پھر قصور اپنا نکل آیا؟

 سہیل انجم

اب اس ملک میں یہ عجیب ریت چل پڑی ہے کہ مظلوم کو ظالم کہو، مقتول کو قاتل کہو۔ اور اس ریت کے سب سے بڑے شکار مسلمان ہیں۔ جب بھی کہیں مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی ہوتی ہے خواہ وہ فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں تو سارا کا سارا الزام مسلمانوں کے سر آجاتا ہے۔ ماضی کے فسادات اور مسلم مخالف اقدامات کو تو جانے دیجیے گزشتہ سال کے دہلی کے فسادات کو ہی لے لیجیے تو مسلمان ہی مجرم نظر آئیں گے۔ دہلی پولیس نے جتنی بھی کارروائیاں کی ہیں ان میں مسلمانوں کو ویلن کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور جن لوگوں نے مسلمانوں کا قتل کیا اور ان کی املاک کو تباہ و برباد کیا ان پر معمولی دفعات لگائی گئیں تاکہ وہ بہ آسانی چھوٹ جائیں۔ وہ تو شکر ہے کہ یہاں کی عدالتیں ابھی انصاف کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ عدالتیں بھی بیشتر وہ فیصلے سنا رہی ہیں جو حکمراں طبقے کو راس آئیں۔ لیکن پھر بھی عدلیہ کا معاملہ کچھ غنیمت ہے۔ دہلی فسادات کے تعلق سے دہلی کی عدالتیں پولیس کی گوشمالی کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پولیس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا۔ اس تمہید کی روشنی میں آسام میں گزشتہ دنوں ہونے والی بربریت پر نظر ڈالیں تو صورت حال بالکل واضح ہو جائے گی۔ وہاں بھی سارا قصور مسلمانوں کے سر تھوپا جا رہا ہے، انھی کی گرفتاری ہو رہی ہے اور انھی پر تشدد کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
دارانگ ضلعے کے سیپا جھاڑ علاقے میں پولیس نے جس طرح ایک نہتے شخص کے سینے میں گولی ماری اور جب وہ گر گیا تو اس پر لاٹھیوں کی بارش کر دی گئی اور پھر اس کے بعد مسلم دشمنی کے جنون میں اندھے ایک فوٹوگرافر نے جمپ لگا کر زمین پر بے حس پڑے شخص پر حملہ کیا اور اس پر مکوں کی بارش کی وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما اور پولیس سربراہ اور ہیمنت کے چھوٹے بھائی سوشانت بسوا شرما نے جس بے شرمی کے ساتھ پولیس کا دفاع کیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ واقعہ کے چند روز بعد 27 ستمبر کو اشتعال انگیزی کے الزام میں دو مسلمانوں عصمت علی احمد اور چاند محمد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر مختلف قسم کی دفعات لگا کر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ فوٹوگرافر بجے بنیا اگر چہ گوہاٹی جیل میں ہے لیکن اس بات کی قوی امید ہے کہ وہ جلد ہی رہا ہو جائے گا اور پھر اسی قسم کی کوئی دوسری حرکت کرے گا۔ حکومت کا یہ کہنا کہ بنیا کے خلاف جانچ کا یہ مطلب نہیں کہ اشتعال انگیزی کرنے اور پولیس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف جانچ نہیں ہوگی، اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ بجے بنیا کے تئیں نرم روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جب نامہ نگاروں نے ریاست کے پولیس سربراہ سے پوچھا کہ ایک شخص کو گولی مارنے اور لاٹھیاں برسانے والے پولیس والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوئی ہے تو جواب نفی میں دیا گیا۔ ظاہر ہے ان پولیس والوں کے خلاف کیسے کارروائی ہو سکتی ہے جو حکومت کے ایجنڈے پر عمل کر رہے تھے۔
صرف اتنا ہی نہیں کہ دو مسلمانوں پر بے دخلی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مشتعل کرنے کا الزام عاید کیا گیا بلکہ وزیر اعلیٰ شرما نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ تین مہینوں کے دوران ان غریب بے زمین لوگوں سے 28 لاکھ روپے اکٹھا کیے گئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ وزیر اعلیٰ خود ان لوگوں کو غریب اور بے زمین لوگ کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ان سے 28 لاکھ روپے اکٹھا کیے گئے۔ بھلا غریب کہاں سے اتنی بڑی رقم لائیں گے۔ اور اس رقم کا مصرف کیا تھا؟ پولیس کارروائی کو روکنا۔ یعنی ان 28 لاکھ روپیوں سے پولیس کارروائی روکی جاتی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بے دخلی کی کارروائی میں صرف 27 پولیس اہلکار شامل تھے اور ان پولیس اہلکاروں کو کارروائی سے روکنے کے لیے دس ہزار افراد اکٹھا ہوئے تھے۔ یعنی 27 پولیس اہلکاروں کو روکنے کے لیے دس ہزار لوگوں کو بلا لیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ کچھ زیادہ تو نہیں بول گئے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کارروائی سے صرف ساٹھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق 45 ہزار بیگھہ زمین خالی کرائی گئی اور آٹھ سو خاندان بے گھر ہو گئے۔ مجموعی طور پر پانچ ہزار افراد کے سروں سے چھت چھین لی گئی اور اب وہ یا تو کھلے آسمان کے نیچے یا پھر عارضی سائبان بنا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا یعنی پی ایف آئی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا لیکن اب پولیس کا کہنا ہے کہ جو دو افراد پکڑے گئے ہیں ان کا تعلق پی ایف آئی سے نہیں ہے۔
خیال رہے کہ جہاں ناجائز قبضہ ہٹانے کی مہم چلائی جا رہی تھی وہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ وہاں بنگالی بولنے والے مسلمان کئی دہائیوں سے آباد ہیں اور وہاں ان کی نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ وہیں وہ لوگ کھیتی باڑی کرتے اور پرامن انداز میں اپنی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ بی جے پی کی نظر گزشتہ کئی برسوں سے اس علاقے پر لگی ہوئی تھی۔ پہلے ان مسلمانوں کو این آر سی کے ہتھیار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن چونکہ ان کے پاس تمام جائز دستاویزات موجود تھے اس لیے ان کے نام این آر سی میں شامل ہوئے اور انھیں اجاڑنے کی سازش ناکام ہو گئی۔ پھر اس نے اسمبلی انتخابات کے موقع پر ہندو ووٹروں سے یہ وعدہ کیا کہ اگر اس کی حکومت دوبارہ آئی تو وہ ان مسلمانوں کو وہاں سے اجاڑ دے گی۔ دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد جب ہیمت بسوا شرما کو وزیر اعلیٰ بنایا گیاتو وہاں کے لوگوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا۔ چونکہ شرما مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں اور وہ مسلم دشمن سیاست کی بنیاد پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں اس لیے انھوں نے موقع دیکھ کر مسلمانوں کو اجاڑنے کا حکم دے دیا۔ پھر کیا تھا۔ سیکڑوں پولیس جوانوں کی معیت میں وہاں انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ پہلے 21 ستمبر کو دھولپور نمبر ایک دو اور تین میں کارروائی کی گئی اور سیکڑوں خاندانوں کو اجاڑ دیا گیا۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو پھر کارروائی کی گئی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس واقعہ کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ کسی خاطی کو سزا ہوگی یا جو فوٹو گرافر گرفتار کیا گیا ہے اسے کوئی سزا ملے گی۔ اسے چند دنوں کے بعد ضمانت مل جائے گی اور کوئی تعجب نہیں کہ اسے بی جے پی میں شامل کر لیا جائے اور اسے کوئی منصب مل جائے۔ کیونکہ گزشتہ چند برسوں سے یہی دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے ہر مجرم کو ا س کا انعام ملا ہے۔ اگر وہ بی جے پی کا رکن نہیں ہے تو اسے بی جے پی میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر بی جے پی میں ہے تو اسے کوئی عہدہ دیا گیا ہے۔ اگر وہ پولیس والا ہے تو اسے ترقی مل گئی ہے۔ لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ اس کارروائی میں شامل پولیس والوں کو انعام دیا جائے گا اور ان کی ترقی ہو جائے گی۔ دراصل یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ بی جے پی نے ملک میں نفرت انگیز سیاست شروع کی ہے۔ اس نے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ان کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ ماب لنچنگ کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ کہیں کوئی ویڈیو منظر عام پر آجاتا ہے تو کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ ورنہ بہت سے واقعات چھپ جاتے ہیں ان کا علم ہی نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس نفرت انگیز سیاست کی وجہ سے ہی مسلمانوں کو ہلاک کرنے یا ان پر تشدد کرنے والے بعض اوقات خود ہی اس کارروائی کی ویڈیو بناتے ہیں اور پھر اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔ انھیں اپنی اس غیر قانونی حرکت پر کوئی ندامت ہونے کے بجائے فخر ہوتا ہے۔ وہ خود کو حکومت و انتظامیہ کی نگاہوں میں لانا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں انھیں بھی کوئی عہدہ دیا جائے۔
ایک طرف سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف ایسی کارستانیوں پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ خاطیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا جاتا۔ ادھر آ ر ایس ایس کے سرسنگھ چالک یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہندو اور مسلمان ایک ہیں اور ماب لنچنگ کرنے والے ہندو نہیں ہیں اور ادھر وہ بھی ان وحشیانہ کارروائیوں پر زبان نہیں کھولتے۔ ورنہ وہ اگر ایک اشارہ کر دیں تو ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا مل جائے۔ سیاسی مبصرین کی جانب سے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کے آتے آتے اس قسم کے مزید واقعات ہوں گے تاکہ بی جے پی ان کو بھنا سکے اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا کر ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کرے۔ اگر اس ملک میں نفرت کی یہ سیاست اسی طرح چلتی رہی تو پورا ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اس وقت ملک کو بچانے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آج اپوزیشن جماعتوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ لیکن اس کی امید بہت کم ہے کہ وہ ان واقعات کے خلاف کھل کر سامنے آئیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈران بھی ڈرے سہمے ہیں اور اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ زبان کھولیں گے تو ان کے پیچھے سرکاری ایجنسیاں لگا دی جائیں گی۔ لیکن اگر یہ صورت حال زیادہ دنوں تک رہتی ہے تو ملک سے فرقہ وارانہ یگانگت اور بھائی چارے کا تانا بانا منتشر ہو جائے گا اور وہ ملک کا اتنا بڑا نقصان ہوگا کہ اس کی تلافی جلد نہیں ہو سکے گی۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

02اکتوبر 2021 (ادارہ فکروخبربھٹکل )

 
 

«
»

بنگال کے انتخابات ۔۔۔۔یوپی الیکشن کا پیش خیمہ ثابت ہو!!

دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا قرآنی نسخہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے