قید وبند کی رکاوٹیں اور علم فن کی سوغاتیں

 فیصل احمد ندوی بھٹکلی

(استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)

    اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ہر جگہ لاک ڈاون کا نظام نافذ ہے،جس کی وجہ سے تقریبا پوری دنیا قید خانہ بنی ہوئی ہے، اور ہر شخص اپنے گھر اور مستقر میں محصور کیا گیا ہے۔
    اس صورتحال میں اپنے وقت کو کس طرح کارآمد بنائیں،ہر سنجیدہ شخص کو اس پر غورکرنا چاہیے، مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے،وہ آزمائشوں اور پریشانیوں کو ذہن و دماغ پر سوار کر کے بیٹھا نہیں رہتا ،نہ مایوسی اس کے قریب آتی ہے، نہ وہ ہمت ہارتا ہے۔اس کے لیے بشارتیں ہی بشارتیں ہیں،بلکہ خوش مستی اور سرشاری کی بہاریں ہیں۔فرمان نبوی ہے ''عجبا لأمر المومن إن أمرہ کلہ لہ خیر ولیس ذالک لأحد إلاللمومن،إن أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ،وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیر ا لہ (صحیح مسلم کتاب الزھد،رقم:2999)
(یعنی مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔اس کے سارے معاملات خیر ہی خیر ہیں،اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کو حاصل نہیں۔اگر خوشی کا معاملہ پیش آتا ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔اگر پریشانی سے دوچار ہوتا ہے تو صبر سے کام لیتا ہے،اور یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے)
    یہ تو مفت کا سودا ہے،لیکن وہ اس کے ساتھ اس خیر کو  بہتر صورت دینے کے لئے غور و فکر کرتا ہے،اور وقت کو مفید سے مفید تر بنانے کے لئے منصوبے بناتا ہے،تگ و دو کرتا ہے اور دنیا و آخرت مین سر خ روئی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
    ہم یہاں خیر کی ان تمام صورتوں سے قطع نظر کرتے ہوئے تاریخ کی روشنی میں صرف اس کے ایک پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اساطینِ ادب اور اصحابِ علم و فضل نے پریشانی کے ان لمحات اور آزمایش کی ان گھڑیوں میں طرح طرح کی پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود کیسے کیسے علمی کارنامے انجام ددیے اور امت کو کس قدر قیمتی سوغاتیں عطاکیں:-
ٌ ٭ ابو تمام (حبیب بن اوس الطائی المتوفی 231؁ھ) عربی ادب کامشہور ترین نام ہے۔وہ عربی کا بڑا شاعر تھا۔اس کے اسفارگہرے معانی کے حامل ہوتے ہیں اور اس کی کتاب'' دیوان الحماسہ'' سے تو عربی ادب کا ہر طالب علم نہ صرف یہ کہ واقف، بلکہ ہر شخص اس کی اہمیت اور عظمت کا قائل ہے۔کہنے والوں نے یہاں تک کہا ''إن أبا تمام فی اختیارہ أشعر منہ فی شعرہ ''یعنی دیوان الحماسہ کے اس کے شعری انتخاب میں اس کی اپنی شاعری سے بڑھ کر شاعرانہ کمال کا اظہار ہوا ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس نے یہ حیرت انگیز کام گھر اور وطن کے سکون میں نہیں کیا،بلکہ حالت مسافرت میں جب وہ خراسان سے عراق واپس ہورہا تھا تو اثنای راہ سے ہمدان میں ابو الوفاء بن سلمہ نے اس کو اپنے یہاں مہمان بنایا اور اس کی آؤ بھگت کی۔اسی دوران میں کہ وہ وہاں ٹہرا ہوا تھا،برف گری اور اتنی گری کہ راستے مسدود ہوگئے اورآگے بڑھنا دشوار ہوگیا۔اس سے ابو تمام کو بڑی کوفت ہوئی اور وہ بڑی پریشانی کا شکار ہوا۔ابو الوفاء نے اپنے کتب خانہ کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا۔اس کے کتب خانہ  میں عربی ادب و شاعری کی ڈھیر ساری کتابیں تھیں۔ اب ابو تمام کو اصل غذا ہاتھ آگئی تھی۔اب وہ کتابوں کے مطالعے میں جٹ گیا، اور ان سے اشعار کا انتخاب کرنے لگا اس کے نتیجہ میں دیوان الحماسہ جیسا عظیم اور حسین انتخاب پیش کیا۔ تا آنکہ برف پگھل گئی اور راستہ صاف ہوگیا اور اس نے اپنی راہ لی۔(دیکھیے شرح الحماسہ للتبریزی (54/1   )
 ٭المبسوط  فقہ حنفی کی ایک مایہ ناز اور بے نظیر کتاب ہے۔اس کے مصنف شمس الائمہ سرخسی (محمد بن احمد بن ابی سھل المتوفی 483؁ھ)ہیں انھوں نے یہ کتاب اس وقت تصنیف کی جب وہ  اوز چند کے قید خانے میں گہرے کنویں میں محبوس تھے۔طریقہ یہ تھا کہ وہ بولتے جاتے تھے اور اوپر موجود ان کے شاگرد اس کو ضبط کرتے جاتے تھے اورنہایت حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وقت ان کے سامنے کوئی کتاب نہیں تھی، وہ سب کچھ زبانی لکھوا رہے تھے اور یہ چند صفحات نہیں، کئی ہزار صفحات ہیں۔یہ کتاب دس ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔پھر یہ کتاب ایسی فصیح زبان میں ہے کہ عصر حاضر کے ایک بڑے اور مشہور ادیب شیخ علی طنطاوی (متوفی 1999؁ء) نے اس کو ادب کے طالب علم کے لئے مقامات حریری سے زیادہ مفید بتایا ہے۔
    امام سرخسی نے حالت قید میں اس کتاب کو لکھنے کا تذکرہ اپنی کتاب میں متعدد ابواب کے خاتمے پر کیا ہے۔ نیز دیکھئے (الجواھر المضیۃ فی طبقات الحنفیہ 3 80-78/
    یہی نہیں بلکہ'' شرح ا لسیر الکبیر'' بھی ان کی ایک عظیم کتاب ہے، اس کو بھی انھوں نے حالت قید دہی میں لکھوایا تھا(دیکھیے الفوائد البھیہ فی تراجم الحنفیہ ص261،رقم الترجمہ328)
٭احمد بن علی بن ہبۃ اللہ الزوال المعروف بابن المامون(م586؁ھ) امام لغت ابو منصور الجوالیقی (متوفیٰ540؁ھ) کے شاگردنحو ولغت کے ماہر اور فقہ کے عالم تھے،اور منصب قضا پر فائز تھے۔گیارہ سال انہوں نے قید خانے میں گزارے اواسی حال میں اسی جلدیں لکھی انہی میں شرح الفصیح بھی ہے(دیکھیے بغیۃ الوعاۃ ۱/۹۴۳رقم الترجمہ668)۔  (الفصیح: امام نحو ثعلب(م291ھ) کی فن لغت میں مشہور اور کثیر الفائدہ کتاب ہے)
٭شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ(احمد بن عبدالحلیم المتوفیٰ 728ھ)جہاں بہت سے کمالات میں منفرد ہیں وہیں ان کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ انہوں نے بہت سی کتابیں حالت قید میں لکھیں ان کے باکمال شاگرد علامہ ابن عبد الہادی (محمد بن احمد بن عبد الہادی المقدسی متوفیٰ 744ھ)نے'' العقود الدریۃ من مناقب شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ'' میں اس کی صراحت کی ہے۔
٭محمود بن اسرائیل المعروف بابن قاضی سماوتہ (المتوفی823ھ)اپنے عہد کے بڑے حنفی فقہاء میں جن کا شمار ہوتاتھا۔الفوائدالبہیۃ اور حدائق الحنفیہ وغیرہ میں جن کے حالات موجود ہیں۔وہ قاضی بھی تھے۔ انہوں نے فقہ حنفی میں '' لطیف الاشارات'' کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی پھر''التسھیل ''کے نام سے اس کی شرح لکھی یہ شرح انہوں نے حالت قید میں لکھی تھی اس کا مخطوطہ تونس میں موجود ہے۔(دیکھیے الاعلام للزرکلی 166-165/7)
٭احمد بن یحییٰ بنالمرتضی الحسنی (ت:840ھ)یمن کے  ایک بڑے کثیر التصانیف عالم، ادیب وفقیہ تھے، جن کا شمار آئمہ زیدیہ میں ہوتا ہے۔ متعدد اہم کتابیں انہوں نے حالت قید میں لکھیں جن میں '' الأزہار فی فقہ الأئمۃ الأطھار، الأنوار فی الآثار الواردۃ لمسائل الأزھار'' وغیرہ شامل ہیں ان کے مفصل حالات کے لئے دیکھئے ہجر العلم ومعاقلہ فی الیمن للقاضی اسماعیل بن علی لاکوع 1319-1314/3)
حالت قیدوبند میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ ہمیشہ رہا عصر حاضر میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔
٭شیخ ناصر الدین البانی(متوفیٰ1999ء)سے کونواقف نہیں۔ زندگی بھر انہوں نے علم حدیث کی خدمت کی اور بڑا وقیع ذخیرہ چھوڑا، اسی میں سے صحیح مسلم کی تلخیص و تہذیب بھی ہے۔ یہ کام انہوں نے حالت قید میں کیا جب 1969ء  میں ان کو دمشق میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا،۔اس وقت ان کے پاس صرف صحیح مسلم اور ایک پنسل تھی۔ وہ اس عظیم کتاب کے اختصار  وتہذیب میں لگے رہے اور تقریبا تین مہینے میں جیل ہی میں یہ کام مکمل کیا۔
    اب ہم اپنے ملک کا رخ کرتے ہیں اور اس ضمن میں ا چند ہندوستانی علماء کے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہیں،شاید اس میں ہمارے لیے زیادہ عبرت کا سامان ہو اورچیز ہمیں زیادہ مہمیز کرے۔
    1857؁ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے جذبہء حریت کو کچلنے کے لیے طرح طرح کی سزائیں دی،انہی میں ایک سزا حبس دوام بعبور دریاے شور کی تھی۔ دسیوں بیسیوں علماء اس سزا  کے شکار ہوئے،لیکن ان میں سے متعدد علماء نے اس حبس دوام میں بڑے حیر ت انگیز علمی کارنامے انجام دیے:
  ٭علامہ فضل حق خیرآبادی کا شمار برصغیر کے عبقری علماء میں ہوتاہے،بالخصوص معقولات میں ان کی مثال نہیں ملتی۔1857ء کی بغاوت کے الزام میں ان کو حبس دوام بعبور دریاے شور کی سزا ملی۔وہیں 1278ھ1861/ء میں ان کا انتقال ہوا۔وہاں کے زمانہ قیام میں انہوں نے دوچیزیں  یادگار چھوڑیں ایک'' الثورۃ الہندیۃ'' اور دوسری کتاب ''قصائد فتنہ الھند''۔
مولانا عبد الشاہد خان شروانی نے الثورۃ الہندیہ کو اردو ترجمہ کے ساتھ'' باغی ہندوستان'' کے نام سے شائع کیا ہے، اس کے مقدمے میں انہوں نے تفصیل سے ان باتوں کا ذکر کیا ہیشروانی صاحب کے بیان کے مطابق انہوں نے اس عرصے میں علم ہیئت کی ایک کتاب کی تصیح اور اس پر حواشی کا کام کیا تھا۔
 ٭مفتی عنایت احمد کاکوروی (م1279ھ1863/ء)ہندوستان کے نامور علماء میں سے ہیں۔علم صرف کی مشہور درسی کتاب علم الصیغہ کے مصنف ہے۔کتاب تو ہزاروں لوگوں نے پڑھی اورآج بھی پڑھ رہے ہیں، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ کتاب مفتی صاحب نے جزائر انڈومان کے قید خانے میں لکھی۔
    یہی نہیں بلکہ" تواریخ حبیب الہ" کے نام سے سیرت کی کتاب بھی لکھی۔یہ کتاب مفتی صاحب نے محض یادداشت سے لکھی، لیکن واپسی پر جب اصل مآخذسے  ملا یا توذرا فرق نہ پایا کتاب دیکھنے والا کمال حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ اس میں حوالوں کے ساتھ بیسیوں حدیثیں اور سیرت کی باریک باریک باتیں مذکور ہیں جب کہ  یہ کتاب بغیر کسی کتاب کی مراجعت کے لکھی۔
     اسی طرح ایک انگریز کی فرمائش پر عربی جغرافیہ کی مشہور کتاب تقویم البلدان(لابی الفداء عمادالدین اسماعیل بن محمدالحموی المتوفی 732ھ) کا اردو ترجمہ کیا۔
٭مفتی مظہر کریم دریابادی (م1289ھ1872/ء)ٰ مولانا عبدالماجد دریابادی کے دادا تھے، شاہجہاں پور میں سر رشتہِ عدالت تھے۔ انقلاب1857؁ء کی ناکامی کے بعد گرفتار ہوکر جزائر انڈومان میں محبوس ہوئے،وہاں انہوں نے جغرافیہ کی اہم کتاب '' مراصد الإطلاع علی أسماء الأمکنۃوالبقاع'' (لصفی الدین عبد المومن  بن  عبدالحق القطیعی البغدادی المتوفی 739؁ھ) کا اردو میں ترجمہ کیا۔(جنگ آزادی 1857ء واقعات و شخصیات ص 448۔459 وغیرہ)
 ٭قاضی سرفراز علی شاہ جہاں پوری (ت1293ھ1876/ء)جنگ آزادی1857ء میں انقلابی حکومت کی طرف سے منصف مقرر ہوئے تھے، اس کے نتیجے میں حبس دوام بعبورر دریائے شور کی سزا ہوئی، وہاں انہوں نے تاریخ جزائرانڈمان کے نام سے ایک مبسوط کتاب لکھی(دیکھیے تاریخ شاہ جہاں پور266-268)
؎؎٭   مولانا محمد جعفر تھانیسری (ت  1323ھ / 1905ء)  تحریکِ مجاہدین کی مشہور شخصیت ہیں۔ نوجوانی ہی سے تحریک سید احمد شہید ؒ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ 1857ء کی تحریکِ آزادی میں حصہ لیا، انقلاب کی نکامی کے بعد تھانسیر میں مقیم ہوکر خفیہ طریقیے پر تحریکِ مجاہدین کا کام سرگرمی سے کرتے رہے۔۔ مخبری پر1863ء میں گرفتار ہوئے اور مشہور مقدمہ چلا۔ بلآخر حبس دوام بعبورر دریائے شور کی سزا ہوئی۔  وہاں کے زمانہئ اسیری میں انہوں نے تین کتابیں لکھیں۔  (1)  تاریخ بورٹ بلیر  (2)  ترجمہ آئین بورڈ بلیر (3)  تواریخ عجیب جو کالاپنی سے مشہور ہے۔ (ان کے بارے میں تفصیل کے لیے دیکھئے۔ ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی کتاب جنگِ آزادی 1857ء و اقعات وشخصیات۔ ص 70۔91)  
    یہ سلسلہ جزائر انڈمان تک محدود نہیں، بلکہ بیسوی صدی میں جب تحریکِ آزادی میں نئی جان پڑی اور متعدد علماء قید وبند میں ڈال دئیےگئے تو علماء نے اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھیں او ر متعدد علماء نے وقیع تصنیفات ملت کو دیں، ہم صرف چند مثالیں یہاں پیش کرتے ہیں:
    ان حضرات کے سرگروہ او رمقتدیٰ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (ت1340؁ھ/ 1920؁ء) کی ذات گرامی ہے۔
شیخ الھند نے اسارت مالٹا  زمانے میں متعدد علمی کام بلکہ کارنامے انجام دیے۔بعض کام جو آپ کرنا چاہتے تھے،مگردرسی اجتماعی اور سیاسی مصروفیات کی وجہ سے کر نہیں پارہے تھے،اس کے لیے قید وپند میں ان کو فرصت فراہم ہوئی،چناں چہ قرآن کریم  کاترجمہ گرفتاری سے پہلے صرف دس پاروں ہی کا کرسکے تھے،زمانہ حبس میں انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کیا۔اور سورہ نساء تک حواشی اور فوائد تحریر فرمائے (تذکرہ شیخ الھند ص:128)
    اسی طرح الابواب والتراجم (بخاری شریف کے ابتدائی چند تراجم ابواب کی شرح بھی اسارت مالٹا کی یادگار ہے (ایضا   128)
 ٭ہمارے علماء اور قائدین میں مولانا ابولاکلام آزاد (ت1958۱ء)وہ ہیں جنھوں جیل میں سب سے طویل عرصہ گذارا۔ان کی زندگی کے پورے گیارہ سال قید وبند کی نذر ہوئے ہیں۔اسی تناسب سے جیل میں انھوں نے سب سے زیادہ لکھا،تفصیل کا یہ موقع نہیں۔اہم کتابوں میں تذکرہ اور ترجمہ و تفسیر ترجمان القرآن کا بڑا حصہ انھوں نے جیل میں لکھا۔
٭مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی(ت1962ء)جتنے بڑے قائد تھے،اس سے بڑے عالم اور باکمال مصنف بھی تھے۔تحریک آزادی سے متعلق اور علماء کی طرح انھوں نے بھی قید وبندکی صعوبتیں جھیلیں،لیکن وہاں اپنا تصنیفی مشغلہ جاری رکھا۔ان کی کتابوں میں قصص القرآن کی حیثیت شاہ کار کی ہے اور اس کی تیسری جلد تحقیقی لحاظ سے سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔اس کے یش لفظ میں دسٹرکٹ جیل مراد آباد لکھا ہوا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اگر یہ جلد پوری نہیں تو کم سے کم اس کی تکمیل جیل میں کی تھی۔ 
    اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ نہ اس موضوع کا استیعاب یہاں ممکن ہے، نہ مضمون کو طول دینا مقصود ہے۔ ویسے اردو میں ز.ندانی ادب کو ادب کی مستقل صنف کے طو رپر گویاقبول کرلیا گے ہے۔اردو میں اس موضوع پر دو مستقل کتابیں ہمارے علم میں ہیں: ایک ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کی کتاب اردو کا زندانی ادب انیسوی صدی میں، اس میں انہو ں نے صرف 1857؁ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد جزائر انڈمان میں محبوس اہل علم وفضل کی تحریری کاوشوں کا جائزہ لیا ہے۔دوسری کتاب ڈاکٹر محمد فاروق خاں کی ہے بنام'' اردو کا زندانی ادب ''،اس میں انہوں نے بعد کے بھی متعدد اہل علم وفضل کا ذکر کیا ہے جنہوں نے جیل خانے میں علمی مشغلے جاری رکھے تاہم اس موضوع پر مزید تحقیق کی بڑی گنجائش ہے۔ ہم نے اس مضمون میں صرف اس کی کوشش کی ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوارمیں اہلِ علم نے قید وبند کی صعوبتوں اور طرح طرح کی رکاوٹوں کے باوجود کس طرح اپنے کو علمی کاموں میں مشغول رکھا اور کس قدرقیمتی متاع متاع ہمارے حوالے کرگئے۔ اگر آج بھی ہم ہمت سے کام لیں،اپنے وقت کی قدر و قیمت پہچان لیں، تواضطراری اس قید و بند کو بہت کار آمد بناسکتے ہیں اور علمی کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ جب کہ ہم اپنے گھر میں ہیں،اور متعدد الیکٹرانک ذرائع  سے مالا مال ہیں گھر بیٹھے ہزاروں کتابوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جن کے پاس بڑے علمی منصوبے ہوتے ہیں لیکن طرح طرح کی مشغولیوں کی وجہ سے وہ باوجود خواہش کے اس کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔آج وقت ہی وقت ہے، فرصت ہی فرصت ہے،زیر ارادہ یا زیر تصنیف کاموں کی تکمیل کا یہ سنہرا موقع ہے۔ اس کو غنیمت سمجھنا چاہیےے؛ لیکن ضروری ہے کہ سوشیل میڈیا کا کے لیے ہم اپنا وقت مقرر کریں اور اس کا استعمال محدود کریں،نیز ان حالت کے پیشِ نظر توجہ الی اللہ اوتضرع وابتہال میں کچھ اضافہ کریں،پھر علمی منصوبوں کی تکمیل کے درپے ہوں۔ 
    اخیر میں ہم مولانا آزاد کا ایک جملہ قارئین کی نذر کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن کے دیباچے میں لکھا ہے۔ اس کو پڑھیں او راپنا جائزہ لیں۔ 
    ”اگر زندگی کی تمام آزادیوں سے محروم ہونے پر بھی لکھنے پرھنے کی آزادی سے محروم نہیں ہوں او راس کے نتائج محفوظ ہیں تو زندگی کی راحتوں میں سے کوئی راحت بھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی، میں اس عالم میں پوری زندگی بسر کردے سکتا ہوں۔“

«
»

تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی اصلیت سامنے آنے لگی

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے