ان کی گرفتاری کے پہلے سے ہی اے آئی اے ڈی ایم کے کے حامیوں نے ہنگامہ شروع کردیا تھا اور توڑ پھوڑ نیز احتجاج و مظاہرے کا سلسلہ چل پڑا تھا۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا اور جہاں سابق وزیر اعلیٰ ایم کرنانیدھی کے گھر کے سامنے ہنگامہ کیا گیا وہیں بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کے خلاف بھی احتجاج کیا گیاجنھوں نے اس معاملے کو کورٹ تک پہنچایا تھا۔ بعد میں جے للیتا کے حامیوں نے کرونانیدھی اور ان کے بیٹے اسٹالن کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی جس میں شکایت کی گئی تھی کہ انھوں نے مارپیٹ کی ہے۔ جے للیتا کی گرفتاری کے بعد سے ریاست میں سیاسی بھونچال سا آگیا اور ان کے جانشیں کی تلاش شروع ہوئی۔ انھیں رہائش گاہ سے گرفتار کر کے چنئی سنٹرل جیل میں قیدی نمبر ۷۴۰۲ کے طور پررکھا گیا،جہاں ان سے ملنے والے پارٹی لیڈران کی قطاریں لگ گئیں۔ جے للیتا کو تب تک جیل میں رہنا ہوگا جب تک کہ اونچی عدالت سے انھیں ضمانت پر رہائی نہیں مل جاتی۔جیل سے نکل کر بھی وہ خود کسی عہدے پر فائز نہیں ہوسکتی ہیں اور نہ ہی الیکشن لڑ سکتی ہیں البتہ ریموٹ سے سرکار چلانے کا کام وہ اب بھی کرسکتی ہیں کیونکہ اے آئی اے ڈی ایم کے ان کی اپنی پارٹی ہے اور اس وقت ان کے بغیر پارٹی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پارٹی کو ملنے والی سیٹیں ان کے نام پر ملی ہیں اور وزیر اعلیٰ ان کی مرضی کے بغیر ایک لمحے اپنی کرسی پر نہیں رہ سکتا۔وہ ماضی میں بھی کرپشن کے معاملے میں جیل جاچکی ہیں مگر اس کے باوجود ان کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ تب انھوں نے اپنی جگہ پر اوپنیرسلوم کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا جنھوں نے ان کی واپسی کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا اور جے للیتا دوبارہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئی تھیں مگر اس وقت معاملہ ذرا الگ ہے۔ اب حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ اس کرسی پر دوبارہ بیٹھ سکیں۔ وہ آئندہ دس سال کے لئے نااہل قرار پاچکی ہیں اور اس کے بعد ان کی عمر وزیر اعلیٰ بننے کی نہیں رہ جائے گی۔ فی الحال وفاداری کے صلے کے طور پر اوپنیر سیلوم کو ہی وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اب تک جے للیتا کی کابینہ میں وزیر تھے۔
زندگی ایک جنگ؟
جے۔جے للیتا جنوبی ہند کی فلموں کی سب سے کامیاب ہیروئن رہ چکی ہیں۔ وہ اپنے زمانے میں سب سے مہنگی اداکارہ تھیں اور تمل، کنڑ وتیلگو فلموں میں دھوم مچایا کرتی تھیں۔ وہ فلموں میں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ مجبوری سے گئی تھیں اور سیاست میں بھی اسی طرح ان کا داخلہ ہوا تھا۔ ان کی پوری زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے اور ایک بار پھر حالات بدلے ہیں اور انھیں سی ایم ہاؤس سے سیدھے جیل جانا پڑا ہے۔ وہ محض دو سال کی تھیں تب یتیم ہوگئی تھیں۔ ان کے نانا میسور پیلس میں ملازم تھے جہاں انھیں اپنی ماں کے ساتھ جانا پڑا۔ ان کی ماں سندھیا بے حد خوبصورت تھیں لہٰذا بیوہ ہونے کے بعد بھی انھیں فلموں کے آفر ملے اور انھوں نے مدراس آکر فلموں میں کام شروع کردیا۔ تب وہ چار سال کی ہوچکی تھیں۔ ان کی ماں کے کندھے پر اپنے دوبچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنی بہن اور اس کے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی تھی لہٰذا دن رات محنت کرتیں اور اپنے بچوں کو بالکل وقت نہیں دے پاتی تھیں۔ وہ کئی کئی دن بعد بچوں سے ملنے آتیں اور بچے سو جاتے تو واپس جاتی تھیں۔ جے للیتا کی پرورش کی ذمہ داری ان کی خالہ پر تھی۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی چل پڑا تھا جس میں وہ ہمیشہ ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ اسی کے ساتھ انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی صبح موسیقی اور شام کو ڈانس کی تربیت لینی پڑتی تھی۔ انھیں حالات میں انھوں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کرلیا اور انھیں آگے کی تعلیم کے لئے اسکالرشپ بھی مل گئی۔ قانون ان کا پسندیدہ میدان تھا اوروہ وکیل بننا چاہتی تھیں مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ محض سولہ سا ل کی عمر میں ایک روز ماں نے انھیں کہا کہ تم پڑھائی چھوڑ دو اور فلموں میں کام کرو۔ ماں کے اس حکم نے انھیں پریشان کردیا کیونکہ انھیں اداکاری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ کئی دن تک ماں سے جھگڑتی رہیں اور آخر کار ماں نے انھیں اپنے مسائل بتائے جن سے وہ ناواقف تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب انھیں فلموں میں کام ملنا بند ہوگیا ہے اور سرپر صرف اپنا ہی نہیں بلکہ ان کی خالہ اور بچوں کا بوجھ بھی ہے۔ ایسے میں اگر وہ کام نہیں کرینگی تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔اس بات کا جے للیتا پر زبردست اثر ہوا اور انھوں نے کام کرنے کا فیصلہ لیا۔ انھیں پہلے پہل ایک انگریزی فلم ملی مگر اس سے انھیں کوئی خاص شہرت نہیں مل پائی۔ شہرت ملی تمل فلم ’’گوداچاری16‘‘سے ،اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ انھیں یکے بعد دیگرے فلمیں ملنے لگیں اور وہ شہرت و مقبولیت کے لحاظ سے اپنے دور کی نمبر ون ہیروئن بن گئیں۔جنوبی ہند کے علاوہ انھیں اکادکا ہندی فلموں میں بھی دیکھا گیا۔دھرمیندر کے ساتھ انھوں نے ’’عزت‘‘ کی جس کا گیت’’کیا ملئے ایسے لوگوں سے ‘‘ بہت مشہور ہوا تھا مگر ان کا دائرۂ اثر شمالی ہند میں نہیں بڑھ پایا۔ وہ اپنے دور کی سب سے بولڈ ہیروئن مانی جاتی تھیں۔ جس زمانے میں تمام ہیروئنیں پورے بدن کے کپڑے پہن کرپردے پر نمودار ہوتی تھیں انھوں نے اسکرٹ پہن کر دھوم مچادیا۔ ابھی یہ شور تھما نہ تھا کہ وہ ایک فلم میں بکنی میں نظر آئیں اور ان کے حسن کی جلوہ سامانیوں نے فلم بینوں کے ہوش اڑا دیئے۔
سیاست کی راہ پر
جے۔جے لیتاکی سب سے زیادہ فلمیں ایم جی رام چندرن کے ساتھ آئیں جو ان سے عمر میں تیس سال بڑے تھے اور جنوبی ہند میں MGRکے نام سے مشہور تھے۔ انھوں نے اس سپراسٹار کے ساتھ ۲۸ فلمیں کیں۔ وہ ایک شادی شدہ اور بال بچے والے شخص تھے اور جے للیتا انھیں’’انن‘‘ یعنی بھائی کہتی تھیں مگر ان دونوں کے عشق کے چرچے خوب گرم رہے۔ ایک وقت آیا کہ ان دونوں کے بیچ جھگڑے کی خبریں آئیں اور حالات سے بد دل ہوکر جے للیتا نے بھی مدراس چھوڑ حیدرآباد میں سکونت اختیار کرلی۔ اس بیچ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور انھوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ حیدر آباد میں تیلگو فلموں کے اداکار شوبھن بابو کے ساتھ ان کے معاشقے کی خبریں اڑیں مگر یہ سلسلہ زیادہ دن نہیں چل پایا اور ۱۹۸۰ء میں ایک بار پھر ان کی زندگی میں MGRلوٹ آئے۔ اس بار بھی ان کی جوڑی ایک ساتھ نظر آئی مگر فلم میں نہیں سیاست میں۔ ڈی ایم کے تمل ناڈو کی بااثر سیاسی پارٹی تھی اس کے لئے وہ پرچار کر رہے تھے اور جے للیتا بھی ان کے ساتھ تھیں۔ ایم کرونانیدھی تب پارٹی کے صدر بن چکے تھے اور انھیں اس جوڑی سے خطرہ محسوس ہورہا تھا۔آخر کار اختلافات اس قدر بڑھے کہ MGRنے پارٹی سے علاحدگی اختیار کر لی اور اپنی الگ پارٹی بنائی ADAMK۔ اس پارٹی کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی اور جے للیتا کو پروپیگنڈہ سکریٹری بنایا گیا تھا۔ اس پارٹی کے لئے ان دونوں نے جی توڑ محنت کی اور اسمبلی میں کامیابی کے بعد ریاست میں سرکار بھی بن گئی۔ جے للیتا کو راجیہ سبھا ممبر بنادیا گیا۔ ابھی اس واقعے کو چند مہینے ہیگزرے تھے کہ MGRکی طبیعت خراب ہوگئی اور انھیں علاج کے لئے امریکہ جانا پڑا۔ سرکار کے کام کاج دیکھنے کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں جے للیتا کو کوئی جگہ نہیں دی گئی تھی۔ جب ایم جی آر کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو انھوں نے استعفیٰ دیدیا اور ان کے حامیوں نے جلد بازی میں ان کی بیوی کو ان کی جگہ وزیر اعلیٰ بنادیا،حالانکہ وہ سیاست سے بالکل ناواقف تھیں۔ ابھی وہ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرتیں کہ یہاں صدر راج کا نفاذ ہوگیا۔ ۱۹۸۷ء میں ایم جی آر کی موت ہوگئی اور انھیں اس صدمے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا صدمہ بھی جھیلنا پڑا کہ انھیں اپنے لیڈر کی لاش سے دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ باوجود اس کے وہ ایم جی آر کی لاش کے سرہانے تین دن تک سوگوار سی کھڑی رہیں۔جب لاش کو آخری رسومات کے لئے لے جایا جارہا تھا تب انھیں اس گاڑی پر سے اتار دیا گیا۔ یہ باتیں جب عوام میں پہنچیں تو ان کے تئیں ہمدردی کی لہر پیدا ہوگئی اور انھیں اس سے سیاسی فائدہ ملا۔ پارٹی کے اندر دودھڑے تھے جن میں سے ان کا دھڑا غالب آگیا اور اسمبلی الیکشن میں انھیں اتنی سیٹیں مل گئیں کہ وہ اپوزیشن لیڈر بن گئیں۔ انھوں نے تب کے وزیر اعلیٰ کرونانیدھی کے خلاف مورچہ کھول دیااور آخر کار ۱۹۹۱ء میں وہ ریاست کی وزیر اعلیٰ بن گئیں۔
کرپٹ کون نہیں ہے؟
۱۹۹۱ میں جب وہ وزیر اعلیٰ بنیں تو ان کے پاس چند کروڑ روپئے تھے مگر ۱۹۹۶ء میں ان کی دولت ۶۷ کروڑ تک پہنچ گئی۔ انھوں نے اس دولت کی آمد کا ذریعہ نہیں دکھایا تھا۔ان کے گھر پر چھاپہ پڑا اور ۲۸ کیلو سونا،۹۰۰ کیلو چاندی کے ساتھ ساتھ ہزاروں جوڑے قیمتی کپڑے اور سینکڑوں جوڑی جوتیاں پائی گئیں۔ گھر میں عیش وآرام کے دیگر سازوسامان کے علاوہ ان کی جائیداد کے کاغذات بھی برآمد ہوئے اور انھیں جیل جانا پڑا۔ تب ان کے کٹر مخالف کرونانیدھی وزیر اعلیٰ تھے۔ان معاملات کی شروعات تب ہوئی جب انھوں نے اپنی سہیلی ششی کلا کے بھتیجے اور اپنے منہ بولے بیٹے سدھاکرن کی شادی شاہی انداز میں کرائی۔ باراتیوں کو سونے کے دھاگوں سے بنی ہوئی ساریاں اور دھوتیاں اور دیگر قیمتی تحائف بانٹے گئے تھے۔ یہی شادی ان کے لئے بربادی کا پیغام لے کر آئی اور ان کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں۔ وہ اپنی آمدنی کا ذریعہ نہ بتا سکیں جب کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ محض ایک روپیہ تنخواہ لیتی تھیں۔ ان پر کرپشن کا الزام لگایا گیا اور ۴۶ مقدمے درج کئے گئے۔ اٹھارہ سال تک مقدمہ چلا اور انجام کار ایک خصوصی عدالت نے انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ پہلے بھی کئی ریاستوں کے سابق وزراء اعلیٰ کو جیل جانا پڑا ہے مگر گرفتاری کے وقت وہ وزیر اعلیٰ نہیں تھے۔
بھارت میں سیاست اسی مقصد سے کی جاتی ہے کہ ملک کی دولت کو لوٹاجائے۔ جے للیتا کے پاس جتنی دولت ہے اس سے کم دولت دوسرے نیتاؤں کے پاس نہیں ہے۔ اگر کرپشن کے سبب کسی نیتا کو جیل بھیجا جائے تو کوئی نیتا باقی نہ بچے مگر ان سے جو غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنی ناجائز دولت کو جائز ثابت کرنے کے لئے کوئی قانونی راستہ نہیں ڈھونڈا۔ نتیجے کے طور پر آج وہ جیل میں ہیں۔
(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور رائٹر ہیں)
جواب دیں