فلسطینی عوام پراب ظلم وبربریت کے بادل ہٹیں گے ؟

کہاگیاکہ پوری دنیامیں یہودیوں کاکوئی ملک نہیں ہے۔وہ بے وطن ہیں پوری دنیامیں امریکہ ،انگلینڈ،اٹلی،فرانس،روس کہیں بھی یہودکوگھرنہیں بنانے دیاگیا۔ایک زمانہ عرصہ قدیم سے مسلمانوں کے ارض فلسطین میں،جوچاروں طرف سے،مذہب اسلام سے گھیراہواہے۔یہودکوعالمی طاقتوں نے یوں مذہب اسلام کے دل میں ایک وطن اسرائیل دے دیا۔یہودی بے گھربے خانماں تھے۔انہیں دوسرے کے گھروں میں لاکربسادیاگیا۔پوری دنیاکے یہودی یہاں لاکربساناشروع کردیاگیا۔یہودیوں کے پاس سرمایہ کی کمی نہیں۔اسرائیل کے قیام کے موقع پرتقریباًپچاس ہزاریہودی تھے۔اب تک یہاں پرتقریباً۵۵؍لاکھ یہودی بس گئے ہیں۔۱۹۴۸؍میں فلسطین میں اسرائیل کے قیام کے وقت اس وقت فلسطینی عوام کی تعداد۱۴؍لاکھ تھی۔۱۵؍ہزارفلسطینیوں کوقتل کردیاگیا۔۸؍لاکھ فلسطینیوں کوان کے گھروں سے باہرنکال نکال کرمہاجرکیمپوں اورپڑوسی ملکوں میں ڈھکیل دیاگیا۔یہ کہاں کاعدل وانصاف کے دنیاکے بے گھریہودیوں کوبسانے کیلئے،دوسروں کے گھرکاقبضہ دیاجائے۔
عظیم تراسرائیل میں پوراشام،پورالبنان ،اردن وعراق کابڑاحصہ ،صحرائے بینابالائی نجداورمدینہ منورہ تک شامل ہے۔۱۹۴۸؍میں اقوام متحدہ کی ایک قراردادکے تحت فلسطین کے دوحصے کردئے گئے۔زیادہ ترحصہ عربوں کے فلسطین کیلئے رکھاگیا۔پوراپروشلم ان کے قبضہ میں تھا۔فلسطینیوں کی آبادی ۶۰؍لاکھ سے زیادہ ہے۔۷؍لاکھ اسرائیل میں ۱۵؍لاکھ مغربی کنارے اورغزہ کی پٹی میں۔۵؍لاکھ لبنان می،۵؍لاکھ اردن میں،ان کے علاوہ فلسطینیوں کی زیادہ آبادی شام اورمصرمیں ہے۔جب کہ یہ کئی دوسرے عرب ممالک اوردنیاکے دیگرملکوں میں بھی رہائش پذیرہیں۔اسرائیل کی موجودہ آبادی ۵۲؍لاکھ ہے۔یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ جب فسلطین میں۱۹۴۸؍میں فلسطین اسرائیل کاوجودہوا۔اس وقت پورے فلسطین پربرطانیہ کاقبضہ تھا۔جیسے ہی فلسطین کی تقسیم کے بعدبرطانوی حکومت وہاں سے ہٹی،عیاری،مکاری میں یکتائے زمانہ یہودیوں نے فلسطینیوں پرٹوٹ پڑے۔اس سے قبل باہرسے آئے ہوئے یہودی زیادہ قیمت لگاکرعربوں سے زمینیں چھین رہے تھے۔اب انہوں نے فلسطینیوں سے قصبے اوردیہات خالی کرانے کیلئے دہشت گردی شروع کردی۔تقریباً ۷۰۰؍فلسطینی دیہات اورقصبے میں یہودیوں نے جرمن نازیوں کاکرداراداکیا۔جوکچھ نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیاتھا۔وہ انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا۔اسرائیل مملکت کو۱۹۴۸؍میں اقوام متحدہ کے ذریعہ جتنی زمین ملی تھی۔اس نے بطورطاقت اس میں اضافہ کرلیا۔۱۹۶۷؍میں مصراورشام کے متعددحصوں پران جنگ کے ذریعے کافی زمینیں ہتھیالیں۔پورایروشلم اوربیت المقدس وغیرہ پرقابض ہے۔دھڑلے سے اسلامی مساجد،بیت المقدس،مسجداقصیٰ میں اسلامی دل آزاری کاکام جاری وساری رکھے ہوئے ہے۔فلسطینیوں کوان کی زمین اورگھروں سے بے دخل کررہاہے۔جہاں جہاں اردن،لبنان اوردیگرپڑوسی عرب ممالک میں فلسطین مہاجربن کے کیمپوں پربرسہابرس سے حملے کررہاہے۔زہریلی،تباہ کن،کیمیکل گیسوں کااستعمال،نہتے معصوم مسلمانوں پرکررہاہے۔مظلومین کوسالہاسال سے جیل میں رکھ کراذیت دی جارہی ہے۔انٹرنیشنل سالیڈیریٹی فارہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں بتلایاتھاکہ ۱۹۶۷؍سے ۸۷؍تک ۲۰؍سالوں کے عرصہ میں ۳۵۰۰۰؍فلسطینیوں کو،ظالم اسرائیلی حکام نے گرفتارکیا۔آج بھی ۵؍ہزارفلسطینی جیلوں میں ہیں۔جیلوں میں خواتین بھی مقیدہیں۔سینکڑوں فلسطینی مجاہدین جیلوں میں شہیدہوئے۔
قرآن کریم کی روسے یہودوعیسائی کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔جس کی مثال یہ واقعہ ہے۔یاسرعرفات کواسرائیل کے پشت پناہ امریکہ نے یقین دلایاتھاکہ اگرمسلح فدائین لبنان کوپرامن طریقہ سے خالی کردیں دوسرے ممالک چلے جائیں توجنگ بندی کی صورت میں ان کے اہل وعیال کی حفاظت کی جائے گی۔جس پراعتمادکرتے ہوئے یاسرعرفات نے یہ منصوبہ منظورکرلیااورفدائین نے اپنے لواحقین کاکشت وخوں روکنے کیلئے لبنان کوچھوڑدیا۔فدائین کی جانے کی دیری تھی کہ امریکہ کی شہ پراسرائیل نے ان کے اہل وعیال کے ساتھ ایسی خون کی ہولی کھیلی۔جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔لبنان میں اسرائیلی درندوں نے صابرہ اورشیتلامیں کمزورنہتے،معصوم فلسطینی بچے،بوڑھوں ،خواتین پرظلم وستم کی انتہاکردی۔بے انتہاخون بہایا۔
ظلم پھرظلم ہے بڑھتاہے تومٹ جاتاہے 
جن سربران عرب نے اسرائیل سے قربت کی۔سفارتی تعلقات بنائے وہ فناہوئے ان کاآج نام ونشان نہیں ہے۔آج وہاں اسلام پسندوں کی حکومت بنتی جارہی ہے۔ہرفرعون اورنمرودکیلئے موسیؑ ،ابراہیم ؑ کی سنت اداکرنے کیلئے ایک نیاجذبہ ایمانی وفکروعمل جابجانظرآرہاہے۔ صدرمرسی فرعون پرفخرکرنے والے جمال ناصرنہیں ہیں۔انہوں نے اسرائیل کی طرف آنکھ دکھانا شروع کردیاہے ۔حسنی مبارک نے غازہ پٹی کوجانے والاراستہ بندکردیاتھا۔یہاں سے فلسطینیوں کوخوراک ودوائیاں جاتی تھی۔اسے مرسی نے کھول دیا۔آج حسنی مبارک کہاں ہیں۔غازہ پٹی کوجانے والے تمام راستوں کواسرائیل نے بندکردیا۔بچوں کیلئے خوراک اوردوائیوں کے راستے بندکردیئے تھے عالمی حقوق انسانی کے اداروں نے احتجاج کیا۔بے اثرہوا۔ترکی جس کے تعلقات سفارتی سطح پراسرائیل سے تھے اس نے غازہ پٹی کی امدادی رسدلے جانے والے جہازپربم باری کی۔کئی شہیدہوگئے ۔ترکی نے ترکی بہ ترکی اسرائیل کوجواب دیا۔ترکی کے وزیراعظم نے واضح کہاکہ یہ اسرائیل ہی ہے جوخطے کے امن کیلئے خطرہ ہے۔اگروہ فلسطین میں غزہ میں افواج کاوحشیانہ استعمال کریں گے اورفاسفورس بموں کی بارش کریں گے توترکی ’’سب اچھا‘‘ کسی بھی صورت میں نہیں کہہ سکتا۔‘‘مزیدیہ کہ ترکی کے وزیرخارجہ نے اسرائیل کوخبردارکرتے ہوئے کہاکہ اگراسرائیل نے بین الاقوامی تفتیش سے انکارکیاتواس کوہرطرح سے تنہاکردیں گے۔‘‘بین الاقوامی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ایک نئے عالمی نظام کے نام پرامریکہ اوراس کے حلیفوں نے نام نہاد دہشت پسندی کی روک تھام کیلئے جوظالمانہ اقدامات پوری دنیامیں اورخاص طورپرمسلم ممالک کے خلاف کئے ہیں۔وہ اس سے دست بردارہوتانظرآرہاہے۔یورپین ممالک میں مغرب میں اسلام اوردہشت پسندی کی حقیقت منظرعام میں آتی جارہی ہے۔عالمی نظام کے درپردہ حقیقتوں کوسمجھاجارہاہے۔امریکہ اوراس کے حلیفوں کاجانی ومالی نقصان ہی نقصان ہے۔جس کا بوجھ وہاں کے عوام الناس پرہے۔عراق سے امریکہ ایک بعددیگرے اپنی افواج کوبلارہاہے۔اس طرح افغانستان سے بھی امریکہ اوراس کے حلیفوں کی افواج واپس جاری ہیں۔طالبان جسے جنگ جودہشت پسندی کیلئے،معتوب ٹھہرایاگیا۔بات چیت کی میزپربلایاجارہاہے۔کہتے ہیں کہ ظالم کی جان طوطے میں ہے۔ظالم اسرائیل کی جان اس کے مغربی حلیفوں میں ہیں۔یہ جب کمزورہوں گے۔طوطاخودبخود کمزورہوگا۔آج اسرائیل کی حالت تقریباً ایسی ہی ہے۔
مہاتماگاندھی نے کہاتھافلسطین فلسطینیوں کاہے۔جیساکہ ہندوستان ہندوستانیوں کاہے۔جواہرلال نہرونے ملک کے لئے غیرجانبدارنہ پالیسی اپنائی۔برسوں برس ہندوستان پوری دنیامیں چھوٹے،کمزورممالک کا ساتھ دیتانظرآیا۔ظالم کے خلاف،مظلوموں کاحامی تھا۔اوراسرائیل سے دوری بنائے رکھیں۔
اندراگاندھی اوریاسرفات کے درمیان بے انتہابھائی بہن کی طرح محبت تھی۔نسل پرست جنوبی افریقہ میں گوروں کی حکومت کے خلاف،ہندوستان نے کالوں کی حمایت کی اورنیلسن منڈیلاکاساتھ دیا۔عدل وانصاف ،مساوات،انسانی اقداروحقوق کی خاطر جوراستہ مہاتماگاندھی ،جواہرلال نہرونے ہندوستان کودکھلایا جس کادنیامیں ایک معیاری مقام تھا۔مفاد پرستی ،دنیاپرستی اوربھگوابرداروں کی قربت نے ہندوستان کواس کے معیاری مقام سے دورکردیا۔کل امریکہ اوراس کے حلیف عراق اورافغانستان سے انخلاکرکے نکل جائیں گے۔فلسطین ایک مکمل آزادریاست کے طورپر وجودمیں آجائی گی۔حقیقت پسندانہ،عدل وانصاف سے بھرپورومعیاری موقف یقینی طورپرہمارے ملک ہندوستان کے حقیقی مفادمیں ہوگا۔آج یورپ کے دوتین 
ممالک نے فلسطین ریاست کوتسلیم کیاہے اقوام متحدہ نے ایک مبصرریاست کادرجہ دیاہے جلدہی حالات فلسطینی ریاست اورفلسطنیوں کی حمایت میں ہورہے ہیں۔فلسطین کے قضیہ کوزندہ رکھنے میں حماس اور نوجوان فلسطینی مردوخواتین اوربچوں کانمایاں ہاتھ ہے۔

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے