پورن فلموں کا کالا کاروبار،نئی نسل کو کر رہا ہے بے کار

بھارت اور پاکستان میں بڑھتی ریپ کی وارداتوں کے پیچھے ،ان فلموں کی عمومیت کو بھی دخل ہے۔بھارت کی راجدھانی دلی میں یہ کالا دھندہ کس قدر عام ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے ہوسکتا ہے۔) 
ایشیا کے بڑے الیکٹرانک بازاروں میں سے ایک نہروپلیس(نئی دہلی) ہے۔ میں یہاں سے ہی گذررہا ہوں اور دکانوں کے باہر کھڑے ہوئے دکانوں کے ایجنٹوں کی آوازیں مسلسل میرا تعاقب کررہی ہیں‘ مگر میں آگے بڑھتا جاتاہوں۔ یہ آواز لگا کر اپنے مختلف ہارڈویئراور سافٹ ویئر کو فروخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان میں کچھ اوریجنل ہیں‘ مگر بیشتر پائی ریٹیڈ ہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے ایک جگہ مجھے فلمی ڈی وی ڈیز نظر آئیں اور مجھے محسوس ہوا کہ یہاں میرا کام ہوجائے گا۔ فروخت کرنے والے پندرہ سالہ نوجوان سے میں نے
پوچھا۔ پورن DVDsہیں؟ اس نے اثبات میں سرہلایا اورفوراً ہی نیچے کی طرف ہاتھ ڈال کراس نے تقریباً پندرہ DVDs نکال کر میرے حوالے کردیں اور کہا پسند کرلو۔
میں نے الٹ پلٹ کر انہیں دیکھا۔ Coverکچھ خاص پرکشش نہیں لگا۔ میں نے کہا‘ یہ توکچھ خاص نہیں لگتیں؟ اس نوجوان نے کہا‘ بہت خاص ہے‘ Coverپرمت جاؤ۔ میں نے کہا ان سے بہتر کچھ ہے تو دکھاؤ۔ XXXلے جاؤ‘ یہ کہتے ہوئے اس نے دوبارہ میرے سامنے دس DVDs رکھ دیں۔ XXXکا مطلب ہوتا ہے وہ فحش فلمیں‘ جن میں ایک عورت کے مقابلے تین مردوں کودکھایا جاتاہے۔ میں نے انہیں ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے اس نوجوان سے پوچھا‘ تم اس دکان پر کتنے دن سے ہو‘ تو اس نے جواب دیا تین سال سے۔ گویا یہ پندرہ سالہ نوجوان صرف 12سال کی عمر سے فحش فلمیں فروخت کررہاہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں آگے بڑھتا رہا۔ گویا جسمانی طور پر بالغ ہونے سے قبل ہی یہ ذہنی طور پر بالغ ہوچکاتھا۔ حالانکہ قانونی طورپر یہ اب بھی بالغ نہیں تھا اور ووٹ ڈالنے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا۔ ظاہر ہے بارہ سال کی عمر میں ذہنی بلوغ اور فحش فلموں کو دیکھ کر ہیجان کا ہونا لازم ہے اور یہ نہ صرف اس بچے کے لئے نقصان دہ ہے‘ بلکہ سماج کے لئے بھی انتہائی مضر ہے۔ دلی کے دونوجوان منوج اور پردیپ نے ایک 5 سالہ بچی کی عصمت دری کرتے ہوئے ‘ جس حیوانیت کا ثبوت دیا تھا‘ اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس کے پیچھے بھی بلیو فلموں کا ہی ہاتھ تھا۔
ہرجگہ دستیاب ہے پورنوگرافی
جب میں دہلی کے معروف پالیکا بازار سے گذررہا تھا‘ تو میرے ذہن میں نہرو پلیس کی یاد تازہ تھی۔ یہاں کئی دکانوں میں مجھے قابل اعتراض DVDs مل گئیں‘ مگر پالیکا بازار میں مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہاں C Dsفروخت کرنے والے ایک شخص کے پاس کھڑا ہوگیا اور اس انتظارمیں تھا کہ گاہک ادھر ادھر ہوجائیں‘ تو اپنا سوال پیش کروں۔ شاید دکاندار میرے تذبذب کوسمجھ گیا اور پوچھنے لگا‘ کیا چاہئے؟ میں نے بھی شرمانے کی ایکٹنگ کی‘ گویا انتہائی شریف خانوادے کا چشم وچراغ ہوں اورجدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اس نے میری اداکاری کو سچ سمجھا اور میری ہمت بندھاتے ہوئے بولا ‘ بولئے نا! کیا چاہئے‘ سب کچھ ہے میرے پاس۔ پورن CDs چاہئیں؟ میں نے شرماتے ہوئے ہاں میں سرہلایا‘ تو اس نے بہت سی سیڈیاں میرے ہاتھ میں دے دیں اوراپنا اسٹول مجھے پیش کرتے ہوئے بولا‘ بیٹھ جاؤ سرجی‘ آرام سے پسند کرو۔
میں نے کہامجھے انڈین نہیں چاہئیں‘ باہری چاہئیں‘ امریکن۔
اس نے یقین دہانی کرائی کہ سب امریکن ہیں۔
میں نے کہا مجھے Male To Male چاہئیں۔
اس نے مجھے کچھ اور سیڈیاں تھمادیں اورپہلے والی واپس لے لیں۔
میں نے پوچھا‘ کیا اس کے پاس بچوں کی سیڈیاں ہیں؟ تو اس نے جھنجھلا کرجواب دیا ہیں تو‘ مگر تمہیں چاہئے کیا۔ پہلے یہ طے کرلو۔ ابھی وہ نکالوں گا‘ تو کہو گے کچھ اورچاہئے۔
میں راجدھانی دہلی کے کئی علاقوں میں گھومتا رہا اور مجھے کہیں بھی فحش فلموں کی CDsاور DVDs کے حصول میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ غفار مارکیٹ سے چاندنی چوک تک‘ ہر جگہ یہ بہ آسانی مل گئیں‘ مگر ان بازاروں سے نکل کر میں رہائشی علاقوں میں آیا۔ خوریجی‘ سیلم پور‘ جامعہ نگر‘ سریتا وہار ‘ سنگم وہار ‘ ہر جگہ دکانوں میں اس قسم کی فلمیں بہ آسانی مل گئیں۔ فرق صرف قیمت کا تھا‘ جو CDsنہرو پلیس میں 30روپے کی ملتی ہیں‘ وہ سریتاوہار میں 60روپے میں ملتی ہیں۔
یہ صورت حال صرف راجدھانی دہلی کی نہیں ‘ بلکہ پورے ملک کی ہے۔ قیمت کے فرق کے ساتھ اس قسم کی فحش فلمیں ہر جگہ‘ ہروقت دستیاب ہیں۔ وہ دہلی کا چاندنی چوک ہویاکولکتہ کا چاندنی بازار‘ ہر جگہ اس قسم کی مخرب اخلاق پورنو گرافی کی ارزانی ہے۔ انہیں فروخت کرنے والے بیشتر کم عمر لڑکے ہیں اور اس کے خریداروں میں بھی نابالغوں کی تعداد زیادہ ہے۔

موبائل ڈاؤن لوڈنگ
پورنوگرافی کادوسرا بازار موبائل میں ڈاؤن لوڈنگ کی شکل میں چل رہا ہے۔ فحش فلموں کو بآسانی انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتاہے۔ آپ کے پاس اسمارٹ فون ہونا چاہئے اور آج کل یہ اسمارٹ فون بچے بچے کے ہاتھوں میں ہیں‘ جو صرف 98روپے ماہانہ انٹرنیٹ ری چارج کے بعد کچھ بھی ڈاؤن لوڈکرسکتے ہیں۔ فیس بک پرہمیشہ آن لائن نظر آنے والے عموماً لوگوں کی نظریں بچا کر پورنوگرافی کے مزے بھی لیتے رہتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل موبائل سے فوٹو اتار کر فیس بک پر شیئر کرنے ہی میں آگے نہیں ہے۔یہ فحش MMSمیں بھی بہت تیز ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ گندے ویڈیوز کے تبادلے اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ ان سے اسکول تک محفوظ نہیں رہے۔ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے ایسے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں اورمیڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ 
موبائل فون میں آپ کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کراسکتے ہیں‘ اس کے لئے آپ کوکوئی بڑی رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف پندرہ روپے دیجئے اور آپ کے محلے کا دکاندار آپ کا پسندیدہ مواد اس میں ڈال دے گا۔ میں نے چاندنی چوک‘ دہلی میں ایک موبائل کی دکان کے سامنے بورڈ لگا ہو ادیکھا Free Relegious stories Downloadingمجھے پتہ نہیں کہ کتنے لوگوں نے یہاں آکر اس سروس کافائدہ اٹھایا‘ مگر میں نے اپنے اسمارٹ فون کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ اس میں پورن ویڈیو ڈال دو گے‘ تو دکاندار نے فوراً پوچھا‘ کتنی دیر کااور موبائل لے لیا۔
بچوں پراثر
اسے حالات کی ستم ظریفی کہاجائے یا بدلتے وقت کی قدروں کا تقاضہ کہ آج کل موبائل کی دکانوں میں بیٹھ کر جوویڈیو ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں‘ ان میں بڑی تعداد میں نوعمر لڑکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو اپنے موبائلوں میں ویڈیو ڈاؤن لوڈ کراتے ہیں‘ ان میں بھی بچوں کی بڑی تعداد ہے۔ یہ بچے اپنے دوستوں کے ساتھ ویڈیو شیئر بھی کرتے ہیں۔ اب ان باتوں کے اثرات ان کچے ذہنوں پر کیاپڑتے ہیں‘ یہ تحقیق کا موضوع ہے۔ انٹر نیٹ تک رسائی رکھنے والے بچوں میں ایسے بچے بھی بڑی تعداد میں ہیں‘ جو بہت کم سن ہیں‘ جو بالغوں کے لئے مخصوص مواد تک پہنچاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر بچے 11برس کی عمر میں کسی نہ کسی صورت اس قسم کے مواد سے واقف ہوجاتے ہیں۔
بچے اگر کم عمری میں اس قسم کے مواد تک رسائی حاصل کرلیں‘ تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ اس بارے میں جب ہم نے جنرل فزیشین ڈاکٹر کمال احمد سے دریافت کیا ‘ توانہوں نے بتایا کہ وقت سے پہلے بچوں کے اندر جنسی ہیجان کاپیداہونا ایک غیر فطری بات ہے‘ جو ان کے ذہن اور جسم پر زبردست منفی اثر ڈالتا ہے۔ اب یہ والدین کے لئے ایک مسئلہ بنتا جارہاہے۔ حالانکہ اس کے ساتھ وہ اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ آج کل بچے کمپیوٹر‘ انٹر نیٹ اور اسمارٹ فون وغیرہ سے کھیل کربڑے ہورہے ہیں۔ لہٰذا انہیں روک پانا ناممکن سی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جن گھروں میں ماں، باپ دونوں ورکنگ ہیں اور بچوں کو تنہائی ملتی ہے‘ وہاں اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
قانون ہے‘ مگر۔۔۔
حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کے مختلف محکموں کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا ہے۔کورٹ نے انٹرنیٹ پربچوں سے متعلق فحش مواد پرتشویش کااظہار بھی کیا ہے۔ ہم نے کلکتہ ہائی کورٹ کے معروف قانون داں انوار عالم خاں (ایڈوکیٹ) سے پوچھا کہ آج جس طرح سے مخرب اخلاق اور فحش مواد کا تبادلہ ہو رہا ہے‘ اس میں ملک کا قانون بے بس کیوں ہے؟ 
تو انھوں نے جواب دیا کہ
The Indecent Represntation of women Prohibitation Act

«
»

بس کر الٰہی

عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے