ بند کردیں جو نہ جانے کتنی بار لکھ چکے ہیں کہ اس ملک میں ہندو کو پھانسی دیتے وقت جیل کے افسروں کو مجسٹریٹ کو ڈاکٹر اور جلاد کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور وہ پھانسی نہیں دے پاتے لیکن اگر افضل گرو ہو تو پھر فرض ادا کرنا بھی بھول جاتے ہیں ’’پُنّ‘‘ کمانے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور پھانسی دے کر زمین میں داب دیتے ہیں۔
ہمیں وزیر قانون بھی معاف کریں اور عدالتیں بھی کہ ملک کا قانون اتنا لچکدار ہے کہ اگر وکیل قابل اور قانون کی کمزوریوں سے واقف ہو تو اسی مقدمہ کو دس سال تک گھسیٹ سکتا ہے 1967-68 ء میں حکومت نے ہمارے 17 مضامین کے خلاف 17 مقدمے قائم کئے وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ہم لکھنے سے توبہ کرلیں۔ ہمارے دوستوں میں کئی وکیل تھے جنہوں نے دوستی کا حق ادا کردیا۔ ایک جوڈیشیل مجسٹریٹ جس کی عدالت میں یہ سب مقدمے تھے اس کی شہرت تھی کہ انتہائی متعصب ہے ہمارے دوستوں نے دو سال تک ایک مقدمہ بھی اس عدالت میں چلنے نہیں دیا جبکہ ہم نے ایک پیسہ بھی کسی کو نہیں دیا۔ اس کے بعد جو جج آئے وہ واقعی انصاف جانتے تھے ان کی عدالت میں تمام مقدمے صرف چھ مہینے میں ختم ہوگئے۔ حکومت اور کئی سرکاری وکیل منھ پیٹ کر رہ گئے۔ سنبھل میں 1978 ء میں فساد ہوگیا ہندوؤں کی طرف سے جو مقدمہ قائم ہوا اس میں 80 مسلمانوں کو جو دولت مند اور بہت دولت مند تھے ملزم بنایا گیا یہ مقدمہ مراد آباد میں 8 برس چلا اور ایک پیشی بھی ایسی نہیں ہوئی کہ جس میں تمام ملزم حاضر ہوں اور مقدمہ کی سماعت شروع ہو وہ صرف اس لئے کہ پولیس سے لے کر عدالت تک سب کو پیسہ چاہئے اور ملزموں کے پاس پیسہ کی کمی نہیں تھی آخرکار ایک بہادر جج آئے انہوں نے 20 لاکھ روپئے لئے اور مقدمہ کو عدم پیروی میں خارج کردیا۔ نہ ہائی کورٹ نہ سپریم کورٹ، نہ صدر جمہوریہ اس لئے کہ ’’سب سے بڑا روپیہ‘‘۔ اور یہ اسی قانون کے ناکارہ اور مردہ ہونے کی وجہ سے ہوا کہ ناگالینڈ میں ایک بھاری تن و توش والے آدمی کو ہزاروں آدمیوں نے جیل کا پھاٹک توڑکر جیل سے نکالا اس کے تمام کپڑے پھاڑکر اسے برہنہ کیا اور اتنا مارا کہ وہ مرگیا اس کے بعد اسے ایک کھمبے سے لٹکا دیا اور دکھادیا کہ نربھیا کیس کی طرح گینگ ریپ کے دوسرے کیس بھی اسی رفتار سے چلیں گے تو وہ کیا جائے گا جو ناگالینڈ والوں نے کیا اس واقعہ کو شیوسینا کے ترجمان سامنا نے سراہا ہے اور یہی کہا ہے جو ہم نہ جانے کتنی بار لکھ چکے ہیں کہ جرم کی پرورش کرنے کا کام سب سے زیادہ عدالتیں کررہی ہیں۔ نہ جانے کتنے ایسے مجرم جن کو سب نے پھانسی کی سزاد ی اس کی سزا کو کسی نہ کسی بہانہ سے عمرقید میں بدل دیا۔
ہم نے آج تک زندگی میں کبھی شیوسینا کے کسی فعل یا قول کی تعریف نہیں کی آج ہم دل سے اس کی تعریف کررہے ہیں اس لئے کہ وہ بی جے پی کی بہن ہے اور اس سے یہ بھی کہیں گے کہ قانون کی اس نامردی پر ماتم کرنے کے بجائے اسے بدلنے کی تحریک چلائے اور ہر شہر میں ایک عدالت ایسے مقدمات کی سماعت کے لئے بنانے کا مطالبہ کرے جس میں ہر 20 منٹ میں ہونے والے ریپ اور قتل کی سماعت کی جائے اور 100 دن سے پہلے فیصلہ کرے یا پھانسی یا باعزت بری اگر اس سے زیادہ وقت لگے تو جج صاحب کا تبادلہ۔ شیوسینا نے اپنی مسلم دشمنی کی اس میں بھی جگہ نکال لی اور اس سزا کو طالبان سے جوڑ دیا جبکہ اس کی سگی رشتہ دار کھاپ پنچایت کی شکل میں اپنے ملک میں ہی موجود ہے۔ اور اس قانون کی مستانی چال کا یہ نمونہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے کہ مشہور لیڈر ڈی پی یادو کو 23 برس کے بعد قتل کے الزام میں عمرقید کی سزا دے دی گئی۔ ابھی اپیل اور رحم کی درخواست کے مرحلے باقی ہیں جن میں اتنا وقت لگ سکتا ہے کہ آخری رسوم بھی ادا ہوجائیں اور جیل کی گود سونی ہی رہ جائے۔
جواب دیں