فلپائن میں مسلمانوں کے لیے نوید صبح آزادی

اس تقریب میں کم و بیش ایک ہزار موثرافراد موجود تھے جن کی موجودگی میں یہ معاہدہ دستخط پزیر ہوا اور اتنے کثیرافراد ایک طرح سے گواہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔تقریب میں تقریروں کے دوران رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے،خاص طور پر فلپائینی وزیراعظم اور ان کی مشیر انصاف نے جب اپنی ملکی آبادی کی نہ ختم ہونے والی غربت،جہالت ،ظلم ،بے انصافیاں اور بیماریوں کاتفصیلی ذکر کیااور پھر کہا کہ کہ نہیں نہیں اب ہم مزید خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہو سکتے تو شرکا کی آنکھوں نم ہو گئیں۔مسلمانوں کے صف اول کے راہنما بھی اس تقریب میں موجود تھے اور اتنی بڑی آبادی کے نمائندہ ہونے کے باوجود ان راہنماؤں نے اس سرکاری نوعیت کی عمارت میں پہلی دفعہ قدم رنجہ فرمایاتھا۔
فلپائین سمیت جنوب مشرقی ایشیا میں اس خطہ ارضی کے جملہ مسلمان کئی نسلوں سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں،گورا استعماری طاغوت جس طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیراور مشرق وسطی میں مسئلہ فلسطین اپنے خلف رؤں کو سونپ گیااسی طرح مذکورہ ایشیائی خطوں میں بھی نفرت اور بدامنی کے ایسے بیج بو گیا کہ آج تک کشت و خون اور جنگ و جدل کی بھٹی گرم ہے۔خاص فلپائین میں مسلمانوں نے 1960ء میں اپنی باقائدہ جدوجہد کا آغاز کیاتھا جب کہ وہ دیکھ رہے تھے مشرق و مغرب میں اقوام کوآزادیاں میسر آرہی ہیں لیکن وہ ہنوز غلامی کی تپش میں بری طرح جھلسائے جا رہے تھے۔فلپائنی حکومت نے ان کی محرومیوں کا ازلہ کرنے کی بجائے قوت سے انہیں کچلنے کا آغازکیااور آئے روز مسلمانوں کی بستیوں پر فلپائنی افواج کی چڑھائی ایک معمول کی کاروائی بن گئی۔فلپائینی مسلمانوں کی کسمپرسی دیکھ کر1976ء میں لیبیاکے حکمران کرنل قذافی نے مسلمانوں اور فلپائینی حکومت کے درمیان معاہدہ کرایا جس کے تحت کچھ محدودشہری وسیاسی حقوق کاوعدہ کیاگیا۔بوجوہ یہ معاہدہ پنپ نہ سکااور مسلمانوں کے نمائندے قاہرہ اور لاہور کے طواف کرتے ہی رہ گئے۔1987ء میں پھر ایک بار فریقین کورضامند کیاگیااور ایک اور معاہدے پر دستخط ہوئے۔بدقسمتی سے یہ معاہدہ بھی بہت چھوٹی عمر میں بداعتمادی کی بھینٹ چڑھ گیااور مسلمان باردیگرظلم کی چکی میں پستے رہے۔1997میں ایک بار پھر خیرخواہوں نے قتل غارت گری سے بچانے کی خاطر معاہدہ کرایالیکن 2000میں فلپائینی افواج نے اس وقت کے فلپائینی صدر مملکت جوزف استرادہ کے ایما پر مسلمان بستیوں پر دھاوابول دیا۔اب کی بار مسلمانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکاااورانہوں نے باربار کے اس سنگین مذاق کے جواب میں ہتھیار اٹھا لیے۔
اس کے بعد ایک طویل جدوجہد جاری رہی جس میں امن مزاکرات کے نام پر کئی مواقع پر مسلمانوں کو ان کی عملی جدوجہد سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن وہاں کی بیدارمغزمسلمان قیادت نے مزاکرات اور مسلح جدوجہد متوازی دائروں میں جاری رکھی جس سے فلپائینی حکومت کو یہ اندازہ ہو گیا کہ اب کی بار مسلمان کسی فریب اور دھوکے میں آنے والے نہیں ہیں۔ایک سے زائد مرتبہ فلپائین کی عدالت عالیہ نے بھی اس لڑائی میں اپناکردار اداکرنے کی کوشش کی لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل پایا،بلکہ مبصرین کے مطابق بعض عدالتی فیصلوں نے تو جلتی پر تیل کاکام بھی کیا۔اس دوران فلپائین میں ہونے والے دھماکوں اور غیر مسلموں کی قتل و غارت کو بھی مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن مسلمان راہنماؤں نے اس سے بالکلیہ انکار کیا تاہم فلپائینی افواج جب بھی مسلمان بستیوں کا رخ کرتیں تو کبھی انہیں موقع پر ہی خاطر خواہ جواب مل جاتا اور بعض اوقات گزشتہ تمام اقساط کو یک بارگی ادا کر دیا جاتا جس کے باعث افواج کا دماغ ایک عرصے تک درست رہتالیکن جیسے ہی ہاتھ جدا ہوتا تو دم ایک بار پھر ٹیڑھی ہو جاتی۔چنانچہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں میں ہی اس کشمکش میں سوالاکھ کے لگ بھگ مسلما ن شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیاجن کاتعلق جنوبی فلپائین سے تھا۔چونکہ یہ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی تھی اس لیے مغربی سیکولر استعمار بھی اسامہ بن لادن،القائدہ اور دہشت گردی کا گھسا پٹا راگ الاپتا رہالیکن اب ان نعروں کے کذب و نفاق سے دنیا آشنا ہو چکی ہے۔اوراب جب کہ فلپائینی حکومت نے مسلمانوں کی استقامت کو اپنی شہ رگ کے قریب تر محسوس کرلیااور دوسری طرف خدادندان یورپ و امریکہ کی آشیرباد بھی صرف طفل تسلیوں تک رہ گئی توفلپائینی قیادت نے بھی سیکولرازم کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے میں عافیت جانی اور مسلمانوں سے معاہدے پر مجبور ہوئے۔
معاہدے کی کامیابی کا سہرا خطے کے طاقتوراسلامی ملک ملیشیا اور کچھ بین الاقوامی صلح جو گروہوں کے سر جاتا ہے۔ملائیشیا کے وزیراعظم کی مساعی جمیلہ نے اس کارخیر کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔اس سلسلے کی سب سے پہلی فیصلہ کن نشست بھی ملائیشیاکے دارالحکومت’’کوالالامپور‘‘میں ہی 24جنوری2014کوہوئی جس میں فلپائینی حکومتی نمائندے اور مسلمانوں کے نمائندے ابتداََ ایک یادداشت پر دستخط کئے جس کے مطابق فلپائین کے مسلمان اکثریتی علاقے’’مینڈاناؤ‘‘ میں ایک نیم خودمختار ریاست جس کانام ’’بنگسامورو‘‘ہوگا قائم کی جائے گی۔’’مینڈاناؤ‘‘ اس وقت ریاست کا انتہائی جنوبی اورمکمل طور پر سمندر میں گھراایک بہت بڑا جزیرہ ہے،2010کی مردم شماری کے مطابق ڈھائی کروڑ سے متجاوزآبادی پر مشتمل یہ جزیرہ زرعی زمینوں کی سرسبزوشاداب اور ہری بھری فصلوں سے مالامال ہے ۔ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ کا یہ جزیرہ چاربڑے بڑے سمندروں کے عین درمیان میں واقع ہے۔’’بنگسامورو‘‘ کی قانون سازی کے لیے اگرچہ فلپائنی حکومت نے 2016تک کا وقت مانگا ہے جس کے دوران قانون سازی کے جمہوری ادارے باقائدہ اس کی توثیق کریں گے لیکن اصولاََ یہ طے ہو گیاہے کہ ملک کے جنوبی حصے ’’مینڈاناؤ‘‘میں مسلمانوں کی اپنی حکومت قائم ہو گی اور مسلمان مسلح گروہ اپنا آتشیں اسلحہ کسی تیسرے فریق کو جمع کرادیں گے ۔اس تیسرے فریق کا تعین مسلمانوں کے نمائندے اور فلپائینی حکومت باہمی رضامندی سے کریں گے۔فلپائنی فوج بھی یہ علاقہ خالی کردے گی جوفساد کی اصل جڑ ہے جبکہ مشترکہ پولیس قائم کی جائے گی جو امن و امان کی ذمہ داریاں سنبھال لے گی ۔اگلے مرحلے میں نومولودنیم خودمختار ریاست کے لیے قانون سازی کی جائے گی جسے فلپائینی گانگریس منظور کرے گی اورایک ریفرنڈم کے ذریعے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی جائے گی۔اس موقع پر متعدد کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں جن کے ذمہ مختلف نوعیت کے قانونی و عملی کاموں کی انجام دہی ہے۔خاص طور پر فلپائین اور ’’بنگسامورو‘‘کے درمیان پانیوں کی تقسیم،حدودکاتعین اوروسائل سے متعلق ضروری تفصیلات کافیصلہ ان کمیٹیوں کے ذمہ رہے گا۔’’کطاباطو‘‘کے بارے میں قوی امکان ہے کہ اس شہر کویہاں کا دارالحکومت بنایا جائے گا۔
یہ معاہدہ آزادی صرف فلپائینی مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی کل امت مسلمہ کے لیے ایک خوشگوارجھونکے کی حیثیت رکھتاہے۔خاص طور پر اس معاہدے کے ساتھ ہی مسلسل یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ تھائی لینڈ کی حکومت نے بھی اپنی ریاست کے جنوب میں برسرپیکار مسلمانوں سے ان کی محرومیوں کے ازالے کے لیے مزاکرات کا آغاز کر دیاہے اوربرما(میانمار)کے بھی مسلمان راہنماؤں نے فلپائینی مسلمانوں کی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ اسی طرح کے امن معاہدے کے ذریعے وہ بھی اپنی ملک کے جھوٹے اور ظالم ناخداؤں سے نجات حاصل کر سکیں۔اپنے زوربازوسے آزادی حاصل کرنے والے فلپائینی مسلمان قابل رشک ہیں اورانکی کامیابی کے لیے شرق و غرب کے فرزندان توحیددل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعاگوہیں۔اب یہ کل امت مسلمہ کی عمومی اورمسلمان حکمران اور اہل علم و فن و ہنر مند مسلمانوں کی خصوصی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسلمان ریاست کے حکمرانوں کو اپنے تجربات منتقل کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آزاد افغانستان کی طرح عالمی ساہوکاروں کاآسیب اس خطہ مسلمانان کو بھی اپنے حصارمیں باندھنے کی کوشش کرنے لگے۔فلپائینی مسلمانوں کی تاریخ اگرچہ اس مفروضے کے خلاف ہی ہے اور انہوں نے ساٹھ کی دہائی سے ہی میز اور میدان کی جنگ،دونوں میں طبع آزمائی ہے اور اب کامیابی نے ان کے قدم چومے ہیں لیکن پھر بھی سقوط غرناطہ سے سقوط کابل تک اور صلیبی جنگوں سے نیٹو کی شکست و ریخت تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ دشمن کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو وہ ہم سے غافل کبھی نہیں رہا۔پس مسلمانان فلپائین سے اتحادویگانگت،ان سے مالی و فنی تعاون اورقانون سازی سے ریاست کے اداروں کی تاسیس و تکمیل تک ان کے اوپرزمانے کی کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں بنے رہناتاآنکہ وہ اپنے تنے پر مضبوط ہو جائیں کل عالم کے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔مشرق و مغرب سے ٹھنڈی ہواؤں کی آمد ان پیشینگوئیوں کی تکمیل ہے جو کبھی تو مشاہر اسلام کوخواب کی صورت میں دکھائی دیں تو کبھی ان کی بصیرت آمیزی کو دیوانوں کی خام خیالیاں کہ کر ٹھکرایا گیا۔پس یہ ایک آفاقی حقیقت ہے اس زمین کا مستقبل انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے ہی وابسطہ ہے،انشاء اﷲ تعالی

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے