نیز یہ تمام شخصیات جنوری کے مہینہ ہی میں دنیا سے رخصت ہوئیں یاعالم وجود میں آئیں نئے سال کے آغاز پر طرح طرح کی قبیح رسمیں رائج ہوگئی ہیں۔ ناچنا، گانا، تھرکنا، زندگی کے ایک سال کم ہوجانے پر اپنے اعمال کے محاسبے، زندگی کے جائزے اور مستقبل کے منصوبے بنانے کے بجائے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔مگر ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں کہ جب ہم ماضی کی درخشندہ روایات، اسلاف کی خدمات اور بے لوث قربانیوں کا ذکر کریں۔ اولوالعزمی اور جاں فروشی کے واقعات کو دہرائیں۔ ان کا فخریہ طورپر ذکر کریں۔ مجاہدین اردو اور مخلصین زبان وقلم کا ذکر جمیل ہو۔ اس لیے ہم نے روایتی انداز سے نئے سال کے آغاز کے بجائے کچھ الگ کرنے کی کوشش کی اور جنوری میں دنیا سے کوچ کرنے والے چند قابلِ ذکر ادیبوں ،شاعروں کے ذکر کو ضروری جانا ایسے لوگوں میں ایک اہم نام ہے روشؔ صدیقی کا۔
روشؔ صدیقی نثر و نظم میں یکساں قدرت رکھتے تھے۔ فرنگی محل سے انہیں روحانی تعلق تھا۔ آپ کے والد گرامی سلسلۂ قادریہ رزاقیہ میں شمس العلماء مولاناعبد الحمید ’مرحوم‘ کے مرید تھے۔ روشؔ فطری طورپر شاعر تھے۔ 7برس کی عمر کھیل کود کی ہوتی ہے مگر روشؔ نے اس کچی عمر میں شاعری کا آغاز کردیا تھاوالد مولوی طفیل احمد شاہد فارسی کے عالم اور اچھے شاعر تھے۔ روشؔ کا وطن مولود جوالا پور ضلع سہارنپور (یوپی)ہے جو اپنے مناظر قدرت اور مشہور دانش گاہ گوروکل(کانگڑی) کے لیے خاصا معروف ہے۔ روشؔ صدیقی کو اس دانش گاہ سے قرب اور لگاؤ رہا ہے شاید یہی سبب تھا کہ انھیں ہندی میں مہارت کے ساتھ سنسکرت سے لگاؤ تھا۔
روشؔ صدیقی نے شروع میں غزلیں کہیں 1916ء سے 1924ء تک وہ ایک طرح سے غزل کے شاعر رہے۔ مگرپھر رجحان بدلا۔ نظم’’انتظار‘‘کی تخلیق کے بعد انہوں نے مسلسل نظمیں کہیں اور خوب کہیں ۔پھر ان نظموں کی کچھ ایسی دھوم مچی کہ 1935ء تک ان سے ہر مشاعرے میں ہر جگہ نظموں کی فرمائش ہونے لگی۔
مشہور ادیب ’’سید علی جواد زیدی ‘‘تحریر فرماتے ہیں۔’’روشؔ کے شعر پڑھنے کا انداز بڑا پر جوش اور والہانہ تھا۔ انقلابی نظمیں پڑھتے وقت وہ مٹھی باندھ کر داہنا ہاتھ باغیانہ انداز سے بار بار بلند کرتے تھے۔ آخری عمر میں بغاوت پر قلندری غالب آنے لگی تھی۔ لیکن ہاتھ اب بھی فضا میں بار بار بلند ہوتا تھا۔ طرز خواندگی میں قدیم طرز کا ہلکا ترنم بھی ملا ہوتا۔ آواز کے اتار چڑھاؤ سے وہ رومان سے انقلاب تک تمام مراحل طے کر لیا کرتے تھے۔ خلوص، تپاک، حفظ مراتب، آداب مجلس کا خیال ،یہ سب ا ن کی طرحداری اور وضعداری کے سنگ میل تھے‘‘
مالک رام کے نزدیک ان کی نظموں کی وہ وقعت تھی کہ وہ لکھنے پر مجبور ہوئے کارواں اور مرثیۂ گاندھی وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو اردو کی آبرو کہے جانے کے لائق ہیں۔ نیز ان کے کلام میں کلاسیکی رچاؤ ہے۔فارسی کی شگفتۂ و دلاویز ترکیبیں ایسی برجستگی و چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں کہ مزہ آجاتا ہے۔ یہاں مرحوم کی ایک سخن گسترانہ بات یاد آگئی۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں حفیظ جالندھری حکومت ہند کے اس محکمہ کے کرتا دھرتا تھے جس کے ذمہ گانے بجانے اور کھیل تماشے کے ذریعہ سے حکومت کے فوجی پروپیگنڈے کا کاروبار تھا۔ بعد میں ان کی ان ہی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں سرکار کی طرف سے انہیں’’خان بہادر‘‘ کا خطاب عطا ہوا(خاں صاحب وہ بہت پہلے سے تھے) اس پرروشؔ نے ایک قطعہ کہا تھا۔ جس میں اقبالؔ کے مشہور شعر کی تلمیح ہے
آتجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سنا ں اول، طاؤس و رباب آخر
اقبالؔ
روشؔ کا قطعہ ہے
اقبالؔ کے عرفاں میں تقدیر امم یہ ہے
شمشیر و سناں اوّل،طاؤس ورباب آخر
رقاصِ حکومت کی معراج یہ کہتی ہے
طاؤس ورباب اوّل ، اعزازو خطاب آخر
انور صدیقیبڑے پتے کی بات لکھتے ہیں’’ارتقائی اعتبار سے ان کی شاعری 3ادبی اثرات کے دور میں پروان چڑھی۔ ایسے دو رمیں ان کی شاعری کی ابتدا ہوئی جب کہ حفیظؔ ، اخترؔ اور ساغرؔ کے رومانی گیت فضا میں گونج رہے تھے اور اقبالؔ کی شاعری عام ذہنوں پر چھائی ہوئی تھی۔ شاید اس رومانیت کے خلاف ردعمل کے طورپر ترقی پسند شاعری نے اپنا پرچم بلند کیا۔ ان کی شاعری کے آخری دور میں جدید یت کا رنگ نمایاں ہونے لگا تھا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ ان کی شاعری نے تین ادبی نسلوں کے درمیان اپنے ارتقا کی منزلیں طے کیں۔ پہلے دوریا پہلی ادبی نسل کے اثرات نے ان کے تشکیل پذیر ذہن پر کئی گہرے نقوش مثبت کیے۔ ترقی پسندی نے ان کے لہجہ کو تھوڑا سا متاثر کیا اور ان کے موضوعاتِ شعری میں اضافہ ہوا۔ جدیدیت ان کے لیے ادبی نزاع سے زیادہ کچھ بھی نہ تھی۔ اپنے شعری اسالیب اور لہجہ کی حد تک وہ ادبی اثرات ضرور قبول کرتے رہے مگر بنیادی طورپر ان کا اندازِ فکر یا ان کی حسّیت رومانی رہی‘‘
راقم الحروف کی رائے میں المیہ یہ بھی رہا کہ ترقی پسندوں نے انہیں صرف رومانی شاعر تصور کرکے نظر انداز کیا اور رومانی شاعری کو سرپہ اٹھائے ہوئے لوگوں نے ان کی فکری وسعت اور انقلابی انداز کے سبب انہیں کم رومانی سمجھا۔ لہٰذا دونوں طبقات ان کی شاعری کے ساتھ انصاف نہ کرسکے۔
روشؔ کے متعلق عام خیال ہے کہ ان کی شخصیت اور شاعری میں تضادنہ تھا۔ جب نیازؔ اور جوش جیسے ادیب و شاعر محض خوشحالی اور ترقیات کی خواہش میں پاکستان چلے گئے تب بھی روشؔ اپنی روش پر قائم رہے اوروطن عزیز کو چھوڑنا گوارہ نہ کیا ان کی رومانی شاعری میں بھی بعض قلمکاروں کوطہارت فکر اور تصوف کی جلوہ گری نظرآتی ہے۔
مفتی رضا انصاری فرنگی محلیلکھتے ہیں روشؔ ہندی اور سنسکرت اچھی جانتے تھے۔ وہ بھی اس زمانے میں جبکہ مسلمانوں میں ہندی اور سنسکرت جاننے والے ایک آدھ بمشکل کہیں نظرآتے تھے۔ وہ ہندی رسائل اور ہفتہ واراخبار بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ وہ غزل گو شاعر سمجھے جاتے تھے مگر انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں جن میں مذہبی رنگ خاصا نمایاں ہے۔ وہ تہجد گزار شاعرتھے۔ نعتیہ مشاعروں میں بھی انھوں نے اچھی اور معیاری نظمیں پڑھیں اور مدح صحابہؓ کے مشاعروں میں بھی! لکھنؤ کے نعتیہ مشاعرے میں جو نظم پڑھی تھی اس میں حضرت علیؓ کی شان میں ان کا مصرع تھا ع
’’دوشِ حیدرؓ پہ جو چمکے وہ علم کس کے تھے ‘‘
مطالعے کے شوقین تھے۔ ادبی کتب کے علاوہ تصوف سے خاص لگاؤ تھا‘‘
ڈاکٹر سید اعجاز حسین مختصر تاریخ ادب اردو، کے صفحہ 307پر رقم طراز ہیں۔ ’’روشؔ کی اختراع پسند طبیعت کا اندازہ ان کی نئی تشبیہوں اورد لآویز ترکیبوں سے بھی ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہے کہ بیان میں تازگی آجاتی ہے ۔ وہ اگر رسمی اور روایتی باتیں بھی نظم کرتے ہیں تو اندازِ بیان سے انہیں بھی شگفتہ بنا دیتے ہیں۔ روشؔ نے اتنی نظمیں اور غزلیں کہی ہیں کہ کئی جلدوں میں شائع ہو سکتی ہیں۔ غزلوں میں زیادہ تر حسرتؔ موہانی کی طرح حسن و عشق کی روداد ہے مگر نظمیں لب لہجہ کے لحاظ سے نہایت بلند آہنگ وپرشکوہ ہیں‘‘
پروفیسر ملک زادہ منظور احمدماضی کی یادوں کو کریدتے ہیں۔ دریچوں میں جھانکتے ہیں تو پردۂ سیمی پر ابھرنے والے نقوش کی طرح ماضی کا پورا منظر نامہ ان کے سامنے آجاتا ہے اور وہ یوں گویا ہوتے ہیں۔’’تقریباً 2دہائی تک مشاعروں میں ان کا ساتھ رہا۔ ہم کب، کیسے ،کہاں اور کن حالات میں ایک دوسرے سے ملے اس کو تسلسل سے بیان کرنااس عمرمیں کارِدشوار ہے مگر اتنا ضرور بتاسکتا ہوں کہ قصباتی مشاعروں سے لے کر دہلی کے شنکر وشاد انڈوپاک مشاعروں تک، ہندوستان کے طول وعرض میں صدہاباران سے ملاقاتیں ہوئیں۔ خلوت و جلوت میں ساتھ رہا۔اولیائے کرام کے مزارات پر ساتھ ساتھ حاضری دی۔ مشاعروں کے اسفار میں ہمسفر رہا۔ مگر زندگی کا کوئی غیر محتاط لمحہ بھی ایسا نہ رہا کہ جب روشؔ صاحب کے مزاج کی مشرقیت الگ ہوئی ہو۔
یہ ممکن ہے کہ ان سے بہتر شعر کہنے والے پیدا ہو جائیں مگر دور حاضر کے ہاتھوں میں’’آب حیات‘‘ کا وہ جام نہیں ہے جوان پر انے بادہ کشوں کی تہذیبی روایات کو بقائے دوام عطا کرسکے۔
مجموعی طورپر روشؔ کی غزلوں اور نظموں پرفکر وفن، جنون وہوش اور دل ودماغ کی چاندنی پھیلی ہوئی ہے مگر یہ چاندنی نہ تو مارچ اور اپریل کی صاف وشفاف چاندنی ہے نہ ہی جولائی اور اگست کی بھیگی ہوئی چاندنی، بلکہ دسمبر اور جنوری کی کہر آلود چاندنی ہے۔ جس میں تخیل کے خدو خال بظاہر تو دھندلے دھندلے نظرآتے ہیں مگر ذرا سے تامل اور تفّکرکے بعد ان کے نقوش اجاگر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے وہ حضرات جو غوور فکر کے عادی نہیں وہ پہلی نظر میں روشؔ کے اکتسابات پر ابہام کا الزام لگاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے عروسِ معنی کو الفاظ کا جو پیرہن عطا کیا ہے وہ نالائن کا نہیں ہے جس سے جسم کے دلآویز خطوط ازخود واضح ہو جائیں بلکہ وہ سلما اور ستاروں سے سجا ہوا ململ کا وہ دوپٹہ ہے جس کے اندر چھپا ہوا حسین چہرہ اسی وقت نظرآسکتا ہے جب کہ اس پر گہری نگاہ ڈالی جائے اور غوروخوض کو لازم جانا جائے۔
معروف صحافی جمیل مہدی کے مطابق’’روشؔ اردو شاعری کی تمام روایتوں کے وارث بلکہ محافظ بن کر ابھرے۔ وہ اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ یہ مقام انہیں طبعی شرافت ،کھلی آب و ہوا اور قصباتی سادگی وبے ریائی کی بدولت ملا تھا۔ وہ شہر کی رسمی اور مصنوعی زندگی کی طرف آخرتک راغب نہ ہوسکے۔ ان کی طبیعت میں جو سادگی، خلوص دریاؤں کی سیر چشمی اور میدانوں کی سی وسعت تھی وہی ان کی شاعری میں بھی کارفرما رہی۔ ان کی شاعری میں رومان اور انقلاب کے اثرات واضح طوپر دیکھے جا سکتے ہیں۔‘‘جمیلؔ مہدی ،روش صدیقی کو انہیں کے ضرب المثل شعر کی تفسیر مانتے ہوئے ان کایہ شعر درج کرتے ہیں
کچھ مراحال سناتی ہے مِری خاموشی
کچھ تری نیم نگاہی سے عیاں ہوتا ہے
مضمون کے اختتام پہ وہ ایک اور شعر درج فرماتے ہیں جسے جمیل صاحب نے ہمیشہ حسب حال پایا
اب شیخ وبرہمن سے روشؔ دل نہیں ملتا
کیا کیجئے کافر ہیں نہ دیندار ہیں ہم لوگ
دراصل روشؔ صدیقی کی نظموں کی نمایاں خصوصیت ان کا تغزل اور روانی ہے۔ان کی طرزِ بیان خاص اور دلکش ہے۔ ایک رومانی نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو
کس نے جھانکا ہے شفق رنگ جھروکے سے مجھے
صبح کے چاک گریباں کو خبر ہو شاید!
زندگی فرش قدم بن کے بچھی جاتی ہے
آگہی حسرتِ دیدار ہوئی جاتی ہے
کیوں یہ پیشانیِ احساس جھکی جاتی ہے
حیرتِ عالمِ امکاں کو خبر ہے شاید!
ڈاکٹر عبد الوحید مذکورہ بالا بند سے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اس ایک بندے سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے رنگِ سخن میں تغزل کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ وہ محبت کی دنیا میں سرشار ہونے کی کیفیت کو اس خوبی سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں کم ہی لوگوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اسلوب میں بلا کی دلنشینی ہے اور دلنشینی میں نرم، لطیف اور مترنم الفاظ و تشبیہات کی موجودگی اور بھی اضافہ کردیتی ہے۔ رنگ تغزل ملاحظہ ہو
جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بیخودی کو کیا کہئے
ہے وہی رنگ حسن بے پروا
عشق کی سادگی کو کیا کہئے
کھینچ لے جائے جو ترے درتک
ایسی دیوانگی کو کیا کہئے
ان پہ قربان ہستیِ کونین
ایک میری نظر کو کیا کہئے
1956ء میں روشؔ کا مجموعۂ غزلیات’’محراب غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا تھا جب کہ بقول مالک رام ’’ان کے پاس کئی جلدوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کلام تھا۔ ‘‘کاش وہ بھی ان کی حیات میں شائع ہو جاتا۔ حیف کہ یہ کام بعد والوں نے بھی نہ کیا ۔صرف ان کے انتقال کے بعد’’انجمن ترقی اردو (ہند)دہلی نے176صفحات کا ’’روش نمبر‘‘ نکالا، یہی نمبر روشؔ کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں بعد والوں کے لیے معاون ہے۔ اس اہم نمبر کے مرتب عبد اللّطیف اعظمی ہیں۔
روشؔ صدیقی کا اصل نام شاہد ؔ عزیز تھا۔ ان کی تاریخ ولادت 10جولائی 1909ء ہے اور وفات 23جنوری 1971ء کی وہ شب تاریک کہ جس شب شاہجہانپور کے ایک مشاعرے کے دوران شدید قلبی دورہ میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ پلک جھپکتے دنیا ایک سچے محب وطن اور فدائے اردو سے محروم ہوگئی۔
قصبہ ردولوی ہر میدان میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھنے والی ممتازو معتبر شخصیات کا مولد و مسکن رہا ہے۔ بیگم زاہدہ نہاں کا تعلق بھی اسی قصبہ سے ہے ۔ خاندان سادات کے فرد سید محمد حسنین رضوی کی بیٹی اور فطری ذہانت سے بہرہ ور تھیں۔ ممتاز شاعر وقصیدہ نگار جعفر مہدی رزم ردولوی کی چھوٹی بہن اور جدید لب و لہجہ کے خوش فکر شاعر ظفر مہدی کی والدہ تھیں۔ خاندانی رواج کے مطابق اسلامی دائروں میں رہ کر تعلیم پائی۔ کم سنی میں ہی شعر کہنے لگیں۔ عمر کے ساتھ کلام میں پختگی آئی۔مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کے منقبتی اور بہار یہ کلام کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ نوحوں کا مجموعہ ’’نگارِ غم‘‘ شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
عمر کے آخری حصہ میں طویل علالت کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر 10جنوری 1997کوجان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ دوسرے روز امامباڑہ رودلی میں تدفین عمل میں آئی۔
نمونتاًچند شعر پیش ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ فکرو فن کی کس منزل پر تھیں
چلنے دو چل رہی ہے اگر نبضِ کائنات
رک جائے گی کہ گردشِ ایام ہی تو ہے
وہ چاند کی کرن ہو کہ پھولوں کی روشنی
غم کی نگاہ، درد کا پیغام ہی تو ہے
صبحِ فراق لائے گی کیا اور اس کے بعد
دن ڈھل گیا تو وصل کی پھر شام ہی تو ہے
*
صبر آتا ہے نہ اس کو نہ قرارآتا ہے
دلِ ناداں تو مچلتا ہے تو پیار آتا ہے
گونج اٹھتی ہے فضاؤں میں یہ کس کی آواز
جھوم کر دشت میں جب ابرِ بہار آتا ہے
10جنوری 1993ء کو میڈیکل کالج لکھنؤ میں آخری سانس لینے والے عبد لجبار کا تعلق ایسولی ضلع سلطان پورسے تھا۔ والد کا نام عبد اللطیف تھا۔ مئی1931ء میں پیدا ہونے والے عبد الجبار کا ابتدا میں تخلص بادلؔ تھا۔ پھر انہوں نے مزاح میں دلچسپی لی تو تخلص ساجنؔ سسرالی ہوگیا۔ موصوف نے اپنے وطن مولود ایسولی کے مکاتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ حفظ قرآن کیا۔ تلاش معاش کی فکر میں 1950ء کے قریب کانپور گئے۔ جہاں فرنیچر کے کام میں مصروف ہوگئے۔ کانپور میں رہ کر کاروباری مصروفیات کے ساتھ علمی استعداد بڑھاتے رہے۔ ادیب کامل کی سند حاصل کی۔ مگر شاعری کا مرض جوں جوں بڑھتا رہا بادلؔ کا دل اسی رفتار سے فرنیچر کے کام سے اچاٹ ہوتا رہا۔ فرنیچر کا اچھا خاصا کاروبار چھوڑ کر علی آباد ضلع بارہ بنکی چلے آئے اور یہیں کے مدرسہ امدادیہ میں معلم کی حیثیت سے ملازمت کرلی۔ بعدہٗ احباب کے اصرار پر علی آباد سے مخدوم پور(بارہ بنکی) کے مدرسہ باب العلوم سے بحیثیت استاد وابستہ ہوگئے ۔ اور پڑنگا اسٹیشن کے قریب مستقل سکونت اختیار کرلی۔ جہاں ان کی سسرال بھی تھی۔
عبد الجبار بادلؔ نے مطالعے اور دلچسپی سے علمی استعداد کو خاصا بڑھا لیا تھا۔ انہیں روحانی عملیات میں بھی خاصی دلچسپی تھی۔ دور دور سے پریشاں حال اشخاص اور عقیدت مندوں کی آمد کا سلسلہ رہتا،آس پاس کے علاقوں میں ان کے معتقدین و مریدین کی خاصی بڑی تعداد موجودتھی۔ غیر مسلم حضرات بھی ان سے عقیدت و محبت رکھتے۔ عبد الجبار بادلؔ نے بڑی حکمت سے طلباء کو حصول علم کے ساتھ فرنیچر سازی کا کام سکھایا۔ اس طرح یہی کام بعد میں بہت سے طلباء کی کفالت کا ذریعہ بنا۔ درحقیقت کانپور کے دوران قیام ہی انھیں شاعری کا چسکا لگاتھا، جہاں انھیں کثیر التلامنذہ شاعر علامہ انورؔ صابری کی شاگردی کا شرف حاصل ہواتھا۔ ذوق شعری کی تسکین کے لیے جب تب شعری نشستوں میں شرکت فرماتے۔ مزاجاً خوش طبع و بزلہ سنج تھے۔ نہ جانے کیوں آخری عمر میں طنز و مزاح کی جانب راغب ہوگئے اور تخلص ساجنؔ سسرالی رکھ لیا۔ اخبار ورسائل میں بھی ان کا کلام شائع ہوا۔ ’’گلابی تبسم‘‘ عنوان سے مزاحیہ کلام کو یکجا کر دیا تھا مگر عمر نے وفا نہ کی۔ سنجیدہ کلام’’بے چین کلیاں‘‘ اور نعتیہ کلام’’شبنمی قطرے‘‘ منظر عام پرآچکے ہیں۔آپ کا مدفن پڑنگا ضلع بارہ بنکی میں ہے۔
نعتیہ اشعار:نمونۂ کلام ملاحظہ ہو
رہبرِ راہِ وفا عالی مقام آتا ہے
مرحبا آج اماموں کا امام آتا ہے
اللہ اللہ یہ فضلیت، یہ بزرگی کہ ملک
سرجھکالیتے ہیں جب آپ کا نام آتا ہے
راہ میں جس کی ستاروں نے بچھائی آنکھیں
لو،مبارک ہو، وہی ماہِ تمام آتا ہے
آپؐ وہ ہیں کہ نہیں جس کا کوئی بھی ثانی
آپؐ پر خالقِ اکبر کا سلام آتا ہے
غزل کے اشعار
اہل دیرو حرم ملے مجھ کو
جب بھی پہونچا شراب خانے میں
*
خود انھیں سے پوچھتا ہوں ان سے ملنے کا پتہ
اف مِری دیوانگی اب تو یہاں تک آگئی
*
مے کدے پر چھاگئے رحمت کے بادلؔ جھوم کر
تہمتِ پاکیزگی پیرِ مغاں تک آگئی
*
صبح کوروئے بھی اور شب کو دعا بھی مانگی
کارگرکوئی مناجات مگر ہو نہ سکی
ہم کو دنیا نے ستایا تو بہت اے بادلؔ
زندگی نذرِ خرابات مگر ہو نہ سکی
*
دی سجدۂ پیہم نے مِرے سرکو وہ طاقت
پتھر سے بھی ٹکرائے یہ پیہم تو نہ ٹوٹے
طنز و مزاح کے چند شعر
دوستوں نے خبر اڑائی ہے
آج ان سے مِری سگائی ہے
ان کو میک اپ میں دیکھ کر سنبھلیں
جن کو دعوائے پارسائی ہے
رشوتوں کو کہیں خدا کا کرم
کتنی پاکیزہ یہ کمائی ہے
بے ایمانی کو فن سمجھ لینا
یہ ادا ہے کہ بے حیائی ہے
جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہے آج
اُن کی مٹھی میں کُل خدائی ہے
راستے میں ملی جو شامِ الم
دیکھ کے مجھ کو مسکرائی ہے
آکے ساجنؔ کے گھر میں بیٹھ گئی
دل میں غربت کے کیا سمائی ہے
بدایوں اور اس کے قصبات کی فضاشعروادب کے لیے ہمیشہ ساز گاررہی ہے۔ وقت کے تیور اور حالات کے سرد گرم کے باوجود اس کے مکینوں نے اپنی ادبی میراث کو سنبھال کر بلکہ سینہ سے لگا کر رکھا۔ اسی بدایوں ضلع کے مشہور قصبہ گنور کے مولانا حبیب الرحمن کے گھر خلیل الرحمن سیفیؔ 2جنوری 1913ء کو تولّد ہوئے۔قرآن پاک سے تعلیم کا آغاز ہوا۔ ساتھ ہی اردو فارسی کی تعلیم جاری رہی۔ مڈل کے امتحان میں کامیابی کے بعدمشن اسلامیہ ہائی اسکول سے 1934ء میں ہائی اسکول اور مختلف درسگاہوں سے علمی منازل طے کرتے رہے۔ انٹر میڈیٹ اور منشی، کا مل وغیرہ کی اسناد حاصل کیں۔ 2سال تک بحیثیت فارسی استاد شیخ پور ضلع بلند شہر کے مسلم راجپوت اسکول میں رہے۔ بعدہٗ اسلامیہ انٹر کالج اٹاوہ سے بحیثیت استاد وابستہ ہوئے اور تقریباً 8برس تدریسی خدمات بحسن کوخوبی انجام دیں۔ ساتھ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1946ء میں ایم اے کیا۔ 1954ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں تقرر ہوگیا جہاں سے 1976ء میں سکبدوش ہوئے اور سیکڑوں طلباء کوزیور علم سے آراستہ کیا۔ مقام ذکر ہے کہ اس ملازمت کے دوران بھی وہ پیہم اپنی علمی استعداد واسناد میں اضافہ کرتے رہے۔ 1959ء میں ایم ایڈ اور 1969میں دہلی یونیورسٹی سے اسماعیل میرٹھی پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔
درس تدریس میں انہماک کے ساتھ ان میں شعرو ادب کا پاکیزہ ذوق تھا۔ جس کا ثبوت مقتدر ادبی جرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہونے والے افسانے اور مضامین ہیں۔ اخبار’’سر گذشت‘‘کے جوائنٹ ایڈیٹر اور ماہنامہ’’سروج‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ نیز ماہنامہ’’احسن‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔القصہ مختصر وہ متضاد صلاحیتوں اور صفات کے انسان تھے۔ انھوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا۔ ثبوت کے طورپر ان کی کتابوں کے نام پیش ہیں۔
’’خلش‘‘ (مجموعہ کلام) اشاعت 1964ء ۔جگر ؔ بریلوی شخصیت اور فن۔ اشاعت 1970ء ’’ہمارے محاورے‘‘ 1972ء ’’حیات اسماعیل میرٹھی‘‘ 1976ء’’کہاوت اور کہانی‘‘ (1979ء اور 1984ء)’’اصول تعلیم اور تعلیم‘‘ (1981ء)آدھی گھڑی‘‘(1978)’’پہلیاں‘‘ (1983ء )اور منزل پیار کی‘‘ وغیرہ!
ڈاکٹر خلیل الرحمن سیفیؔ نے کا م کا ڈھنڈورا پیٹنے سے کہیں زیادہ خاموش اور سنجیدگی سے علمی و ادبی کاموں پر توجہ دی۔ ڈاکٹر سیفی کو شروع سے ہی خوشگوار اور ادبی فضا ملی ۔ہوش سنبھالتے ہی لیلائے سخن کے گیسو سنوارنے میں لگ گئے تھے۔ 20سال تک اپنے شعری ذوق کو اپنے سینہ میں دفن رکھا۔ نہ شعر کہنے کا اظہار کیا نہ ہی کسی سے اصلاح لی۔ اظہار شاعری تو تب ہوا جبکہ وہ 1934ء میں باقاعدہ استاد شاعر ابرؔ حسنی گنوری کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوکر جو لانی طبع کے جوہر دکھانے لگے۔
ڈاکٹر اجمل اجملی(مرحوم) کی رائے ان کی شاعری کے سلسلہ میں کافی اہم ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’سیفیؔ کی غزلوں میں جو جاذبیت، زندگی کی عکاسی ،زبان کی رعنائی، دلکشی اور اظہار میں صداقت کی کرنیں نظرآتی ہیں ان سے بہت سارے ایسے شاعروں کے مجموعے بھی محروم نظرآئیں گے جن کے نام اور کام کا شہر ہ سیفیؔ سے کہیں زیادہ ہے ۔‘‘
ڈاکٹر سیفیؔ نے 12سالہ زندنی کا بیشتر حصہ حصول علم، خدمت شعر وادب اور درس وتدریس میں گذارا ۔ ان کی صحافتی خدمات پر باقاعدہ کام کی ضرورت ہے اوریہ کام انھیں کرنا چاہیے جنھوں نے ان کی صلاحیتوں اور ان کے علم سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور جنہوں نے انہیں قریب سے جانا، پرکھا اور سمجھا ہے۔ 1995ء میں انھوں نے عارضی دنیا کو خیر باد کہا
فرقت کے بعد فرقتِ حاصل تمام رات
قربت تمام رات قیامت تمام رات
اظہارِ عشق باعثِ رسوائی و خلش
شکوے تمام رات شکایت تمام رات
*
مِری نگاہ نے سب کا غروردیکھا ہے
اندھیری رات سے کہدو ذرا سمٹ جائے
پہنچ رہا ہے دلوں تک یقینِ نور سحر
گمانِ شب سے کہو راستے سے ہٹ جائے
*
زاہدو!ذکرِعبادت کو عبادت نہ کہو
آؤ اِک رات گزاریں کسی بیمار کے ساتھ
*
ٹپک رہا ہے ہر اِک پھول کی جبیں سے لہو
زباں پہ ذکرِ بہارِ چمن سے کیا ہوگا
*
دیر و کعبہ سے نکل آئے تو آرام ملا
ہم کو بھی اِک خلشِ سودوزیاں تھی پہلے
ملیح آباد کو جیالے خانصاحبوں اور آم کے کاروبار کے حوالہ سے ہی یاد نہ کیا جاناچاہیے۔ یہاں ہر دور میں اہم ادیب اور شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ 1890ء میں اسی زمین پر ابرار حسن خاں اثرؔ نے وجو دپایا۔ والد کا اسم گرامی خواجہ محمود خاں تھا۔ اثر،ؔ جوشؔ ملیح آبادی اور رئیس احمد خاں رئیس کے بہنوئی اور لنگوٹیا یار تھے۔ تعلیم کا آغاز عربی سے ہوا تھا۔ قرآن پاک و دینیات کے بعد عصری علوم کے حصول کی طرف متوجہ ہوئے۔ کم سنی ہی میں والد کی شفقت ومحبت سے محروم ہوگئے تو جوشؔ کے والد گرامی نے ان کی ذہانت و طباعی کو دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کا ذمہ لیا۔ لہٰذا جوشؔ ورئیسؔ کے ہمراہ تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آگرہ میں بھی جوشؔ و رئیسؔ کے ہم درس رہے۔ بعدہٗ علی گڑھ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ جہاں زیر تعلیم تھے کہ 1916ء میں اچانک بشیر احمد خاں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہیں سے اثرؔ کا سلسلۂ تعلیم منقطع ہوا اور وہ ملیح آباد آگئے۔ کچھ دن گزرے تھے کہ معاش کی فکر لاحق ہوئی تو محکمۂ کورٹ آف وارڈس میں ’’بعہدہ سربراہ کار‘‘ ملازمت کرلی۔ کچھ ہی عرصہ بعد جوشؔ ملیح آبادی کا تقرر دار الترجمہ حیدر آباد میں ہوگیا۔اثرؔ بھی ان کے ہمراہ وہیں چلے گئے۔نیز کچھ عرصہ ریاست نانپارہ سے بھی وابستہ رہے۔
مے نوشی کی زیادتی نے صحت پرایسا خراب اثر ڈالا کہ زندگی کا باب 21جنوری 1948ء کوہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ انتقال کے وقت وہ احاطہ کریم بیگ، لاٹوش روڈ پر مقیم تھے۔تدفین ملیح آباد کے آبائی قبر ستان میں ہوئی۔ ان کا تعلق فقیر محمد خاں گویاؔ کے خانوادہ سے تھا۔ بشیر احمد خاں بشیرؔ کے بھانجے اور داماد تھے۔ ذوق شعری انھیں ورثہ میں ملا تھا جوعمر کے ساتھ
عروج پاتا رہا۔ آغاز غزل سے ضرور کیا تھا مگر اصل میدان نظم تھا۔ ان کی بعض نظموں کی شہرت بھی ہوئی لیکن جوشؔ کی موجودگی میں کسی کا چراغ جلناآسان کب تھا؟ خود جوشؔ اثرؔ کی شاعرانہ خوبیوں کے معترف تھے۔ انہوں نے ان کی ایک نظم’’کلیم‘‘ میں اس نوٹ کے ساتھ شائع کی تھی۔ ’’میں نے بھی اس زمین میں کہنے کی کوشش کی مگر ابرار اثرؔ جیسے شعر نہ کہہ سکا۔کاش یہ بدبخت انسان حرکت میں آجائے‘‘
ابرار اثرؔ کے کچھ شعر پیش کرکے اجازت چاہتا ہوں
تمہیں بے ہوش کرکے ہوش میں لانا نہیں آتا
تو پھر جاؤ ہمیں بھی ہوش میں آنا نہیں آتا
اثرؔ اس بے وفا کا چھوٹ جانا کوئی مشکل تھا
مگر میں کیا کروں ناصح کو سمجھانا نہیں آتا
کبھی سبزے میں خوابیدہ کبھی مہتاب میں روشن
تجھے ڈھونڈے کہاں کوئی، تجھے پائے کہاں کوئی
یہ کہہ کرآج ہم نے بھی گریباں چاک کر ڈالا
کہاں تک انتظار آخر،کہاں تک اعتبار آخر
نئے سال کے پہلے مہینہ کے حوالہ سے چاہا کہ کچھ پرانے چہروں کو سامنے لایا جائے۔ ان کا ذکر ہوگا تو ماضی کی رفعتیں سامنے آئیں گی، حال کی پستیوں کا اندازہ ہوگا اور مستقبل میں ادبی قدروں و تہذیبی رویوں کو برقرار رکھنے کی کچھ تو کوشش ہوگی۔
اعتراف :-مذکورہ شخصیات پہ ایک سطر بھی لکھنا شاید ممکن نہ ہوپاتا اگر انجمن ترقی اردو(ہند) دلّی کا روشؔ نمبر اور عرفانؔ عباسی (اب مرحوم) کے مرتب کردہ تذکرے’’شعرائے اتر پردیش‘‘ کی جلدیں سامنے نہ ہوتیں۔ اس لیے اگر مضمون میں کچھ قابلِ ذکر ہے تو اس کے لیے ’’روشؔ نمبر‘‘ کے مرتب عبد اللطیف اعظمی اور لکھنؤ کے مشہور تذکرہ نویس ڈاکٹر عرفان عباسی کی تعریف و تحسین کے ساتھ ان کے بلندی درجات کی دعا کیجئے۔
جواب دیں