پلوامہ سے چھتیس گڑھ تک …. دہشت گرد حملے یا تو الیکشن سے پہلے ہوتے ہیں یا الیکشن کے بعد‘ آخر کیوں؟

    ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔ ایڈیٹر گواہ‘ حیدرآباد

    یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب یقینی طور پر ہر سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے کے پاس ہوگا۔ چھتیس گڑھ میں ماؤنواز کمیونسٹوں کے حملے میں سی آر پی ایف کے 22جوانوں کی شہادت اور کوبرا کمانڈو کے ایک جاں باز راج شیکھر کے اغوا کے واقعہ نے ایک بار پھر ہندوستانی عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 22 جوانوں کی شہادت کا غم اپنی جگہ پر مگر کوبرا کمانڈو کی کمسن بچیمینو کی اپنے باپ کی رہائی کے لئے درد مندانہ اپیل نے ہر آنکھ کو نم کردیا۔ اور انتہا پسندوں کے خلاف ہندوستان کے ہر امن پسند شہری کا غم و غصہ فطری اور واجبی ہے۔ 2000 سیکوریٹی جوانوں پر پیپلز لبریشن گوریلا آرمی (PLGA) کے 400 مسلح انتہا پسندوں نے گھات لگاکر حملہ کیا بلکہ انہیں دھوکہ سے اپنے قبضہ میں لاکر حملہ کیا۔ جوابی حملے میں خود ان کے پانچ کارکن مارے گئے جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ سی پی آئی ایم کے ترجمان نے کوبرا کمانڈو کے ان کی تحویل میں محفوظ ہونے کی توثیق بھی کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مصالحت کاروں کے نام جاری کریں اس کے بعد ہی وہ کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے شہید جوانوں کا انتقام لینے کا عہد کیا ہے۔ دوسری طرف سیاسی تجزیہ کار پرشانت کشور جو کبھی بی جے پی کے ساتھ تھے اور ان دنوں ممتابنرجی کے مشیر ہیں۔ انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ چھتیس گڑھ حملے کے لئے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ذمہ دار ہیں۔ عوامی سطح پر یا خود بی جے پی کی جانب سے اس پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں ہوا۔ اس بدبختانہ واقعہ سے کسی بھی بھی جماعت کو کوئی سیاسی فائدہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس میں نہ تو چین اور نہ ہی پاکستان ملوث ہے۔ البتہ حملہ آور PLGA یقینی طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے نظریات پر عمل کرتے ہیں۔ کیوں کہ ماؤزے تنگ ہی ماؤسٹ کمیونسٹ پارٹی کا بانی ہے۔ ماؤازم کو اُسی نے پروان چڑھایا۔ مسلح شورش حکومت کے خلاف منفی پروپگنڈے کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنا اس کا نصب العین رہا۔ مغربی بنگال، آسام، کیرالا، تاملناڈو، پوڈیچری کے انتخابات کے درمیان اس حملے کا خاطر خواہ اثر تو نہیں ہوا البتہ ٹی ایم سی، کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کو حکومت کی بے خبری، نااہلی، انٹلیجنس ایجنسیوں کی کمزوری اور تنقید کرنے کا موقع ضرور ملا۔ سی آر پی ایف پر ایسا ہی حملہ دوسال پہلے 14/فروری 2019ء کو جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ میں لیتھاپور میں ہوا تھا جب جیش محمد کے ایک خودکش حملہ آور نے آر ڈی ایکس سے لدی ہوئی کار کو سی آر پی ایف جوانوں کے قافلے کو لے جارہے ویان سے ٹکرادیا تھا۔ جس میں 40جوان شہید ہوئے تھے۔ خودکش حملہ آور بھی ہلاک ہوگیا تھا۔ اس حملہ کے خلاف غیر معمولی ردعمل ہوا۔ 26/فروری کو ہندوستان نے پاکستان کے خیبرپختون خا میں واقع بالاپور پر سرجیکل اسٹرائیک کی اور دہشت گرد کیمپس کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ 1971ء کے بعد پہلا فضائی حملہ تھا۔ دوسرے دن 27/فروری کو پاکستان فضائیہ نے ہندوستانی لڑاکا طیارہ مار گرایا اور اس کے زخمی پائیلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا تھا۔ موقع کی نزاکت جنگ کے اندیشوں کے پیش نظر یا پھر خیر سگالی جذبے کے تحت عمران خان نے پارلیمنٹ میں ابھی نندن کو رہا کردینے کا اعلان کیا۔ اور یکم مارچ 2019ء کو انہیں ہندوستان کے حوالے کردیا گیا۔ اُسے ہندوستان کی عظیم فتح کے طور پر پیش کیا گیا۔ اور بی جے پی کو الیکشن میں اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ ہندوستانی عوام کے لئے پلوامہ اور چھتیس گڑھ میں شہید ہونے والے جوانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی مادر وطن کے سپوت ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ پلوامہ سانحہ کے لئے پڑوسی ملک  یعنی بیرونی طاقت ذمہ دار ہے اور چھتیس گڑھ کے لئے گھر کے بھیدی ذمہ دار ہے۔ بیرونی طاقتوں سے مقابلہ آسانی سے کیا جاسکتاہے۔ گھر کے اندر کے دشمن کو پہچاننا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھتیس گڑھ کے بشمول گیارہ ریاستوں میں میں ممنوعہ سی پی آئی ایم وقفہ وقفہ سے دہشت گرد حملے کرتی رہی ہے۔ چھتیس گڑھ میں جو بھی ہوا‘اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ PLGA نے دراصل 25اپریل 2018ء کے پولیس ایکشن کا انتقام لیا ہے۔ یاد رہے کہ مہاراشٹرا کے گڑھ چرولی میں پولیس اور سیکوریٹی فورس کے ساتھ تصادم میں 37ماؤنواز باغی مارے گئے تھے جن میں 19خواتین شامل تھیں۔جنہوں نے اس حملے کا انتقام لینے کا اعلان کیا تھا۔ سمجھا جاتاہے کہ اس انتقامی کاروائی میں ماؤنواز باغیوں کی گوریلا آرمی بٹالین کاکمانڈر ”ہیڈما“ کا اہم رول ہے۔ جو ایک افسانوی کردار کی طرح ہے اس کی گرفتاری کے لئے حکومت نے احکامات جاری کئے ہیں۔ البتہ خود حکومت کو نہیں معلوم کہ آیا ہیڈما ابھی زندہ ہے یا نہیں۔وہ مانڈوی اور ماڑوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سکیوریٹی فورسس کے جوابی کاروائی میں جو پانچ ماؤنواز مارے گئے ان میں سے ایک کا نام مانڈوی بھی ہے۔ بہرحال سیکوریٹی فورسس میں چھتیس گڑھ واقعہ کے خلاف زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے ساتھیوں کا انتقام لینے کے لئے ضرورت پڑنے پر وہ چھتیس گڑھ کے وہ تمام جنگل کو آگ لگاسکتے ہیں جس میں یہ نکسلائٹس روپوش ہیں۔فی الحال حکومت کے لئے اغوا کئے کوبرا کمانڈو راج شیکھر کی رہائی اولین ترجی ہے اس کے بعد ہی وہ کوئی اقدام کرسکتے ہیں۔ 
    حکومت ہند کو ان دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرناچاہئے۔ انتہاپسندوں یا دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے معاملے میں بھی ارباب اقتدار کی دوغلی پالیسی رہی ہے۔ سینکڑوں جوانوں، عام شہریوں کو ہلاک کردینے والے سرکاری املاک، پُلوں، ریلوے اسٹیشنوں کوا ڑا دینے والے نکسلائٹس کو وہ بات چیت کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ ہتھیار ڈالتے ہیں تو ان کی بازآبادکاری کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جبکہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو فرضی الزامات کے تحت گرفتار کرکے مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں سڑایا جاتا ہے۔ ان کی جوانی جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے بڑھاپے میں بدل جاتی ہے۔ حکومت کو اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اس وقت ہندوستان کی باز ریاستوں پر انتہائی تعصب پرست مسلم دشمن عناصر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہے جو مسلمانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی مخالف سی اے اے احتجاج کو ملک سے غداری کا نام دے کر تو کبھی لوجہاد کی احمقانہ اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کے کیریئر کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اُترپردیش حکومت کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ نے سخت نوٹ لیا ہے۔ اس حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شامل شہریوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون کا یہ بہترین استعمال کیا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 120لوگوں کے خلاف عائد کئے گئے نیشنل سیکوریٹی ایکٹ میں سے 94کو بَری کردیا۔ عدالت کایہ فیصلہ یوگی حکومت کے منہ پر کرارا طمانچہ ہے۔ یہ بات ثابت ہوئی کہ یوگی حکومت کا فیصلہ تعصب کی بنیاد پر تھا۔ سوال یہ ہے کہ نکسلائٹس اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے مسلم نوجوانوں میں کیا فرق ہے۔ نکسلائٹس تحریک کی بنیاد دراصل کاشت کاروں یا کسانوں کی زمینداروں کے مظالم کے خلاف رکھی گئی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں نکسل باری گاؤں میں جو مغربی بنگال کے ضلع دارجلنگ میں واقع ہے یہاں کاشتکاروں کی بغاوت سے اس کی بنیاد پڑی تھی۔ 1965 ء اور 1967ء کے درمیان یہ مستحکم ہوگیا۔ مگر 1967ء میں ماؤنواز اس تحریک سے علیحدہ ہوگئے۔ اور ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسٹ۔لینن) یا سی پی آئی (ایم ایل) کی بنیاد رکھی گئی۔ ماؤنواز گروپ دہشت گردی اور تخریبی کاروائیوں پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ اس نے چھتیس گڑھ، اڑیسہ، آندھراپردیش، تلنگانہ میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ اس کے برخلاف سی پی آئی (ایم ایل) نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے وجود کو قانونی موقف دلادیا۔ ماؤنوازوں نے گزشتہ 50برس کے دوران کئی حملے کئے۔ سب سے خطرناک حملہ 6اپریل 2010ء کو چھتیس گڑھ کے ہی ضلع دنتے واڑہ میں کیا گیا تھا جس میں 76 سی آر پی ایف جوان شہید ہوئے تھے۔ ایک مہینہ بعد انہوں نے اسی علاقہ میں ایک بس کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ جس میں 15پولیس جوان اور 20شہری ہلاک ہوئے تھے۔ ایک مہینے بعد انہوں نے پھر 26سی آر پی ایف جوانوں کو شہید کیا تھا۔ ہر سال 2010 سے 2021ء تک ان کے حملوں میں سیکوریٹی جوان شہید ہوتے رہے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر مسلم نوجوانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ محض دہشت گردی کے شبہ میں یا تو 15-20 سال جیلوں میں سڑایا جاتا ہے یا انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اپنے ملک کا وفادار رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں جب پولیس اور سیکوریٹی فورس میں بھرتی کی گئی تو سینکڑوں مسلم نوجوان آگے بڑھے۔ مسلم نوجوان صرف اپنا تشخص چاہتا ہے اسے بھی روزگار چاہئے۔ ہر سطح پر تعصب اور جانبداری سے اس کی ترقی کی راہیں مسدود ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی کی نہیں‘ انصاف کی ضرورت ہے۔ آزماکر دیکھیں‘ ہر ہندوستانی مسلمان اور نوجوان اپنے وطن عزیز پر مرمٹنے کیلئے تیار ملے گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

 

«
»

موت کا ایک دن متعین ہے

آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں اور گستاخوں کے سروں پر کس کا ہاتھ؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے