اُن سے اگر پوچھا جائے کہ زندگی میں کھویا کیا ہے او رپایا کیا ہے؟ تو یہ جواب دیں گے کہ جو گاجر کے حلوے میں ڈالتے ہیں وہ ’کھویا‘ ہے اور جو صبح ناشتہ میں کھاتے ہیں وہ’ پایا‘ ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے سے کیا حاصل!۔ لیکن ہمارے درمیان کچھ جیالے ایسے بھی ہیں جو اُن سانپوں کو بِل سے نکلانے کی فکر اور جد و جہد میں مصروف ہیں جنھوں نے انسانیت کو ڈسا ہے ۔ اُنکی کوششیں ہیں کہ گجرات فسادات کے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جہاں ایک طرف ایسے افراد کی موجودگی اور سرگرمیاں ایک خوش آئند بات ہے وہیں دوسری طرف ملت کے صاحب ثروت افراد کو مظلومین کے لیے حصول انصاف کی اس جد و جہد میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے!۔
ہر زمانے میں ایساہوا ہے کہ حق کے لیے لڑائی لڑنے والوں کومشکلات کا سامنا کر نا پڑا ،اور تکلیفیں جھیلنی پڑیں۔ گزشتہ ۱۲ برسوں سے مظلومین کی حمایت اورطرفداری اور اُنکے لیے حصول انصاف کی جدوجہد میں کوشاں اِن حوصلہ مندوں کی راہ میں بھی مختلف طریقوں سے روڑے اٹکانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اور آج بھی انھیں آزمائشوں سے گزارا جا رہا ہے ۔ لیکن پھر بھی وہ خندہ پیشانی کے ساتھ اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں،اور مشکلات و مصائب سے نبرد آزما ہیں۔ مگر اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں اِن مخلصین کی برسوں سے جاری اِس جد و جہد کے رائیگاں جانے کے خدشات بہت حد تک بڑھ گئے ہیں۔ ’سب رنگ‘ ٹرسٹ او ر ’ سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس‘ کے بانی ممبران او ر انگریزی ماہ نامہ ’ کمیو نلزم کومبیٹ‘ کے مدیران تیستاسیتلواڈ اور جاوید آنندپر جنوری میں احمد آباد پولس کی جانب سے گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والوں کے ساتھ دھوکہ دہی کے معاملے میں ایک ۹ ماہ پرانی شکایت پر ایک کیس اس وقت درج کیا گیا جب ذکیہ جعفری اور تیستاسٹلواڈ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ نچلی عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گی۔
۱۹۹۲ -۹۳ کے ممبئی فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ’ سب رنگ ‘ ٹرسٹ قائم کیا گیا۔اور گجرات فسادات کے فوری بعد یکم اپریل ۲۰۰۲ کو قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے ’ سٹیزنس فار پیس اینڈ جسٹس‘ تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ تنظیم اُن چند ایک تنظیموں میں سے ہے جو ۲۰۰۲ کے فسادات متاثرین کو قانونی امداد فراہم کرتی ہے۔ اور جن کی کوششوں سے اب تک ۱۱۷ افراد کو جرم کا مرتکب قرار دے کر سزا سنائی جا چکی ہے۔ بھارت میں فسادات کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے جب کسی خاتون بالخصوص ایک سابق وزیر اور رکن اسمبلی کو فرقہ واورانہ فسادات میں عمر قید کی سزا دی گئی ہو۔ نروڈا پاٹیہ قتل عام کے لیے خصوصی عدالت نے سبھی 31 قصورواروں کو عمر قید کی سزا سنائی ۔ عدالت نے بی جے پی کی ما یا کوڈ نانی کو28 برس کی قیداور بابو بجرنگی کوتا حیات عمر قید کی سزا دی ہے۔ بابو بجرنگی کو نروڈہ پاٹیہ واقعہ کا اصل مجرم مانا گیا ہے ۔ خصوصی عدالت کی جج جوتسنا بہن یاگنک نے نروڈا پاٹیہ کے واقعہ کو کسی ’مہذب معاشرے پرکلنک‘ قرار دیا ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ذکیہ جعفری کی طرح اب بھی سیکڑوں فسادات متاثرین ایسے ہیں جنھیں اب تک انصاف نہیں مل سکا۔اور جو ۱۲ سال گزرجانے کے بعدبھی اس کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ اور جن کے لیے تیستا سیتلواڈ اور ان کے ساتھی صبر اور تحمل کے ساتھ قانونی لڑائی جاری کھے ہوئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے مجرمین کو ضمانتیں مل رہی ہیں جن کے مقدمہ میں عدالت کے جج یہ کہہ چکے ہیں کہ ’اس طرح کے بہیمانہ واقعہ کے مرتکبین کو ایسی سزائیں دی جانی چا ہئیں کہ جس سے مستقبل میں کبھی ایسا واقعہ نہ ہو‘۔ مایا کوڈ نانی اور بابو بجرنگی کو ضمانت مل چکی ہے۔ اس کے بر خلاف تیستاسیتلواڈ اور جاوید آنند کو ہراساں کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دنیا بھر کی حقوق انسانی کی تنظیمیں اورانصاف پسند افراد نے ان کے ساتھ اپنی حمایت اور یگانگت کا اظہار کیا ہے ۔اور وہ اس معاملے کوحصول انصاف کی کوششوں کو متا ثر اور کسی نتیجہ خیز انجام تک پہنچنے سے روکنے کی مایوسانہ کاوشیں قرار دیتے ہیں اور اس عمل کو بد نیتی اور بدلہ لینے کی نیت سے کی گئی کاروائی قرار دیتے ہیں۔قابل غور ہے کہ مجرمین کو ضمانتیں مل رہی ہیں اور انصاف کی لڑائی لڑنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔
کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کشتہ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
جن لوگوں کودھوکہ دہی کا الزام لگا کر ہراساں کرنے کی کوشش جاری ہے اُنکے اخلاق و کردار کا اندازہ لگانے کے لیے ایک واقعہ کا ذکر یہاں بے محل نہ ہوگا۔ ایک پروگرام کے سلسلے میں جب جاوید آنند بیڑ آئے تھے تو واپسی کے سفر میں، میں راقم الحروجاطعف اورکچھ دوست ان کے ساتھ آورنگ آباد تک گئے ۔جہاں انھوں نے ہمیں رات کے کھانے کی دعوت دی ۔ دو تین دن بعد ممبئی سے اُن کا فون آیا۔پوچھ رہے تھے کہ رات کے کھانے کا بل کیا میں نے ادا کیا تھا۔ میں نے نفی میں جواب دیا، تو پریشان ہو کر کہنے لگے میں نے اپنا ہوٹل کا بل چیک کیا تو اُس میں بھی رات کے کھانے کا بل شامل نہیں ہے۔بعد میں انھوں نے دو مرتبہ ہوٹل فون کر کے کہا کہ رات کے کھانے کا بل شامل نہیں کیا گیا۔جو لوگ اس اخلاق اور کردار کے مالک ہیں اُن پر دھوکہ دہی کاالزام لگایاگیا ہے۔ حقوق انسانی تنظیموں کے کارکنان اور انصاف پسندلوگ ان الزامات کو بے بنیاد مانتے ہیں اور انھیں اس بات کا یقین ہے کہ’ کچھ تو ہے جس کی پردارداری ہے‘۔
ٓ اس سے قبل بھی گجرات کی حکومت نے تیستا سیتلواڈ کے خلاف کئی دیگر مقدمات بھی دائر کیے جن میں اُن پر گواہوں سے جھوٹی گواہی دلوانے جیسے الزامات عائد کیے گئے ۔ایک دیگر کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ گجرات کی حکومت ۲۰۰۲کے فسادات سے متعلق ’سو فیصدی فرضی کیس میں‘ سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کو نشانہ بنا رہی ہے۔جسٹس آفتاب عالم اور جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی پر مشتمل بنچ نے یہ ریمارکس تیستا سیتلواڈ کی ایک پٹیشن پر سماعت کے دوران دیے۔عدالت نے کہا ’یہ سو فیصد فرضی کیس ہے جو درخواست گزار کو ہراساں کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔۔‘
جاوید آنند کا کہنا ہے کہ اُنکے معاملات صاف شفاف ہیں۔اس سلسلے میں انھیں کوئی فکر نہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے تمام بنک اکاونٹس کو منجمد کر دیا گیا ہے۔جس سے قانونی امداد کی فراہمی میں دقعتیں پیش آرہی ہیں۔تیستا سیتلواڈ کے مطابق گجرات حکومت کی خواہش ہے کہ کسی طرح اُنکی تنظیم کو مالی طور پر مفلوج کر دیا جائے ۔ تاکہ وہ فسادات متاثرین کو قانونی امداد پہنچانے کے قابل ہی نہ رہیں، اوراپنی کوششوں سے باز آجائیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ لیکن اگر فرض اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ موجودہ حالات کے تقاضے کہ تحت حصول انصاف کی اس جدوجہد میں دامے درمے قدمے سخنے کیا رول ادا کیا جا سکتا ہے تو پھر یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں اس طرح کے مذموم مقاصد میں کوئی کامیاب ہو سکے ، اور دنیا کی کوئی طاقت حصول انصاف کے لیے سرگرداں ان حوصلہ مندوں کے راہ میں روکاوٹ بن سکے۔
آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
جواب دیں