پھوٹے گی صبحِ امن لہو رنگ ہی سہی

 

  محمد عاکف ندوی

  

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

 تیری بربادیوں کے مشورہ ہیں آسمانوں میں

 

اِن دنوں ہمارے  وطنِ عزیز ہندوستان بڑے نازک حالات سے گزر رہا ہے، ایک طرف حکومت اپنی طاقت کے ذریعے مسلمانوں پر ظلم کی آگ برسا رہی ہے اور اپنی اسلام دشمنی کا علی الاعلان مظاہرہ کر رہی ہے 

تو دوسری  طرف **آر ایس ایس* اپنے سیاسی رہنماؤں  کے ذریعہ ملک کے چپہ چپہ میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے میں مصروف اور سرگرم عمل ہے۔ 

اور ایک  طرف مسلمان ہے کہ خواب ِ غفلت میں مدہوش نہ کسی مصیبت کی پرواہ نہ حالات کی سنگینی کا احساس ۔

 

 

اس وقت پورا ملک ظلم کی آگ میں لپٹا ہوا ہے، دشمن اپنی طاقت کے بل بوتے پر  دندناتا پھر رہا ہے، 

وہ اس بات سے لاعلم ہے کہ سیاسی قوت سے بڑھ کر قدرت کی ایک لاٹھی ہے جو خاموش مگر  بہت زیادہ عبرت انگیز ہے 

جس نے بڑے بڑے ظالموں کو نہیں بخشا جنہیںآج بھی ایک تازیانہ عبرت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے 

اسوقت  پورے ملک میں کشمیر سے لیکر کنیا کماری اور شمال سے جنوب تک  حکومت اور اسکے  ناعاقبت اندیش فیصلوں اور  اسکے مظالم کے  خلاف احتجاج  اور مظاہروں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔

 

ایک طرف ظالم خون کی ہولی کھیل رہا ہے تو دوسری طرف کچھ سرپھرے نوجوان اور امت کے جیالے حق گوئی اور بے باکی کی تصویر بنے ہوئے ملت اسلامیہ ہندیہ کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہیں ۔ 

 

 ہندوستان کے جامعات اور یونیورسٹی کے طلباء میں  انقلاب کی لہر اٹھ چکی ہے، ایک طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ مجوزہ بل کے خلاف ہر طرح کے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں، تو دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کے نتیجہ میں ظلم و الم کی تصویر بنے ہوئے ہیں 

 

یہی حال ملک کی تمام یونیورسٹیوں اور جامعات کا ہے جہاں  یونیورسٹی کے طلباء  ظالم اور اس کے ظلم کےخلاف اپنے ممکنہ وسائل کا استعمال کر رہے ہیں ۔۔

 

 بول کہ لب آزاد ہیں تیرے 

بول کہ جاں اب تک تیری ہے

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے

 جسم وزباں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

 بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

 

 کل رات دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنئو کے طلباء نے بھی  بل کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہوئے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اور حکومت کو اس  بات کا احساس دلایا کہ مسلمان وہ قوم  نہیں کہ جنھیں تر نوالے کی طرح  نگلا جاسکے ،ہم اس ملک میں نہ کسی کے بلانے پر آئے تھے اور نہ کسی نکالنے پر جائیں گے

 

ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائیں گے

 

نہ بلائے آپ کے آئے ہیں

نہ نکالے آپ کے جائیں گے

 

اسوقت ملک بڑے نازک حالات سے گزر رہا ہے ان حالات میں مسلمانوں کو دامے درمے سخنے قدمے ظلم کے خلاف یکہجتی کے ساتھ صدائے احتجاج  بلند کرنے کی ضرورت ہے 

 

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

 

ان نازک حالات میں مدرسہ کے طلباء  کو  اپنے مدرسوں سے ،بوریا نشینوں کو اپنی خانقاہوں سے نکل کر  ظلم کے خلاف صدا بلند کرنی چاہیے کیونکہ اسوقت پورا ہندوستان جل رہا ہے، اور آپ کے علمی مراکز اور دانش گاہوں کو خاکستر بنانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، 

کہیں ایسا نہ ہو کہ صاحب علم،دانشورانِ قوم اور علما کی بیجا بحثیں ہمیں حالات کی نزاکت سے بےخبر کردے   اور ہم خانقاہوں اور  مدارس میں قید ہو کر دشمن کی یلغار کو کامیاب بنانے کے لئے ایک ذریعہ ثابت ہوں اور اِس ملک میں دوبارہ اسپین کی تاریخ دہرائی جائے۔ 

 

 *نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری*

 

 *کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری* 

 

 *وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے* 

 

 *تیری بربادیوں کے مشورہ ہیں آسمانوں میں*

 

 *اِن نازک حالات میں یہی  وقت کی پکار اور  دشمن سے جہاد ہے* 

 

 اس موقع پر ہمارے ملی قائدین اور تمام مسلم جماعتوں کو اپنے جزوی اختلافات سے بلند ہو کر   ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے ،اور  ظالموں اور باغیوں کے خلاف  منصوبہ بند طریقے پر کام کرنے کی ضرورت ہے جسکے لئے ہر ممکنہ وسائل سے تعاون حاصل کیا جائے اور حکومت کو اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے 

 

 

اسی طرح  کیب اور این آر سی  جیسے غیر دستوری بل کے خلاف اُس وقت تک  صدائے احتجاج بلند کی جائے جب تک حکومت  اس بل کو واپس نہ لے  لے ۔

 

ہندوستان کے باشندوں  چاہے انکا تعلق  مدرسے اور کالج کے طلباء و طالبات سے ہو  یا کسی اور تحریک سے، انہیں  اس بات کا  پورا پورا  احساس ہونا چاہیے کہ ان مظاہروں میں شریک ہونا اور ظلم کے خلاف صدا بلند کرنا اور اس راہ میں ہونے والے مظالم کو سہنا ایک بہادرانہ قدم ہے جو در اصل  ملک  اور مذہب کی حفاظت کے لئے اٹھایا جانے والا لائق صد تحسین قدم ہے جسے  آنے والی نسلیں  ہمیشہ لازوال کارنامہ کے طور پر یاد رکھے گی  

 *ورنہ* 

 *نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو* 

 

 *تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں*  

 

 *اسلئے ظلم کے خلاف ہر طرح کے وسائل کا استعمال کیجئے*

 *ظالم کو للکار یے اور مظلوم کا ساتھ دیجئے** 

 

 

ایسا نہ ہو کہ تاریخ نویس جب اپنا نوشتہ اٹھاکر اس دور کی تاریخ درج کر رہا ہو تو  ہمارا شمار تاریخ ساز لوگوں میں ہونے کے بجائے تاریخ مسخ کرنے والے لوگوں میں  شامل ہو جائے جو ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے ذلت اور رسوائی کا ذریعہ ثابت ہو ۔ 

 

 ،  اسلئے خدارا  اپنی بیداری کا ثبوت پیش کیجئے ، حالات کی نزاکت کو محسوس کیجئے اور حتی المقدور ظلم اور ظالم کے خلاف صدا بلند کیجئے یہاں تک کہ ہمیں انصاف ملے اور ہم اس ملک میں ایک باعزت شہری کی حیثیت سے زندگی گذار سکیں ۔

 

 

 *قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے* 

 

 *ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو* 

 

 *کہہ دو اسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے*

 

 *اُس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی*

 

 *ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم*

 

 *ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے*

 

 *پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر* 

 

 *تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے* 

 

 *کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی* 

 

 *یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے* 

 

 *یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے* 

 

 *جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو* 

 

 *وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے* 

 

 *پھوٹے گی صبحِ امن لہو رنگ ہی سہی*

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے