(دل کی آواز دل والوں تک)
از : سید محی الدین
ملک کے بدلتے حالات کے پیش نظر
*دل میں خوف اور مایوسی کی دستک ہو رہی ہے ہے،جذبات کا ایک موج روا اسے کچل کر کچھ کرنے کو چاہ رہا ہے کچھ بولنے کو چاہ رہا ہے*۔
دل کی اسی کشمکش سے دوچار یہ دل نہ جانے کیا کیا سوچ رہا ہے، کبھی قائدین کو دیکھتا ہے ، کبھی ضمیر کی آواز کو محسوس کرتا ہے، کبھی اپنے رہنماؤں کی حکمت عملی کو تلاش کرتا ہے، کبھی اپنی تاریخ پر نظر کرتا ہے۔
جب مظلوموں کا خون تصویروں سے ہوکر دل میں گردش کرتا ہے تو ظالم کے خلاف بد دعا نکلتی ہے،اور اپنی بے حسی پر افسوس ہوتا ہے۔
جب ماضی کے صفحات کو کھنگالتا ہوں تو امید کی کرنیں روشن ہوتی نظر آتی ہے، حال پر نظر پڑتی ہے تو امید کے عناصر نایاب نہیں تو کم یاب ضرور پاتا ہوں، کانوں میں آواز گونجتی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل ہندوستان میں تاریک ہے ۔
*انہی خیالات میں گم قرآن کریم کی یہ آیت یاد آتی ہے وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ*
ترجمہ:
*اور نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کھاؤ اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے.*
اب خیالات کا رخ اس پر مرکوز ہوگیا کہ ہمارے معاشرے کے ایمانی صورتحال کیا ہے؟ میری خود اپنی زندگی ایمان کے کتنے فیصد حصے پر عمل کرنے میں گزرتی ہے ؟ نوجوانوں میں دینی شعور و معلومات کتنی ہے؟ نوجوانوں میں حالات سے واقفیت کتنی ہے؟ نوجوانوں میں ملی شعور کتنا باقی رہ گیا ہے؟ نوجوانوں میں پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کتنی ہے؟ عرفی دین میں کتنی طاقت باقی ہے؟ پھر جب دوسرے معاشرتی مسائل پر نظر پڑتی ہے تو ایمانی صفات و جذبات سے بجز چند کے تماموں کو عاری پاتا ہوں۔
میرے دل میں اب یہ سوال پیدا ہوچکا ہے کہ حالات کا ذمہ دار کون؟
حکومت یا ہمارے ہاں اعمال
نوٹ: میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اس بل کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس سوال پر بھی ہمیں غور کرنا چاہیے!
جواب دیں