ڈاکٹر سلیم خان
مودی کے بعد یوگی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک خوشخبری یہ ہے کہ ان کو شاہ کے بعد پٹیل مل گیا جی ہاں پر فل پٹیل۔ کل کو اگر یوگی جی وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو انہیں وزیر داخلہ کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ لکشدیپ کے منتظم اعلیٰ پرفل پٹیل نے اپنے آپ کو امیت شاہ کا پکا وارث ثابت کردیا ہے۔ اتفاق سے ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ کا نام ولبھ بھائی پٹیل تھا۔ 1948میں انہوں نے نیوی کے ذریعہ لکشدیپ کے 36 جزیروں کو ہندوستان سے جوڑ کر وہاں کی عوام کو محب وطن بنایا اب پرفل پٹیل وہاں کے باشندوں کا دل توڑ کر انہیں ملک دشمن بنارہاہے۔ لنکا کو فتح کرنے سے قبل جلانے کی روایت بہت قدیم ہے۔ فی الحال لکشدیپ میں نفرت کی شعلے بھڑکائے جارہے ہیں۔ رامائن میں یہ کام رام نے نہیں ہنومان نے کیا تھا مگر اس کے لیے اس کی دم میں آگ لگوانے والے راون کو ذمہ دار ٹھہرایاجاتاہے اسی طرح لکشدیپ کو آگ لگانے کا کام پرفل پٹیل کررہے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری وزیر اعظم پر آتی ہے کیونکہ یونین ٹریٹری کے نظماء کا تقرر انہیں کی مرضی سے ہوتا ہے۔ کٹھ پتلی منتظم یوں بھی اپنے آقا کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا اور اگر کر بھی دے تو اس کو منع کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔ بے لگام پرفل پٹیل کو یقیناً اس کے آقا کا آشیرواد حاصل ہے۔
پرفل پٹیل کو امیت شاہ کا جا نشین قرار دینے پر حیرت کرنے والوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے بھی انہیں کو امیت شاہ کاعہدہ تھمایا تھا۔ یہ صرف ۱۱ سال پرانی بات ہے۔ اس وقت مودی جی گجرات کے بے تاج بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے وزیر داخلہ کا اہم عہدہ تیز طرار امیت شاہ کو دے رکھا تھا۔ امیت شاہ کے کارنامہ پڑھنے کے لیے سی بی آئی کے ذریعہ ان کے خلاف داخل کی جانے والی چارج شیٹ پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ خیر سہراب الدین قتل کے واحد چشم دید گواہ پرجاپتی کے فیک انکاونٹر پر گجرات کے سابق وزیر داخلہ کو گرفتار کرلیا گیا اور مودی جی مجبوراً ان کا استعفیٰ لینا پڑا۔ اس وقت شاہ جی کی جگہ لینے کے لیے مودی جی کی نظرعنایت کسی اور پر نہیں پرفل پٹیل پر پڑی تھی۔ 2007میں پہلی بار پرفل پٹیل ہمت نگر سے منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچے تھے۔ ان کو سرے کسی وزارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود وزارت داخلہ کا اہم ترین عہدہ ان کو سونپ دیا گیا کیونکہ اس وقت بھی یہی معاملہ تھا ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے کام کرنے کا یہ پرانا طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے برابر کے کسی رہنما کو آگے نہیں آنے دیتے۔ گجرات کے اندر امیت شاہ کو وزیر داخلہ بنانا بھی ایسا ہی قدم تھا۔ نا اہل اور غیر تجربہ کار افراد کو اہم ذمہ داریاں سونپ دینے سے ملک و قوم کا تو یقیناً بڑانقصان ہوتا ہے لیکن رہنماوں کے لیے یہ بڑی مفیدکی حکمت عملی ہے۔ ایسے لوگ اپنے آقا کے لیے کبھی چیلنج نہیں بنتے بلکہ ان کی مدد سے حریفوں کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ بندۂ بے دام ہونے کے سببیہ لوگ بے چوں چرا ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ان کی وفا داری اٹوٹ ہوتی ہے اور موجودہ سیاست میں یہی سب سے اہم صفت ہے۔ پرفل پٹیل جیسے نوزائیدہ سیاستداں کو وزیر داخلہ بنانے کے پیچھے یہی عوامل کارفرما تھے لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی کیونکہ 2012 کےصوبائی انتخاب میں بی جے پی کی زبردست کا میابی کے باوجود یہ وزیر داخلہ12ہزار سے زیادہ ووٹ کے فرق سے ہار گیا۔ مودی جی سمجھ گئے یہ شخص مجھے بھی لے ڈوبے گا اس لیے اسے دودھ سے مکھی کی مانند نکال کر پھینک دیا اس کو ہرانے والے سنگھ چاوڑا کو بی جے پی میں شامل کرلیا۔ اس طرح پرفل پٹیل سیاسی اہمیت صفر ہوگئی اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ انتخابی سیاست سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہوگئی۔
پرفل پٹیل کا جنم سنگھ پریوار کے اندر ہو۔ اس کے والد کھوڈا بھائی رنچھوڑ داس پرانے سنگھ سیوک تھےاس لیے زہریلے سنگھی سنسکار تو اسے وراثت میں مل گئے۔ کھوڈا بھائی نے نہ جانے کیوں اپنے بیٹے کا نام پر فل رکھ دیا حالانکہ انگریزی میں’فول‘ کا مطلب احمق ہوتاہے اور اس کی حالیہ حرکتوں نے اسے اسم بالمسمیٰ ثابت کردیا ہے۔ ویسے گوگل پر مودی جی کے ساتھ پر فل پٹیل کی جو تصاویر نظر آتی ہیں ان میں سے بیشتر میں وہ جھک کر پھول یا پھولوں کا گلدستہ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح شایہ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ انگریزی کے فول نہیں بلکہ ہندی کے پھول والے ہیں حالانکہ لکشدیپ میں اس کے کارناموں نے تو کانٹوں کو بھی شرمسار کردیا ہے۔ مشہور تو یہی ہے کہ سنگھ سے تعلق کے سبب مودی جی کا کھوڈا بھائی کے یہاں آنا جانا تھا ۔ پرفل پٹیل کے وزیر بنانے میں ممکن اس تعلق کا عمل دخل ہو۔ اقربا پروری صرف خاندانی نہیں بلکہ تنظیمی بھی ہوتی ہے لیکن جب اسے صالحیت و صلاحیت پر فوقیت حاصل ہوجائے تو وہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
وزیر اعظم بنتے ہی مودی جی کے تو اچھے دن آگئے مگرپرفل پٹیل کو اس کے لیے دوسال انتظار کرنا پڑا۔سب سے پہلے انہیں گجرات سے متصل مرکز کے زیر نگرانی علاقہ دادرہ نگر حویلی کا منتظم بنایا گیا۔ یہ دراصل گورنر شپ سے بھی ہلکا عہدہ ہے لیکن پٹیل نے اس کو بھاگتے بھوت کی لنگوٹی سمجھ کر لپک لیا۔ رافیل بدعنوانی سے پریشان مودی جی جس وقت دوبارہ منتخب ہونے کے لیے ہاتھ پاوں ماررہے تھے تو پرفل پٹیل نے حق نمک ادا کرنے کی خاطر دادرہ نگر حویلی کے کلکٹر کنن گوپی ناتھ کے خلاف محاذ کھول دیا جو بربنائے عہدہ الیکشن کے ریٹرننگ آفیسر بھی تھے۔ کنن جیسے افسر پر اپنی من مانی ممکن نہیں تھی اس لیے ان کو وجہ بتاو نوٹس دے کر دھمکی دی گئی کہ کوتاہی کے سبب کارکردگی کی رپورٹ کو کیوں نہ متاثر کیا جائے۔ کنن نے اس کے خلاف الیکشن کمیشن تک اپنا اعتراض پہنچایا۔ اس پر پٹیل کو پھٹکار پڑی اور نوٹس واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ الیکشن کے دوران پرفل پٹیل بی جے پی کے دو مرتبہالیکشن جیتنے والے امیدوار ناتو بھائی گومن بھائی پٹیل کو کامیاب کرنے میں ناکام رہے اور انہیں موہن ڈیلکر نے 8ہزار سے زیادہ ووٹ کے فرق سے ہرا دیا۔ منتظم اعلیٰ کے لیے یہ دوہری ذلت تھی۔ پہلے تو کنن کے سامنے منہ کی کھانی پڑی، پھر ڈیلکر نے اٹھاکر پٹخ دیا۔
پرفل پٹیل نے ان دونوں سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ کنن گوپی ناتھن کو اس قدر پریشان کیا کہ بالآخر اگست 2019 میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ اس طرح ملک ایک نہایتباصلاحیت آئی اے ایس افسر کی خدمات سے محروم ہوگیا لیکن پٹیل کی اس حماقت نے این آر سی اور سی اے اے کی تحریک کو ایک نہایت نڈر اور قابل رہنما سے نواز دیا ۔ کنن گوپی ناتھ نے اس تحریک کے فروغ میں جو کردار نبھایا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ گوپی ناتھ کو بھگانے کے بعد پر فل پٹیل کا دوسرا شکار موہن ڈیلکر تھا۔ 1967 میں پہلی بار دادرہ نگر حویلی کو الگ سے حلقۂ انتخاب بنایا گیا اور وہاں سے پہلی بار موہن ڈیلکر رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ آگے چل کر2004 تک جملہ ۷ مرتبہ انہوں نے اپنی کامیابی کا پرچم لہرایا۔ اس دوران وہ 3 مرتبہ بی جے پی اور دو مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے نیز دو مرتبہ ٓزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی جیتے۔
موہن ڈیلکر کو پٹیل نے اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے مارچ 2021 میں ممبئی آکر خودکشی کرلی اور اپنے سوسائیڈ نوٹ میں جن 9 لوگوں کو نامزد کیا ان میں سرِ فہرست وزیراعظم کے چہیتے پرفل پٹیل کا نامتھا۔ ڈیلکر کے بیٹے ابھینو کا الزام ہے کہ پرفل پٹیل نے ان کے والد پر دباو ڈال کر25 کروڈ کی خطیر رقم کا مطالبہ کیا۔ وہ ان کے تعلیمی اداروں پر غاصبانہ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ پرفل پٹیل ان کو پاسا کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر جیل بھیجنے کی سازش رچ رہے تھے تاکہ آئندہ الیکشن لڑنے سے روکا جائے۔ کسی طاقتور منتظم کے خلاف ایسے سنگین الزامات عائد کرنا اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنے جیسا ہے اس کے باوجود ابھینو ڈیلکر نے کمال جرأتمندی کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کیا کہ ہر کوئی بی جے پی کی دھونس دھمکی میں نہیں آتا۔ ابھینو نے کہا کہ موہن ڈیلکر نے اس لیے ممبئی کے ہوٹل میں جاکر خودکشی کی تاکہ پٹیل اس معاملے کو رفع دفع نہ کرسکے۔ اس مقصد کی حد تک موہن ڈیلکر کامیاب رہے اور پرفل پٹیل کے خلاف ممبئی کے اندر ایف آئی آر درج ہوگئی۔ وہ تو خیر مہاراشٹر میں بی جے پی برسرِ اقتدار نہیں ہے ورنہ بیچارے موہن ڈیلکر کو راجستھان جانا پڑتاکیونکہ دہلی کی پولس بھی امیت شاہ کے تابع ہے اور مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کو ہٹایا جاچکا ہے۔ پرفل پٹیل کے ماضی کو تفصیل سے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے تاکہ اس کے تناظر میں اس کی حالیہ بدبختیوں کا جائزہ لیا جائے۔اس میں شک نہیں کہ کننکےمعاملےکیطرح اگرپٹیلنے یہقوانینواپسلیے تولوگ اسے ماننے سے انکار کردیں گے۔ ویسے موہنڈیلکر کا معاملہ بھی ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔ جلد یا بہ دیرپرفولشپٹیلکو اس معاملے جیل کی ہوا کھانی ہوگی کیونکہ اللہ کے گھردیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ ویسے اس طرح ظالموں کا دنیا میں انجام بھی اس شعر کی مصداق ہوتا ہے؎
غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں