اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کجریوال صاحب کے بدترین دشمن مرکزی حکومت کے مالک و مختار ہیں۔ شری مودی کے مخالف راہل گاندھی بھی ہیں اور نتیش کمار بھی۔ اور وہ دونوں اختیارات کے اعتبار سے کجریوال سے بہت اوپر ہیں لیکن مودی کو اور بی جے پی کو جتنا نقصان کجریوال نے پہونچایا ہے اُن دونوں نے مل کر بھی نہیں پہونچایا بلکہ پورے ملک میں جتنے مخالف ہیں سب نے مل کر بھی نہیں پہونچایا۔
آج اروند کجریوال کو یہ کہنا پڑرہا ہے کہ میڈیا کو اُن کے مخالفوں نے عام آدمی پارٹی کو ختم کرنے کی سپاری دی ہے۔ کل کجریوال تقریر کرتے کرتے پھٹ پڑے اور انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ میڈیا اُن کی ایسی کی تیسی کرنے پر آمادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کا دہلی میں اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے کہ وہ ہر دن سو دو سو لفنگوں کو ہاتھوں میں بینر لے کر یا کجریوال کے گھر بھیج دیتی ہے یا اُن کے دفتر۔ وہ گھنٹوں نعرے لگاتے ہیں پتلا پھونکتے ہیں اور میڈیا کا ہر چینل اس خبر کو اپنے تبصرے کے ساتھ اس طرح دکھاتا ہے جیسے کجریوال سے پوری دہلی ناراض ہوگئی ہے اور اگر آج الیکشن ہوجائیں تو عام آدمی پارٹی کے ہر اُمیدوار کی ضمانت ضبط ہوجائے گی۔
لکھنؤ میں رہنے والوں کے نہ جانے کتنے دہلی والوں سے تعلقات ہوں گے۔ ہمارے بھی نہ جانے چاہنے والے ہیں۔ کتنے وہ ہیں جو وہاں کے حالات سے ہمیں باخبر رکھنا ضروری سمجھتے ہیں اور کتنے وہ ہیں جو دہلی کے اخباروں میں ہمارا کالم پڑھتے ہیں اور اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ان سب سے بہت زیادہ معتبر ہمارے بیٹے ہیں جو جامعہ ملیہ میں ایک فیکلٹی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہیں۔ اُن کے ملنے والے اور شاگرد دہلی کے ہر علاقے کے رہنے والے ہیں۔ اُنہیں جامعہ میں بیٹھے بیٹھے پوری دہلی کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔
دہلی میں جب صوبائی الیکشن ہورہے تھے تو ایک بھی چینل ایسا نہیں تھا جو کجریوال کو 20 سیٹوں سے زیادہ دے رہا ہو۔ بعض کرم فرما 32 اور بعض 28 دے رہے تھے۔ ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ مقابلہ بی جے پی اور عاپ کا ہے لیکن کانگریس بھی اس بار آٹھ سے زیادہ سیٹیں لے آئے گی۔ این ڈی ٹی وی انڈیا کے ایڈیٹر اور سینئر رپورٹر مسٹر منورنجن بھارتی روزانہ پندرہ منٹ فیشن ایبل ڈھابوں میں گذارتے تھے اور سو آدمیوں سے کہلوا دیتے تھے کہ بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔ اور کجریوال غیرذمہ دار ہیں۔ اس وقت ہماری اطلاع یہ تھی کہ کانگریس کے آصف اللہ خاں شاید جیت جائیں ورنہ کانگریس کا کھاتہ صاف ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ بی جے پی پندرہ سیٹیں جیت لے تو بہت ہیں۔ اگر میڈیا بکا ہوا نہیں ہے تو منورنجن بھارتی کبھی مسلم محلوں میں کیوں نظر نہیں آئے؟ کبھی غریبوں کی بستی میں کیوں نہیں گئے؟ اور آخری دن مسٹر چورسیا نے رات کے 9:00 بجے کیوں کہہ دیا کہ کجریوال کو 53 سیٹیں مل رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کو معلوم تھا لیکن سب کی کوشش یہ تھی کجریوال کے جتنے ووٹ بھی کم ہوسکیں کرادیئے جائیں۔
پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کو بی جے پی نے ہی خرید کر کجریوال کے مقابلہ پر کھڑا کیا تھا۔ اور لاکھوں روپئے دے کر بی جے پی چاہتی تھی کہ وہ دوسری پارٹی بنالیں۔ مشہور بات ہے کہ ’’آدمی غصہ میں اندھا ہوجاتا ہے۔‘‘ بی جے پی کے جو نادان دوسری پارٹی بنواکر کجریوال کو ختم کرنا چاہ رہے تھے وہ یہ بھول گئے تھے کہ بی جے پی کو نیست و نابود کرنے کے لئے کلیان سنگھ نے بھی پارٹی بنائی تھی اور پھر وہ برہمنوں کے قدموں پر سر رکھ کر واپس آگئے تھے۔ آج کی گنگا ماں کی وزیر اوما بھارتی نے بھی بی جے پی کو ختم کرنے کے لئے پارٹی بنائی تھی۔ اُن کا کیا ہوا سب کو معلوم ہے؟ اس وقت مودی اور اُن کے اشارہ پر میڈیا ہر قیمت پر کجریوال کو کمزور کردینا چاہتا ہے۔ انہیں کمزور کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مسلمان پوری طرح اُن کے ساتھ ہیں۔ مودی اور پارٹی کو معلوم ہے کہ اس کے سب کے سب ووٹ اسے ہی ملے ہیں اور کجریوال کو کانگریس کے سارے ووٹ مل گئے اور اب ہر جگہ اسی نسخہ کو آزمایا جارہا ہے اس لئے سپاری دی گئی ہے لیکن میڈیا کو اپنی آبرو فروخت کرتے وقت یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی آبرو کنواری لڑکی سے زیادہ قیمتی ہے۔
مودی اب بہار کے الیکشن کو ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بہار کے مسلمانوں کو اپنا بنانے کے لئے گجرات سے مودی نواز مسلمانوں کو بلایا ہے۔ گجرات سے خبریں آرہی تھیں کہ وہاں مسلمان بی جے پی کے ممبر بن رہے ہیں۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ کس پارٹی کے ممبر بنو وہ کہتا ہے کہ مسلمان رہو اور بس۔ گجرات میں دو مہینے پہلے ایسے قانون بنا دیئے تھے جن کی وجہ اب وہاں پوری طرح پولیس کی حکومت ہے ان میں ہر قانون صرف مسلمانوں کے لئے ہے اس لئے کہ ایسے قوانین کی ٹوپی ہندو کے سر پر فٹ نہیں آتی۔ اُن کے لئے صرف مسلمانوں کے سر ہیں۔ ٹاڈا ہو، پوٹا ہو یا مکوکا سب صرف مسلمانوں کے لے ہیں۔ غلطی سے پانچ ہندوؤں کے سر پر رکھ دیئے گئے تھے۔ جیسے ہی مہاراشٹر میں بھگوا سرکار آئی مکوکا اُن کے سر سے ہٹالیا گیا۔ ایسے میں اگر مسلمان بی جے پی کے ممبر نہ بنیں تو کیا اویسی کا دامن پکڑیں؟
یہ کجریوال کا ہی کارنامہ ہے کہ مودی ذہنی طور پر پراگندہ ہوگئے ہیں۔ کاش اُنہیں یاد آجائے کہ جس مسلمان نے کانگریس کی بات اس زمانہ میں کی تھی جب مراد آباد، میرٹھ اور بابری مسجد کی وجہ سے مسلمانوں نے کانگریس کو طلاق دے دی تھی تو ایسے ہر مسلمان کو سرکاری مولوی کہا جاتا تھا۔ اب بہار، بنگال یا اُترپردیش میں گجرات سے جتنے مسلمان آئیں گے انہیں شاہ نواز، مختار عباس وغیرہ سے زیادہ بڑا مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ چاہے بڑی داڑھی والے سریش والا صاحب کی کیوں نہ ہوں۔
شری مودی کے سامنے شاید کانگریس کا رجسٹر رکھا ہے اور وہ اسے دیکھ کر چالیس برس حکومت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ انہیں کوئی بتائے کہ یہ کارنامہ نہ پارٹی کا تھا اور نہ مسلمان اس کے غلام تھے بلکہ ملک کی تقسیم کے بعد مسلمان اپنے کو چور سمجھ رہے تھے اس لئے کہ مسٹر جناح اور ملک کے 80 فیصدی مسلمانوں نے یہ کہہ کر پاکستان بنوایا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کی جان، اُن کے مال اور اُن کے مذہب کی حفاظت کے لئے ایک الگ ملک چاہئے۔ مسلمان اندھے ہوگئے تھے جو وہ اپنے سب سے بڑے دشمن محمد علی جناح کو قائد اعظم سمجھ بیٹھے۔ وہ جناح جنہیں نہ نماز سے مطلب تھا نہ روزوں سے نہ حج سے نہ زکوٰۃ سے۔ اور مسلمانوں نے اُن کی بات نہیں مانی جن کی زبان پر ہر وقت صرف قرآن اور حدیث رہتی تھی۔ اگر 80 فیصدی مسلمان پاکستان چلے جاتے تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہتا لیکن گئے تو لاکھوں اور رہ گئے کروڑوں۔ اس لئے جو رہ گئے وہ اپنے کو ناحق سمجھنے لگے۔
اب تیسری نسل ہے وہ احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہے۔ وہ اگر مطمئن ہے تو سونیا کو بھی اقتدار سونپ سکتی ہے اور ناخوش ہے تو لالو کو بھی پیدل چلنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ یہ مودی صاحب کی بھول ہے کہ گجرات کے مسلمان بہار کے مسلمانوں کو مودی نواز بنا دیں گے۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھیں گے کہ شری مودی نے اجمیر چادر بھیجی ہے۔ اگر مودی صاحب نے رام زادے اور حرام زادے کی سزا میں وزارت سے ہٹا دیا ہوتا، لوجہاد اور چار بیوی چالیس بچوں کا پہاڑا پڑھنے والوں کو لگام دی ہوتی 800 برس کی غلامی کے بعد آزادی کی بات کرنے والوں سے رشتہ توڑ لیا ہوتا اور مسلمانوں کو بھروسہ دلایا ہوتا کہ پوٹا اور مکوکا کی فولادی ٹوپی ہندو کے سر پر بھی رکھی جائے گی۔ اور برسوں جیل میں رہنے کے بعد باعزت بری ہونے والے مسلمانوں کو ایک ایک کروڑ روپئے معاوضہ دیا ہوتا اور ان پر جھوٹے مقدمے قائم کرنے والوں کو سزا دلائی ہوتی یا برخاست کردیا ہوتا اس لئے کہ مودی کو معلوم تھا کہ یہ جھوٹے ہیں تو ملک کے سارے عالم اور مفتی بھی روکتے تو مسلمان مودی، مودی، مودی کے نعرے لگانے سے نہ رُکتے۔ آج گجرات کے ایک ہزار مسلمان ایک طرف اور کجریوال اکیلا ایک طرف کھڑے ہوں تو دیکھنے والے دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ صرف اس لئے کہ شری مودی وہ نہیں کرتے جو کسی کو اپنا بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔
جواب دیں