از قلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز؛اردو، ہندی پورٹل ومیگزین
گولا بازار، گورکھپور،
یوں تو ہم نے اپنی زندگی میں کئی ایک سال گزرتے دیکھاہے اور ہر سال کے آخر میں اس سال رونما ہونے والی کھٹی میٹھی یادوں کو ایک بار ضرور یاد کرتے ہوئے کبھی مسکراتے ہیں اور کبھی آہ بھرتے ہوئے گزر جاتے ہیں مگر سال ۲۰۲۰ء نے انسانی زندگی میں تباہی کے جو بحر بیکراں بہائے وہ ہلاکت وبربادی کی ایک نئی داستان، رنج و غم کی الگ وادی، ظلم و استبداد کی نئی روداد اور آہ و فغاں کی خوف ناک سرگزشت رقم کر گئے۔ جہاں اس پورے سال عالمی پیمانے پر متعدی وبا کورونا وائرس نے انسان وانسانیت کو اپنے نرغے میں لے کر خوف وہراس کا دوسرا نام بن گیا وہیں اس وبا کو ہتھیار بنا کر سازشیوں نے اپنے مفاد کی ساری تدابیر کو بروے کار لا کر دنیا کو خوب خوب بے وقوف بنایا۔
اور اگر بات کریں وطن عزیز بھارت کی۔۔۔ تو امسال فتنہ وفساد، فرقہ پرستی ونفرت کی سازشوں نے ہم بھارتیوں کو ایسا جکڑا کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ شروعات اس کی ہوئی ایک کالے قانون کی ایوان بالا وایوان زریں میں منظوری سے جس میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا وجود ہی خطرے میں نظر آنے لگا، جس کے بعد اس قوم نے پر امن احتجاج شروع کر اپنی بات حکومت اور حکمرانوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کی لیکن شریروں اور فتنہ بازوں کو چین کہاں؟ سازشیوں اور سیاسی لٹیروں کو سکون کیوں؟ انھوں نے گھنائونی چالیں چلنی شروع کردی؛ کہیں کسی احتجاج میں حلیہ بدل کر اینٹ، پتھر چلا کر احتجاج کو پرتشدد بنایا تو کہیں جعلی انتظامیہ بن کر انھیں احتجاج کرنے والوں کو زد وکوب کر ان کے احتجاج کو بھنگ کرنے کی کوشش کی۔ کبھی کسی سیاسی جماعت کے لیڈران نے حمایت میں حدیں پار کرنے کی کوشش کی تو کسی نے مخالفت میں دائرہ عبور کردیا،،،لیکن نتیجہ بس ایک ہی سامنے آیا کہ کئی معصوم جاں بحق ہوگئے تو نہ جانے کتنوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئیں، کسی کو ملک مخالف قرار دے دیا گیا تو کسی کے گلے میں دہشت گرد کا طوق ڈال دیا گیا اور انسان وانسانیت اس وقت شرم سار ہوگئی جب ملک کی ایک بیٹی کے کوکھ میں پل رہے اس کے شوہر کے بچے کو ناجائز بتا کر اس کی ناموس کو تار تار کیا گیا اور پھر اسی حالت میں اسے اٹھا کر زندان زاویرا میں ڈال دیا گیا غرض کہ ابتدائی دو ڈھائی ماہ تک ملک کی سب سے بڑی اقلیت نے خون کے آنسو روئے کہ اسی درمیان پڑوسی ملک چین سے کورونا نامی وبا نے رخت سفر باندھ لیا اور وطن عزیز کا دروازہ اس آہستگی سے کھٹکھٹایا کہ ملک کے چوکی دار اپنے ہم نوائوں کے ساتھ ایک ایسے شخص کی آئو بھگت میں مصروف رہ گئے جس نے کچھ دنوں بعد انھیں کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر جبرا (ملیریاکی) دوا حاصل کرلی اور ادھر کورونا نے بھارت میں اپنے پیر جمالیئے تب کہیں جاکر صاحب حواس باختہ ہوئے اور آن کی آن میں پورا ملک بند؛ جو جہاں تھا وہیں کا ہوکر رہ گیا کسی کو کہیں آنے جانے کی قطعی اجازت نہیں گھر سے نکل کر سبزی اور اشیاے خوردنی خریدنا بھی مشکل ہوگیا مزے کی بات تو یہ تھی کچھ شادیوں کے باراتی ایسے تھے جو ایک وقت کی بجاے ایک دن یا ہفتہ نہیں مہینہ بھر مفت کی روٹی توڑتے رہ گئے (کر بھی کیا سکتے تھے کہ باہر نکلنے پر پولیس کا غنڈہ راج قائم تھا) خیر ابتدا میں کچھ دنوں تک وبائی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے ملک کے سبھی لوگ حکومتی احکامات پر بلا تفریق مذہب وملت پابند کار رہیں ایسا لگ رہا تھا کہ ۱۸۵۷ء کی تاریخی مسلم-ہندو اتحاد کی جھلکیاں نظروں کے سامنے ہیں مگر واے حسرتا! ملک کی زرخرید میڈیا کی نظر بد پتہ نہیں کیسے دہلی کے مرکز اہل حدیث پر پڑگئی جہاں کچھ لوگ لاک ڈائون اور حکومتی فرامین کے سبب مرکز میں پھنس گئے تھے مگر زرخرید میڈیا نے الفاظ کا وہ پروپیگنڈہ تیار کیا کہ مندر میں موجود لوگوں کو ’’پھنسا ہوا‘‘ دکھایا تو مرکز میں پھنسے لوگوں کو ’’چھپا ہوا‘‘ دکھایا، پھر کیا تھا ہر چہار جانب فرقہ پرست طاقتوں کو واویلا مچانے کا اچھا موقع مل گیا اورملک کی سب سے بڑی اقلیت پھر سے ظلم وبربریت کی باج گاہ بن گئی؛ انسان تو انسان سبزیوں کو بھی مذہب کا لبادہ پہنا دیا گیا۔ المختصر اس قوم کے گلے میں ایک بار پھر سماج دشمن، کورونا پھیلانے والا، انتظامیہ سے بدسلوقی کرنے والا اور نہ جانے کون کون سے بدنما طوق ڈال دیئے گئے اور انھیں افواہوں کی آڑ میں غریبوں کی بھوک مری، لاچاروں کی خود کشی اور مسافروں کی جفا کشی پر پردہ ڈال دیا گیا مزید برآں کہ جب ملک کے زندانوں کو وبائی صورت حال کے پیش نظر خالی کیا جارہا تھا اسی وقت حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اپنے حقوق کی مطالبات اور ملک کی جمہوریت کی پاس داری کرنے والوں کو پولیس خاموشی سے قید وبند کی صعبتوں سے دوچار کررہی تھی۔ غرض کہ اگلے دو ڈھائی ماہ ہمارا ملک اور اس کا آئین ایک بار پھر دنیا کی نظروں میں ذلیل وخوار ہوا۔
جب ملک میں وبائی صورت حال پر کچھ کنٹرول ہوا یا یوں کہیں کہ کنٹرول ریموٹ دبایا گیا یا پھر اس صورت حال کی یوں ترجمانی بہتر ہوگی کہ کنٹرول ہونے کی خبریں عام کی گئیں تاکہ بہار انتخاب کا پرچار وپرسار کا کام ہوسکے جو کہ ہوا بھی اور مرکز کی کرسی اقتدار پر قابض جماعت نے بہار کی مقامی پارٹی سے مل کر حکومت سازی بھی کرلی اور پھر یکا یک کورونا کی صورت حال پیدا ہونی شروع ہوگئی گویا کہ کورونا ان دنوں چھٹی پر ہو۔ ان سب کے درمیان بہت سارے ناخوش گوار واقعات رونما ہوتے رہیں مگر سال کے اخیر میں حکومت نے ایک بار پھر ملک کے آئین کو بالاے طاق رکھ دیا اور بغیر کسی بحث ومباحثہ کے تین کالے قانون پاس کراڈالے اور اس بار نشانے پر تھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کسان۔ ان قوانین میں کسانوں کے حقوق کو سلب کرنے کا فرمان مضمر تھا۔ جب اس کی بھنک کسانوں کو لگی تو انھوں نے احتجاج کا دامن تھاما اور ملک کی دارالحکومت کو گھیرنا شروع کیا تو حکومت نے پولیس انتظامیہ کو ایک بار پھر غنڈہ گردی کی چابی تھمادی مگر جب چہار طرفہ مخالفت شروع ہوئی تو انھیں پیچھے ہٹنا پڑا لیکن یہ حکومت اپنے غلط فیصلوں پر بھی اٹل رہنے والی حکومت ہے۔ اس نے ابھی تک نہ ان زرعی قوانین کو واپس لیا اور نہ ہی وہ مسلمانوں کے خلاف بننے والے کالے قانون کو واپس لینے کے موڈ میں ہے۔ مزید یہ کہ پہلے مسلمانوں کی شبیہ کو داغ دار کیا جارہا تھا اور اب کسانوں بالخصوص سکھوں کو ہرساں کرنے کی سازشیں شروع ہوچکی ہیں کوئی انھیں ملک مخالف بتا رہا ہے تو کوئی پاکستان کی طرز پر کھلیستان کی بات کررہا ہے ۔۔۔۔۔ اور اب تو شک کی سوئیاں کچھ یوں حرکت میں ہیں کہ لدھیانہ میں ایک ایئر فورس ملازم کی گرفتاری بھی سازش کا حصہ لگنے لگی ہے۔ اللہ کریم انسان وانسانیت کی حفاظت فرمائے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں