ایم جے اکبر کا بی جے پی سے پریم کوئی نیا نہیں ہے گذشتہ کئی برسوں سے وہ اپنی تحریروں کے ذریعہ بی جے پی کے گن گان میں مصروف دکھائی دیتے تھے وہ جس ٹی وی چینل میں ایڈیٹو ریل ایڈوائزر رہیں اس کی آر ایس ایس نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ اکبر صاحب نے انگریزی کے نوجوان مسلم صحافی کی حیثیت سے بڑا نام کمایا تھا ۔ ان کی نوجوانی اور قابلیت سے متاثر ہوکر راجیو گاندھی نے انہیں کانگریس میں شامل کرکے کشن گنج سے امیدوار بنایا اور راجیو لہر میں جیت کر وہ پارلیمنٹ پہنچے لیکن پارلیمنٹ میں اپنی کوئی شناخت نہیں بناسکے اس زمانہ میں راجیو گاندھی نے انہیں روز نامہ نیشنل ہیرالڈ کا چیف ایڈیٹر بھی بنانا چاہا لیکن شاید اجرت اور دیگر سہولیات کو لے کر معاملہ بن نہیں پایا تھا۔ اپنے رویہ اور ’’دیگر مصروفیات‘‘ کی وجہ سے وہ کشن گنج کے عوام کا بھی دل نہیں جیت سکے نتیجتاً نہ سیاستداں ہی بن سکے اور نہ ہی حسب سابق مایہ ناز صحافی رہ سکے۔
راجیو گاندھی کی نا وقت موت کے بعد ان کے بہت سے وفاداروں نے پالا بدل دیا ان میں ایم جے اکبر بھی شامل تھے۔ اب ان کا واحد کام کانگریس اور نہرو گاندھی خاندان کی بخیہ ادھیڑ نا رہ گیا تھا جس کی بناپر وہ بی جے پی کی آنکھ کے تارے بنتے گئے ۔ سنگھ پریوار نے جب نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا تو اسے اپنی راہ میں سب سے بڑا روڑا تقریباً20فیصد مسلم ووٹر ہی دکھائی دئے ۔ اطلاعات کے مطابق ایم جے اکبر نے پہلے مودی سے ملاقات کی اور اس مسئلہ پر غور و خوض کیا اس کے بعد اردو کے ایک ہفتہ وار ایڈیٹر کی مودی سے ملاقات کرائی گئی جنہوں نے مودی کا انٹر ویو پہلی بار اردو کے اخبار میں شائع کیا یہ حیرت انگیز بات ہے کہ جو نریندر مودی الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں انہوں نے کبھی کسی چینل یا اخبار کو انٹر ویو نہیں دیا لیکن اردو سے انہیں اتنی محبت ہے کہ وہ اردو کے ایک ہفت روزہ کو انٹر ویو دینے پر راضی ہوگئے ۔ اس انٹر ویو کے نتیجے میں اردو کے ان ایڈیٹر صاحب کو ملائم سنگھ یادو نے اپنی پارٹی سے نکال باہر کیا ۔ بعد میں ان دونوں نے کچھ زمانہ ساز علماء مسلم دانشوروں اور اردو کے قلم کاروں کی مودی سے ملاقات کرائی اس میٹنگ میں اس بات کا فیصلہ ہوا کہ مودی کی کھل کر حمایت کرنے سے مسلمان بر گشتہ ہوسکتے ہیں اس لئے بہتر ہوگا کہ مودی کی کھل کر حمایت کرنے کے بجائے کانگریس کو ہی ہر مسئلہ میں نشانہ پر رکھا جائے اس سے جو مسلم ووٹر مودی کا راستہ روکنے کے لئے متحد ہورہاہے وہ بکھر جائے گا اور مودی کا راستہ صاف نہیں تو آسان ضرور ہوجائے گا ان کے اس مشورہ پر گذشتہ کئی مہینوں سے عمل ہورہاہے اور ہر قلم کا مجاہد کانگریس کی خامیاں گنانے میں جٹا ہواہے لیکن مسلم ووٹر ان سے زیادہ ہوشیار معاملہ فہم اور محب وطن ہے۔
ہر ہندوستانی کو اپنی پسند کی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے اور اپنی پسند کے لیڈرکو اعلا ترین کرسی پر پہنچانے کی کوشش کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ایم جے اکبر ہوں یا کوئی اور مسلم لیڈر اگر وہ مودی کی حمایت کرتے ہیں تو کوئی مرتد ملحد یا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوجائیں گے ۔ لیکن صرف مسلمانوں کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ملک و قوم کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بی جے پی متحدہ ہندوستانی قومیت یہاں کی گنگا جمنی تہذیب ، مشترکہ تاریخی وراثت کی ہی دشمن نہیں ہے بلکہ در اصل اس کو اس ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا وجود ہی برداشت نہیں ہے بلکہ وہ تو ساور کر اور گولوالکر کے نظریہ کے مطابق ان دونوں قوموں کو ہندوستان کا دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھنا چاہتی ہے مودی نے گجرات میں مسلمانوں کو ذہنی طور سے شکست خوردہ اور عملی طور سے بے اثر کردیا ہے اسی لئے وہ آر ایس ایس کی آنکھ کا تارہ ہے اور آر ایس ایس مودی کے ذریعہ پورے ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے ویساہی ماحول بنانا چاہتی ہے ۔ سیاسی پارٹی کے طور پر بی جے پی بھلے ہی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی باتیں کرے لیکن درپردہ اس کی ذیلی تنظمیں وشو ہندو پریشد بحرنگ دل اور درگا واہنی پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول تیار کررہی ہیں ۔ ذی شعور ہوش مند اور دور اندیش ہندو اس حکمت عملی کو سمجھ رہے ہیں اور اس کی پر زور مخالفت کررہے ہیں ایسے میں چند مسلمانوں کا بی جے پی میں شامل ہونا اس کے خطرناک اردوں کو تقویت پہنچائے گا اور ملک کے سیکولر عناصر کے ہاتھوں کو کمزور کرے گا اس لئے ایم جے اکبر اور اعجاز علمی جیسوں کا بی جے پی میں شامل ہونا نہ صرف ملت فروشی بلکہ وطن دشمنی کے زمرہ میں سمجھا جارہاہے۔
جواب دیں